سیلاب متاثرین بحالی اور حکومتی ترجیحات

سیلاب متاثرین بحالی اور حکومتی ترجیحات

پاکستان میں تباہ کن سیلاب نے المناک صورتحال پیدا کردی ہے۔حکومت پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں 150ارب روپے کی کمی کرنے اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں وسائل کو بحالی اور تعمیر کی جانب موڑنے کیلئے تیار ہے۔ایسے وقت میں جب موجودہ حکومت نے تعطل کا شکار آئی ایم ایف پروگرام کو دوبارہ بحال کیا ہے، سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی جانب رخ کرنے کیلئے مالی جگہ تلاش کرنا مشکل ہو گا۔ابتدائی تخمینوںکے مطابق پاکستان کو تباہ کن سیلابوں کے نتیجے میں 10-12 بلین ڈالرز تک کے معاشی نقصان کا سامنا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں تباہ کن سیلاب سے صحت کی دیکھ بھال تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے خواتین اور بچے غیر متناسب طور پر متاثر ہوئے اور ملک کے صحت کی دیکھ بھال کے 10%اداروں کو نقصان پہنچا ہے، خدشہ ہے ملک میں انسانی صحت عامہ کی صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔ڈبلیو ایچ او کا اندازہ ہے کہ تقریباً 6لاکھ34 ہزار بے گھرافراد کیمپوں میں رہ رہے ہیں لیکن یہ تعداد زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ کچھ علاقوں تک رسائی بہت مشکل ہے،حالیہ مہینوں میں ریکارڈ گرمی کی لہروں سے لے کر تباہ کن سیلابوں تک پاکستان کو موسمیاتی بحران کا سامنا ہے۔پاکستانی سیلاب کے بعد اپنی بقا کی جدوجہد کر رہے ہیں، امدادی کوششوں کی سست رفتاری پر پورے پاکستان میں غصہ بڑھ رہا ہے ، کیمپوں کے حالات خاص طور پر بچوں کیلئے خطرناک ہیں،ان کیمپوں کے زیادہ تربچے غذائی قلت کا شکار ہیں،یہ بحران مہینوں تک جاری رہ سکتا ہے۔حکومت کو لوگوں کو سرد موسم سے بچانے کیلئے اپنی کوششوں کو تیز کرنا ہوگا، فصلوں اورکھیتی باڑی کو پہنچنے والے نقصان سے لاکھوں افرادمزید غربت میں جانے کا خطرہ ہے ۔ فصلوں کے نقصان سے کسانوں اور زمینداروں کی زندگیوں پر یقینا منفی معاشی اثر پڑے گا، کسانوں کو اپنے زرعی فارموں کو بحال کرنے میں تین سے چار سال لگ سکتے ہیں۔ملک بھرلاکھوں گھر زیر آب ہیں، پلوں ، سڑکوں،مویشیوں،تعلیمی اداروں اورلوگوں کو سیلاب نے بہا دیا۔پاکستان کا ایک تہائی حصہ زیر آب ہے، ساڑھے تین کروڑ افراد براہ راست متاثر ہیں ، سیکڑوں جاں بحق ہو چکے ہیں، غریب لوگوں کیلئے کوئی انخلاءکی سہولیات یا امداد نہ ہے ۔ ریکارڈ توڑ بارشوں سے 4500 سال پرانے آثار قدیمہ کو بھی خطرہ ہے کیونکہ جھیل بہہ جانے سے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی جگہ موہنجو داڑو کو نقصان پہنچا ہے،ان آثار قدیمہ کو جنوبی ایشیا کی بہترین محفوظ بستیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان نے سیلاب یا دیگر موسمیاتی آفات سے نمٹنے کیلئے کوئی سبق نہیں سیکھا، یہ زمین پرگلیشیئرز کے پگھلنے سے ہونے والی طوفانی بارشوں کا براہ راست نتیجہ ہے۔ قومی موسمیاتی تبدیلی پالیسی جو مارچ 2013 میں شروع کی گئی تھی، اسکے آغاز کے فوراً بعد ہی روک دی گئی۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ خطرے والے دس ممالک میں شامل ہے اور قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے خود کو تیار کرنے کےلئے بہت کم کام کیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی پوری دنیا میں تباہی مچارہی ہے ۔ یورپ 500 سالوں میں اپنی بدترین خشک سالی کا سامنا کر رہا ہے۔ عالمی سطح پرایک بے مثال گرمی کی لہر کا سامنا ہے جس سے دریا اور جھیلیں سوکھ گئی ہیں۔ آب و ہوا کی تبدیلی میں تغیرات، افریقہ سے آنے والی گرم ہواو¿ں، بحر اوقیانوس کے گرم ہونے کی وجہ سے سمندر کی سطح کے بلند درجہ حرارت اور آرکٹک خطے میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے ہوتی ہے۔