اوورسیز پاکستانی یا سپر پاکستانی

اوورسیز پاکستانی یا سپر پاکستانی

احمقانہ نعرے لگانے میں ہمارا کوئی جواب نہیں۔ بعض اوقات تو اس طرح کا مبالغہ کیا جاتا ہے کہ سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔ ایک ایسا ہی دعویٰ پچھلے چند سال میں کیا جارہا ہے کہ ہم ایسا پاکستان بنائیں گے جہاں دوسرے ممالک سے لوگ نوکریاں کرنے کے لیے آیا کریں گے ۔ آج عالم یہ ہے کہ اپنی ساڑھے تین سال کی حکومت کے دوران کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہ کرنے والے اقتدار سے فراغت کے بعد پھر جلسوں میں کھڑے ہوکر یہی دعویٰ دہرا رہے ہیں۔ آفرین ہے ان کے اندھے عقیدت مندوں پر جو اب بھی کسی معجزے کے انتظار میں ہیں ۔ آئی ایم ایف نے پی ٹی آئی کی حکومت کے ساتھ معاہدے کے حوالے سے جو تفصیلات جاری کی ہیں وہ ایک مکمل چارج شیٹ ہے۔ اسی بدترین کارکردگی کے سبب اب ہم سے کوئی عالمی مالیاتی ادارہ یا دوست ملک آسانی کے ساتھ معاہدے کرنے پر تیار نہیں ۔ 2021 میں کرائے گئے ایک مستند سروے کے مطابق سال 2020 کی نسبت اس وقت بیرون ملک جاکر ملازمتیں تلاش کرنے کی کوشش کرنے والے پاکستانیوں کی شرح میں 27.60 فیصد کا اضافہ ہوگیا۔ ان اعداد و شمار کی تصدیق کے لیے کسی لمبے چوڑے تردد کی ضرورت نہیں۔کسی راہ چلتے شہری کو بھی روک کر پوچھ لیا جائے کہ کیا چاہتے ہو تو وہ ویزہ ہی مانگے گا ۔ ملکی اشرافیہ تو پہلے ہی سے بیرون ملک رہ کر پاکستان میں اپنے مفادات کا تحفظ کرتی آئی ہے۔ اب مڈل کلاس نے بھی یہ وتیرہ اپنا لیا ہے کہ جیسے ہی وسائل میں اضافہ ہو یورپ ، امریکہ ، کینیڈا ، آسٹریلیا کی راہ لی جائے۔ایسا ممکن نہ ہو تو کسی خلیجی ریاست میں ڈیرہ جمایا جائے ۔ یوں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایسے تمام افراد یہ محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان میں ان کا اور انکے بچوں کا مستقبل محفوظ نہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے گھرانوں کی واضح اکثریت اس وقت بھی پی ٹی آئی کی پرجوش حامی ہے ۔ مگر ان سے کوئی بھی پاکستان آکر اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ ڈالنے کے لیے تیار نہیں ۔ پی ٹی آئی سمیت مختلف پارٹیوں کے ادوار حکومت میں بیرون ملک سے کچھ لوگ ”نیا پاکستان “ کا عزم کرکے آتے ہیں اور پھر لمبی دیہاڑیاں لگا کر اپنے” اصل مقام “کو واپس لوٹ جاتے ہیں ۔ اس گروہ کو”منی ایسٹ انڈیا کمپنی“ کہنا غلط نہ ہوگا ۔ ویسے عام پاکستانی غلامی سے نکلے ہی کب ہیں ؟ انگریز چلا گیا ، اشرافیہ کو عوام پر مسلط کرگیا ۔ قانون کے اطلاق سمیت ہر معاملے میں دوہرا معیار آشکار کررہا ہے کہ پاکستان میں اب بھی حاکم اشرافیہ اور محکوم عوام کی صورت میں” دو قومی نظریہ “ کی جد و جہد چل رہی ہے ۔ سیاستدان چونکہ سب سے کمزور پوزیشن پر ہیں اس لیے سب کا غصہ انہی پر اترتا ہے ۔ ویسے بھی اسٹیبلشمنٹ کا یہ سوچا سمجھا روز اوّل سے طریقہ واردات یہی ہے کہ غلط کاری کوئی بھی کرے سارا الزام سیاستدانوں پر ڈال دو۔ اس وقت ہنسی آتی ہے جب عمران خان جلسوں میں کھڑے ہوکر کہتے ہیں کہ سیاستدانوں کے بچے باہر ہیں۔ کیا ان کے اپنے بچے میانوالی میں رہتے ہیں ؟ ویسے بھی لیاقت علی خان اور خواجہ ناظم الدین سے لے کر محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور نواز شریف تک جو سلوک سیاستدانوں اور ان کے گھر والوں کے ساتھ کیا گیا اس کے بعد اگر کوئی از خود یا مجبوری کے عالم میں ملک چھوڑ دے تو کس حد تک طعنے مارے جاسکتے ہیں ۔ اب نواز شریف کو ہی لے لیں ان کے ساتھ کیا نہیں کیا گیا ۔ جنرل مشرف کے مارشل لا کے بعد سے اگر ان کے صاحبزادے باہر ہیں تو اس کی ٹھوس وجوہات بھی موجود ہیں۔ سچی بات ہے کہ پاکستان میں سیاستدانوں کو ہی نہیں ان کے گھر والوں کو بھی طاقتور حلقوں کے عتاب کا نشانہ بننا پڑتا ہے ۔کسی کو بیٹی سمیت جیل میں ڈال دیا جاتا ہے تو کسی کو بہن سمیت گرفتار کر کے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے ۔ ان کی جائیدادوں اور کاروبار پر تابڑ توڑ حملے کرکے مالی لحاظ سے بھی مفلوج کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آئیڈیل صورتحال تو یہی ہے کہ ایسے حالات میں بھی سیاستدان اور ان کے گھر والے ملک نہ چھوڑیں۔ لیکن اگر وہ ایسا کریں تو کم ازکم یہ جواز تو موجود ہے کہ یہاں ان کی جان ، مال ، عزت 
تینوں کو خطرات لاحق رہتے ہیں۔ سوال تو ان سے کیا جانا چاہیے کہ جو پاکستان میں ہر قانون سے بالاتر ہیں پھر بھی یہاں رکنا گوارا نہیں ہے ۔ جرنیلوں اور ججوں کی فیملیاں یورپ اور امریکہ میں کیوں ہیں ؟ ان کے جو بچے پڑھنے باہر گئے ان میں کتنے واپس آئے ۔ بیرون ممالک میں ملازمتیں کررہے ہیں یا کاروبار جما رکھے ہیں ؟ اب اس حوالے سے اعداد و شمار کوئی نہیں دے گا کیونکہ کسی مقدس گائے کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا جاسکتا ہے ۔ اصل حکمران اشرافیہ کے گھر والے اگر پاکستان میں بھی ہوں تو اپنے بڑوں کی طرح ان کا شمار بھی سپر سیٹیزن کلاس میں ہی ہوتا ہے ۔ چھوٹی تو کیا بڑی اونچ نیچ ہو جائے تو بھی کوئی ان کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ ایسے تمام حلقے جو اس حوالے سے صرف سیاستدانوں پر منہ اٹھا کر تنقید کرتے ہیں انہیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ اب فرح گوگی کو ہی دیکھ لیں باہر تو وہ پہلے بھی آتی جاتی رہتی تھیں مگر جیسے ہی لگا حکومت جانے والی ہے ایک نجی طیارے میں بیٹھ کر دبئی پہنچ گئیں اور وہاں بیٹھ کر اب بھی جما کر پاکستان میں بزنس کررہی ہیں۔ بزدار دور میں وہ بنی گالہ کی وساطت سے پنجاب کی ” سپر چیف منسٹر “ تھیں لیکن ان کے احکامات پورے ملک میں چلتے تھے ، پنجاب میں حکومت کی واپسی کے بعد بھی ابھی تک خود واپس آنے کو تیار نہیں ۔ ان کے میاں بھی امریکہ میں کہیں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ ہمارے ہاں سے لوگ قانونی ہی نہیں غیر قانونی طور پر بھی باہر جارہے ہیں ۔ ہمارے سفارتخانوں کی کارگزاری اور وہاں موجودسکیورٹی اہلکاروں کے ذریعے ایک عرصے سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں پی ٹی آئی موافق ماحول بنایا جارہا تھا ۔ اب وہ اتنا اثر دکھا رہا ہے کہ اسے ایجاد کرنے والے بھی اسکی لپیٹ میں آتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے کا فیصلہ کیا گیا تو اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک بھی ڈرامے بازیاں کی گئیں ۔ آپ کو امریکہ میں مقیم وہ جھیل والا ڈاکٹر تو یاد ہی ہوگا جس نے عمران خان کی حکومت کے آنے پر اپنا سب چھوڑ کر پاکستان واپس آکر ملک کی خدمت کرنے کا اعلان کیا تھا مگر عمران خان کی حکومت ختم ہوگئی وہ نہیں آیا۔ جھیل والا ڈاکٹر واحد کریکٹر نہیں تھا بلکہ اس طے شدہ منصوبے کے تحت کچھ اور ایسے نمونوں کی بھی رونمائی کرائی گئی ان سے چند پاکستان لائے بھی گئے مگر وہ فورا ہی اپنے آشیانوں کو واپس لوٹ گئے۔ یہ سب اسی” گریٹ گیم “ کا حصہ تھا جس کے تحت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق بھی دیا گیا ، انتخابات میں مرضی کے نتائج لینے کے لیے آرٹی ایس سسٹم کی سخت بدنامی کے بعد الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا ڈول ڈالا جانا تھا ۔ اگرچہ پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے پر پارلیمنٹ نے یہ بل ختم کردیا تھا لیکن اب یہ معاملہ سپریم کورٹ کے انہی جج حضرات کے پاس زیر سماعت ہے جن کے متعلق تاثر ہے کہ وہ عمران خان اور انکے ساتھیوں کو ہر معاملے میں ریلیف دیتے ہیں۔ یہ کہہ دینا کہ بیرون ملک پاکستانی بھاری زرمبادلہ بھیجتے ہیں اس لیے ان کو ووٹ کا حق ملنا چاہیے حقیقت کی عکاسی نہیں کرتا۔ جو پاکستانی دوسرے ملکوں کی نیشنلٹی لے چکے ہیں انہیں ووٹ کا حق کیسے دیا جاسکتا ہے ؟ اس حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت نے جو طریق کار اختیار کررکھا ہے وہی بہتر ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے جو پاکستانی بھائی دوسرے ممالک میں سیٹل ہوجاتے ہیں وہ واپس آنے کے بجائے اپنے گھر والوں کو بھی باہر بلا لیتے ہیں ۔پاکستان میں ان کی واحد دلچسپی آبائی جائیداد کی صورت میں رہ جاتی ہے۔ خاندان کے بڑے نہ رہیں تو وہ بھی بیچ کر رقم باہر لے جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو کیسے حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ پاکستان میں رہ کر ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے والے عوام کی طرح ووٹ کا حق استعمال کریں ۔ باہر جانے والوں میں سے پاکستان واپس وہی آتے ہیں جن کی ملازمت یا کاروبار ختم ہو جائے اورنیشنلٹی بھی نہ ملے۔ ہمیں اصل اور کثیر زرمبادلہ خلیجی ممالک سے آتا ہے اور وہاں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت ہی نہیں ۔ اتحادی جماعتوں کی موجودہ حکومت کی یہ تجویز بہت مناسب ہے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے پارلیمنٹ میںنشستیں مخصوص کردی جائیں ۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے مدد لے کر غیر ملکی قرضے اتارنے کی بات ڈھکوسلہ ہے ۔ عمران خان نے اپنی حکومت کے دوران جرنیلوں ، ججوں ، میڈیا، بیورو کریسی کو ساتھ ملا کر پورا زور لگایا مگر ڈیم فنڈ میں کیا آیا۔ کسی سلیبرٹی یا کسی کھلاڑی کے ہسپتال یا تعلیمی ادارے کے لیے رنگ برنگی محفلیں برپا کرکے چندہ جمع کرنا ایک چیز ہے۔ ( اس معاملے میں بھی فنانشنل ٹائمز اور گارڈین کی رپورٹیں دھماکہ خیز ہیں جو آنے والے دنوں میں نتیجہ خیز ثابت ہونے والی ہیں ) ملکی معیشت کو چلانا اور ڈیم جیسے میگا پراجیکٹ کے لیے رقوم جمع کرنا انتہائی سنجیدہ اور سرے سے مختلف کام ہے ۔یہ بات نوٹ کی جانی چاہیے کہ جو ریٹائرڈ مافیا اس ملک میں اپنی مرضی چلانے کی کوشش کررہا ہے اسکے زیادہ تر مفادات اور پورے کے پورے خاندان ملک سے باہر ہیں ۔ چند ماہ قبل اسی مافیا نے عمران حکومت کے آئینی طریقے سے خاتمے کے خلاف برہم ہوکر اسلام آباد پریس کلب کے اندر باہر احتجاج کیا تھا۔ ایک بزرگ خاتون کی جانب سے حکومت اور فوج کی قیادت کو برا بھلا کہنے کی ویڈیو بہت وائرل ہوئی ( اگرچہ بعد میں اس عورت کا سافٹ وئیر اپ ڈیٹ کردیا گیا ) خاتون کے مطابق اسکے شوہر ریٹائر اور بیٹا حاضر سروس افسر ہیں۔ جوش جذبات میں بتا گئی کہ ہم سب تو کینیڈا رہتے ہیں اور اب اپنے نئے دیس والے عالیشان گھر کے لیے نوکرانی بھی پاکستان سے لے کر جائیں گے ۔ اسکا پاسپورٹ بنوا لیا ہے ۔یہی ہے ہماری اصل اشرافیہ اور اسکی اصلیت ، اس لیے جب بھی سیاستدانوں کو برا بھلا کہنے کو دل چاہے تو ایک نظر ادھر بھی ڈال لیا کریں۔ پاکستان میں بات بات پر احکامات جاری کرنے والا یہ طبقہ باہر جاکر ہر طرح کی جائز و ناجائز رعایتوں کے حصول کے لیے لائنوں میں لگا ہوتا ہے۔ قانون پر بھی ایسے عمل کرتا ہے جیسے کوئی روبوٹ ہو ۔ مگر پاکستان داخل ہوتے ہی شاہانہ پروٹوکول کو اپنا حق قرار دیتا ہے ۔ اگر کوئی باہر جاکر ملک کی ترقی میں حصہ ڈالتا ہے وہ ہمارے سر آنکھوں پر مگر اوورسیز پاکستانیوں سمیت کوئی بھی طبقہ خودکو سپر پاکستانی نہ سمجھے۔

مصنف کے بارے میں