پکا سیاسی رنگ……

Shakeel Amjad Sadiq, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک گدھے نے ایک شیر سے کہا:”گھاس نیلی ہوتی ہے“۔
شیر نے جواب دیا:”نہیں، گھاس سبز رنگ کی ہوتی ہے“۔
اس کے بعد ان کے درمیان شدید بحث و تکرار شروع ہوگئی مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ آخر کار انہوں نے فیصلہ کیا کہ اپنا معاملہ ببر شیر یعنی جنگل کے بادشاہ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔چنانچہ دونوں ببر شیر سے ملنے کے لیے چل پڑے۔ گدھا اور شیر ابھی ببر شیر کی کچھار سے دور ہی تھے کہ گدھے نے اونچی آواز سے پکارنا شروع کردیا: ”عالی پناہ! کیا یہ سچ نہیں ہے کہ گھاس نیلی ہوتی ہے؟“ببر شیر نے گدھے کے ساتھ کھڑے شیر کو دیکھا اور جواب دیا: ”بالکل، گھاس کا رنگ نیلا بھی ہوتا ہے“۔گدھے نے جب اپنی فتح ہوتی دیکھی تو نہایت خوشی سے دوڑ کر ببر شیر کے پاس پہنچا اور بولا:”عالی پناہ! یہ شیر یہ بات نہیں مانتا، یہ مجھ سے مسلسل اختلاف کئے جا رہا ہے اور مجھے اشتعال دلا رہا ہے، اسے سزا دیجیے، حضور!“۔
ببر شیر نے اسی وقت فیصلہ سنایا کہ”شیر کو پانچ برس کی زبان بندی (یعنی خاموش رہنے) کی سزا سنائی جاتی ہے“۔ شیر نے سزا قبول کرلی مگر اس نے ببر شیر سے پوچھا:”عالی جا! آپ نے مجھے یہ سزا کیوں سنائی جبکہ آپ بھی بخوبی جانتے میں کہ گھاس کا رنگ سبز ہوتا ہے“۔ببر شیر نے کہا:”بالکل، گھاس کا رنگ سبز ہی ہوتا ہے“……”تو پھر آپ نے مجھے یہ سزا کیوں سنائی؟“ شیر نے سوال کیا۔
ببر شیر نے جواب دیا:”اس سزا کا تعلق اس بات سے ہرگز نہیں ہے کہ گھاس کا رنگ سبز ہوتا ہے یا نیلا بلکہ تمہیں یہ سزا اس لئے دی گئی ہے کہ تم ایک بہادر اور عقل مند مخلوق ہو مگر تم  نے گدھے کے ساتھ بحث کی اور پھر اپنا احمقانہ سوال لے کر مجھے تنگ کرنے کے لیے آگئے“ہم نے کہا ہمارے لیڈر بہت کرپٹ 
ہیں۔یہ ملک کو کھا گئے ہیں۔ہمارے حصے چاٹ گئے ہیں۔ہمارے ہاتھوں سے نوالے چھین لئے گئے ہیں۔ہماری روشن راہوں کو دبیز تاریکی دے گئے ہیں۔آفتابِ مسرت کی کرنیں انہی کے آنگن میں مہکنے لگی ہیں۔ضوئے مہتاب انہی کا مقدر ٹھہری ہے۔ستارے انہی کی مانگ میں ہیں۔فرشتے تو ہیں ہی فرشتے۔۔۔ہم تو آدمی کے لیے ترس رہے ہیں۔دانہئ گندم ہماری پہنچ سے باہر جا رہا ہے۔کوئی پھر سے ہمیں اس کی افادیت نہیں بتا رہا۔حیات میں جمود طاری ہو گیا ہے۔چلیں کوئی سیاسی راستہ تبدیل کرتے ہیں۔کسی نئی فضا میں سانس لیتے ہیں۔بدبودار اور تعفن زدہ سیاسی ماحول سے کنارہ کشی اختیار کی جائے اور کسی نئے نظام کی بنیاد رکھی جائے جس کی کرنیں امیر کے محل اور غریب کی کٹیا پر نظامِ مساوات اور عدل کو برقرار رکھتے ہوئے پڑیں۔بنجر اور بانجھ زمینوں کی کوکھ سے ہریالی میسر ہو۔آسیب زدہ جنگل پرستان میں تبدیل ہو جائیں۔صدیوں سے سوکھی نہریں ندیوں اور آبشاروں کی سی رومانویں صورت اختیار کر لیں۔پھر کیا ہوا؟سب نے مل کر ضبط کی زنجیر کو پاش پاش کیا اور ایک نئے اور آہنی نظام کی بنیاد میں جت گئے۔