پانی کے ختم ہونے والے وسائل، جنگل کی آگ اورگرمی کی لہریں براہ راست موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ ہیں۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق پاکستان وسط ایشیائی ممالک میں قدرتی آفات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے ۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی انحطاط کے منفی اثرات کے نتیجے میں پاکستان کو سالانہ 24 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔سیلاب اور زلزلوں سے سالانہ 8لاکھ 43 ہزار آبادی براہ راست متاثر ہوتی ہے، پاکستان کے پاس قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے صرف 15 فیصد مالی وسائل ہیں ، وفاقی حکومت کے پاس قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے ڈیڑھ سے دو کروڑ ڈالر تک ہنگامی فنڈز ہوتے ہیں ۔ پاکستان میں سالانہ سیلاب سے اوسطاً 234 افراد اور زلزلوں سے سالانہ اوسطاً 863افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں سیلاب سے ایک ارب 50 کروڑ ڈالر براہ راست اور بالواسطہ کیساتھ ایک ارب 60 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوتا ہے، زلزلوں سے سالانہ براہ راست 61 کروڑ 40 لاکھ اور بالواسطہ نقصان سمیت 64کروڑ 40لاکھ ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔پاکستان کے پاس قدرتی آفات سے متاثر ہونیوالے 85فیصد لوگوں کے باعث نقصان کا ازالہ نہیں ہوتا اور وہ مناسب مالی امداد سے محروم رہتے ہیں ، زلزلے سے سالانہ ایک لاکھ65 ہزار اور سیلاب سے 6لاکھ78ہزار افراد شدید متاثر ہوتے ہیں جبکہ پاکستان کو آفات کے خطرات کامقابلہ کرنے کیلئے مالیاتی وسائل اور استعدادمیں اضافہ کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کو پانچ سال میں ایک مرتبہ سیلاب اور ایک مرتبہ زلزلے سے ہونیوالے نقصان سے نمٹنے کیلئے ہنگامی مالی امداد کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔پاکستان حالیہ سیلاب جولائی 2010 میں آنے والے سیلاب سے کہیں زیادہ تباہ کن ثابت ہوا ہے ، لیکن عالمی برادری نے اس وقت بحالی کے کاموں کیلئے پاکستان کی جتنی دل کھول کر مالی مدد کی تھی اسکے مقابلے میں اس وقت اتنی مالی امداد کے اعلانات اب تک سامنے نہیں آسکے۔ 2010کے سیلاب کے مقابلہ میں حالیہ سیلاب میں تقریباً 1.6ملین مکانات تباہ ہوئے،اندازے کے مطابق 35 ملین لوگ بے گھر ہو گئے،اور تقریباً 7.8 ملین ایکڑ پر تیار فصلیں تباہ ہو گئیں، 1.2 ملین مویشی ہلاک ہو گئے ، 10,000 سے زائد سکول اور 500 کے قریب چھوٹے بڑے ہسپتال تباہ ہو گئے، 5ہزار میل تک ریلوے ٹریک اور سڑکیں بہہ گئیں۔ تاحال دعوو¿ں کے مطابق کشکول میں ڈیڑھ کھرب روپے کے قریب رقوم آچکی ہیں جن میں ورلڈ بینک نے 82 ارب روپے، اقوام متحدہ نے ساڑھے 35 ارب ، امریکا ساڑھے چھ ارب روپے ، ایشین ڈویلپمنٹ بینک ساڑھے پانچ ارب روپے، یو ایس ایڈ 24 کروڑ 42 لاکھ روپے، چین چھ کروڑ 66 لاکھ روپے، چین کے امدادی ادارے چھ کروڑ 66 لاکھ روپے، یورپی یونین نے 30 کروڑ روپے، برطانیہ نے 33 کروڑ 30 لاکھ روپے اور یونیسف، عالمی ادارہ صحت، یونائیٹڈ نیشن پاپولیشن فنڈ نے 66 کروڑ 60 لاکھ روپے وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ اقوام متحدہ مزید رقوم اکٹھی کرنے میں مصروف عمل دکھائی دے رہا ہے۔ اگر یہ پیسے واقعی غریبوں پر لگ گئے تو ان کے دکھوں کا مداوا ممکن ہے۔ امداد کے عمل کو شفاف بنانے کیلئے حکومت فوری طور پر 2022ءکے زلزلہ زدگان کی بحالی کیلئے ویب سائیٹ لانچ کرے، جہاں ہر قسم کی انفارمیشن ڈالی جائے تاکہ امداد دینے والے اور لینے والوں کو بھی علم ہو کہ ا±سکا پیسہ کہاں لگایا جا رہاہے، ایسا کرنے سے حکومت اپنی ساکھ بحال کر سکتی ہے۔درحقیقت اس وقت ہمیں سیاست کو حقیقی معنوں میں عبادت کی طرح کرنی چاہیے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

مصنف کے بارے میں