فطرت نے ابتدا ہی سے اس نظام کار کو پختہ اور ناقابل تبدیل رکھا ہے کہ نیت کی مضبوطی اور تعداد کی زیادتی جس طرف ہو جائے وہ مقام فتح ہو جاتا ہے اور شکست ہمیشہ مخالفین کے حصے میں آتی ہے۔ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔کیا بزرگ،کیا ادھیڑ عمر،کیا عورتیں،کیا جوان،کیا حسین و جمیل،پری چہرہ لوگ،کیا امیر و غریب،کیا بندہ کیا بندہ نواز،کیا محمود،کیا ایاز سب لوگوں نے اپنی خودی کو بلند کیا اور اس سیاسی نظام کے خلاف آہنی تلواریں لیے سربکف ہوگئے اور لوہے کے چنوں تک کو چبا ڈالا۔
قارئین! پھر اس عوام کی دیرینہ خواہش پوری ہوگئی اور نیا نظام آگیا۔اس نئے نظام کو تین سال ہوگئے ہیں اور ملکی بہتری کو اس لطیفے سے سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔
ایک میراثی فوج میں بطور رنگ ساز بھرتی ہوا جب ریٹائر ہوا تو جو پیسے ملے اس سے کپڑے رنگنے کی دکان ڈال لی کہ ساری زندگی یہی کام کیا تھا۔ اب پہلے ہی دن محلے سے ایک لڑکی دوپٹہ رنگوانے آ گئی اور فرمائش کی ”چاچا دوپٹے پر آتشی پنک رنگ کر دو“۔ اب میراثی نے ساری زندگی خاکی وردیاں رنگی تھیں اس کے بڑے بھی نہ جانیں کہ آتشی پنک کس بلا کا نام ہے۔ کہنے لگا بیٹا جی دفعہ مارو آتشی پنک تم خاکی رنگ کرا لو، دوپٹے پر اچھا لگے گا۔ لڑکی بولی وہ چچا آتشی پنک نا میرے سوٹ کے ساتھ میچ کرتا ہے۔ میراثی تھوڑا چپ رہ کر بولا بیٹا خاکی کرا لو خاکی رنگ ٹھنڈا ہوتا ہے۔ لڑکی تھوڑی تیز آواز میں ”چچا آپ آتشی پنک ہی کرو میری چوڑیاں بھی اسی کلر میں ہیں“۔ میراثی بولا ”دیکھو بیٹا جی یہ جو خاکی رنگ ہوتا ہے نا یہ بڑا پکا ہوتا ہے باقی سارے رنگ کچے ہوتے ہیں“۔ اب لڑکی نے دوپٹہ غصے سے چھین لیا اور بولی ”چاچا لگتا ہے تمہیں باتوں کے علاوہ اور کچھ نہیں آتا میں کہیں اور سے رنگ کرا لوں گی“۔ میراثی نے غصے سے دوپٹہ واپس چھینا اور غصے سے بولا ”لاؤ ادھر میں رنگ آتشی پنک ہی کروں گا مگر یاد رکھنا سوکھ کر اس نے پھر خاکی ہو جانا ہے“۔
بس کچھ بھی نہ ہوا۔ تمام رنگ سوکھ کر خاکی ہو گئے۔ ہر تقریر این آر او نہیں دوں گا پر ختم ہوتی ہے۔ بندہ پوچھے این آر او مانگا کس نے ہے؟ بغیر این آر او ہی کے ”برادرانِ یوسف“ باہر نکل گئے ہیں۔۔ اللہ اللہ خیر سلا؟ دوسری بات رہی کہ مافیا کی کہ وہ نظام کو چلنے نہیں دے رہے تو مافیا بھی ان کا ہی ہے۔ تیسری بات کہ بیوروکریسی ان کی راہوں میں روڑے اٹکا رہی ہے؟ واضح رہے کہ بیوروکریسی کو ٹھیک کرنا بھی ان کا کام ہے جو سر براہ یہ خرابیاں دور نہیں کر سکتا۔ وہ مہنگائی کے سوا کچھ نہیں کر سکتا۔ یاد رہے کہ اب صدیوں تک سیاسی گھاس کا رنگ بھی نیلا ہی رہے گا اور آنے والے وزراء کے کپڑوں کو جو بھی رنگ دے لیں وہ خاکی رنگ ہی چڑھے گا۔