باتیں اور یادیں لاہور کی……!

Sajid Hussain Malik, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

اپنے پچھلے کسی کالم میں، میں نے کوئی پچپن چھپن برس قبل (1967-68)میں سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں بی ایڈ کی تعلیم و تربیت کے لئے اپنے تقریباً ایک سالہ قیام کے حوالے سے ذہن کے نہاں خانے میں موجود لاہور کی یادوں، باتوں اور اس کی کچھ جگہوں اور مقامات کا ذکر کیاتھا۔ سچی بات ہے اسے میرے کئی کرم فرماؤں، مہربانوں، شناساؤں اور عزیزوں نے پسند ہی نہیں کیا ہے بلکہ اس کی تحسین بھی کی ہے۔ اسی سلسلے کو کچھ آگے لے کر چلتے ہیں۔ پچھلی صدی کی ساٹھ کی دہائی کے مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) میں تربیت اساتذہ کا معروف تعلیمی ادارہ سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور جہاں کسی زمانے میں ٹیچرز ٹریننگ کی پی ٹی اور سی ٹی دونوں کلاسز کی تعلیم دی جاتی تھی اور ہمارے زمانے یعنی پچھلی صدی کے ساٹھ کے عشرے کے آخری برسوں سے صرف بی ایڈ (بی۔ٹی کی جگہ نیا نام) کلاس کے لئے مخصوص کر دیا گیا تھا اور آج کل جسے غالباً کالج آف ایجوکیشن کہا جاتا ہے، لاہور میں لوئرمال پر سنٹرل ماڈل سکول کے عقب میں واقع ہے یہ جگہ ہر لحاظ سے بڑی پرہجوم اور پُررونق سمجھی جا سکتی ہے اور اس وقت یعنی پچپن ساٹھ برس قبل بھی ایسے ہی تھی کہ اس کے نواح میں ایک طرف کربلا گامے شاہ کی امام بارگاہ، ذرا آگے لاہور کا مشہور بھاٹی گیٹ، تھوڑا سا مغرب کی طرف شیخ ہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخشؒ کا مزار اور مسجد، اس سے اور ذرا آگے لاہور کی قدیم آبادی سنت نگر واقع ہے تو دوسری طرف جنوب میں لاہور کی ضلع کچہری، لاہور کے گورنمنٹ کالج (موجودہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی) کا تین یا چار منزلہ ہاسٹل، اسلامیہ کالج سول لائنز اور ان سے آگے پنجاب سول سیکرٹریٹ اور ساتھ ہی ایم اے او کالج واقع ہیں۔ تیسری طرف مشرق اور کسی حد تک جنوب مشرق میں کچھ کچھ فاصلے پر لوئرمال کے پار مسلم ماڈل سکول اور پولیس تھانہ یا چوکی انارکلی ساتھ سے گزر کر آگے انارکلی بازار، ذرا جنوب مشرق میں گورنمنٹ کالج لاہور کی بلند برجوں والی قدیم تاریخی عمارت، اس کے تقریباً سامنے لاہور مال روڈ کے مغرب کے آخری سرے کے ساتھ ناصر باغ اور گورنمنٹ کالج سے آگے مشرق کی طرف پنجاب یونیورسٹی اولڈکیمپس اور اس کے ساتھ ملحق پنجاب یونیورسٹی لاء کالج، پنجاب یونیورسٹی اوریئنٹل کالج اور ہیلے کالج آف کامرس کی عمارات ہوتی تھیں اور اب بھی شائد موجود ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کا سینیٹ ہال اور وائس چانسلر اور شعبہ امتحانات کے دفاتر بھی اسی اولڈ کیمپس میں ہوا کرتے تھے۔ پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کی ان عمارات کے آگے مشرقی سمت میں اختتام پر انارکلی بازار کا جنوبی سرا آ جاتا تھا(ہے) تو جنوب میں مال روڈ کی دوسری طرف لاہور کا مشہور زمانہ میوزیم (عجائب گھر)، لاہور میونسپل کارپوریشن، لاہور کی تاریخی ٹولنٹن مارکیٹ کی عمارات تھیں یا اب بھی ہیں اور یہیں سکھوں کے دور کی مشہور تاریخی ”زمزمہ توپ“ ایک پلیٹ فارم پر رکھی دیکھنے والوں کو دعوت نظارہ دیتی تھی۔ اسی مال روڈ پر مشرق کی طرف ذرا آگے YMCA ینگ مین کرسچین ایسوسی ایشن کا 
ہاسٹل اور ہال اور NBR نیشنل بیورو آف ری کنسٹرکشن (بعد میں پاکستان کونسل) کی لائبریری اور ہال موجود تھے۔ جن میں وقتاً فوقتاً مختلف طرح کی علمی، ادبی، نیم سیاسی یا کچھ کچھ سیاسی اور ثقافتی تقریبات اور اجتماعات منعقد ہوا کرتے تھے۔ ان کے ساتھ ہی ذرا آگے مشرق کی طرف مال روڈ پر پاک ٹی ہاؤس اور چائنیز لنچ ہوم وغیرہ ریسٹورنٹ بھی تھے جہاں شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کی محفلیں اور مجلسیں جما کرتی تھیں۔ مجھے کچھ کچھ یاد پڑتا ہے کہ انارکلی بازار کے جنوبی سرے پر شائد نگینہ بیکری کے نام سے بیکری اور چھوٹا سا ریسٹورنٹ تھا جو کسی زمانے میں چراغ حسن حسرت اور ان کے ہم عصر ادباء بھی اور شعراء مولانا غلام رسول مہر اور مولانا عبدالمجید سالک وغیرہ کے مل بیٹھنے کی جگہ تھی۔ یہیں انارکلی کے تقریباً جنوبی سرے پر نیلا گنبد کی مشہور مسجد ہے جہاں لاہور کے مشہور دارالعلوم جامعہ اشرفیہ کے بانی اور مہتمم حضرت مولانا مفتی محمد حسینؒ خطبہ جمعہ اور درس قرآن دیا کرتے تھے۔ انارکلی کے شمالی سرے سے کچھ پہلے جنوب کی طرف گنپت روڈ اور اردو بازار کی کتابوں، سٹیشنری کی دکانیں اور کاغذ کے گودام ہوا کرتے تھے تو انارکلی کے شمالی سرے کے اختتام پر سرکلر روڈ کے پار مسلم مسجد اور اس سے کچھ آگے لاہور کا مشہور لاہوری گیٹ آ جاتا۔ مسلم مسجد میں اس دور  کے مشہور عالم دین اور شعلہ بیاں مقرر مولانا محمد بخش جمعتہ المبارک کا خطبہ دیا کرتے تھے۔
میں نے سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور کا ذکر کرتے ہوئے اس کے نواح میں تقریباً ایک آدھ کلومیٹر یا کچھ زیادہ قوس کے اندر واقع مشہور جگہوں اور مقامات کا ذرا تفصیل سے ذکر کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ شائد ان جگہوں یا مقامات پر کچھ زیادہ آنے جانے کا موقع ملتا رہا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ لاہور کی باقی اہم جگہوں اور مقامات بالخصوص تاریخی مقامات کو دیکھنے یا وہاں جانے کا موقع نہیں ملا۔ یقینا باقی اہم جگہیں اور مقامات بھی دیکھے اور ان کی سیر کے مواقع بھی ملے۔ اس کی تفصیل ساتھ ساتھ اور کچھ آگے چل کر آئے گی۔ مسلم مسجد کی بیرون لوہاری گیٹ میں جمعتہ المبارک کی ایک سے زائد نمازیں ادا کی ہوں گی تو مولانا محمد بخش جو اپنے نام کے ساتھ بی اے ضرور لکھا کرتے تھے، ان کی تقاریر بھی سنی ہوں گی۔ جون 1967 میں عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے مصر، شام اور اردن کی فوجوں کو بری طرح شکست سے دوچار نہیں کیا تھا بلکہ فلسطین میں بیت المقدس سمیت کئی علاقوں پر قبضہ جمانے کے ساتھ مصر میں صحرائے سینا اور نہر سویز، شام میں گولان کی پہاڑیوں اور اردن میں دریائے اردن کے مغربی علاقوں پر بھی قبضہ جما لیا تھا۔ اس دور کے مولانا محمد بخش مسلم جیسے علمائے دین اور شعلہ بیان مقررین کا بڑا موضوع اسرائیل کی جارحیت، عرب ممالک کی بے بسی اور عالم اسلام کی خصوصی طور پر بے حسی وغیرہ ہوا کرتا تھا۔ اس طرح کی تقاریر نہ صرف مسلم مسجد کے جمعتہ المبارک کے اجتماعات میں سنیں گئی ہوں گی بلکہ مال روڈ پر وائی ایم سی اے (YMCA) ہال میں بھی سننے کے مواقع ملے۔ وہاں کئی تقریبات میں مشہور صحافی، ہفت روزہ چٹان کے مدیر اعلیٰ اور شعلہ بیاں خطیب اور مقرر محترم شورش کاشمیری مرحوم کی پرجوش خطابت اور خوبصورت اندازوبیاں سے لطف اندوز ہونا واقعی میرے لئے خوشی اور ایک طرح کے اعزاز کی بات تھی۔
میری عادت تھی کہ میں کالج ٹائم کے بعد دوپہر کا کھانا وغیرہ کھانے کے بعد نکل جایا کرتا تھا اور وائی ایم سی اے ہال، یا بی این آر کے آڈیٹوریم یا پنجاب یونیورسٹی سینٹ ہال میں منعقدہ کسی علمی، ادبی، سماجی، ثقافتی یا نیم سیاسی تقریب جس کے انعقاد کے بارے میں اخبارات (ہمارے کالج میں اردو کے غالباً اخبار روزنامہ ”امروز“، ”روزنامہ نوائے وقت“ اور شائد روزنامہ مشرق آیا کرتے تھے) میں اطلاع چھپی ہوتی تھی۔ شریک ہو جایا کرتا تھا۔ اکثر پہلی صف میں جگہ مل جاتی اور اگلے دن تقریب یا اجتماع کی خبر اور تصویر اخبار میں چھپی ہوتی تو اس میں پہلی صف میں بیٹھے ہوئے مجھے اپنی کمزور سی تصویر دکھائی دیتی تو کچھ کچھ خوشی بھی ہوتی۔ 1967 کے سال کے آخری دو تین ماہ اور 1968 کے ابتدائی ماہ پاکستان کے حوالے سے بھی بڑا ہنگامہ خیز اور کچھ کچھ پُرفتن دور تھا۔ صدر ایوب خان کے اقتدار کو تقریباً دس سال مکمل ہو رہے تھے۔ ان کی حکومت کے خلاف چھوٹے بڑے اجتماعات میں مخالفانہ تقاریر اور بیان بازی دن بدن زور پکڑ رہی تھی۔ اسی دوران غالباً نومبر 1967 میں لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ جے اے رحیم، ڈاکٹر مبشر حسن، جناب معراج محمد خان، میاں محمود علی قصوری، ملک غلام مصطفی کھر، جناب حنیف رامے، ملک معراج خالد، جناب خورشید حسن مہر، حیات محمد شیرپاؤ، مخدوم طالب المولیٰ، ممتاز علی بھٹو، غلام مصطفی جتوئی وغیرہ اس کے تاسیسی ارکان میں شامل تھے۔
لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کا فیصلہ ہوا اس طرح لاہور حکومتی پابندیوں کے باوجود سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بھی بن گیا۔ اسی دوران ایک اور اہم واقعہ بھی پیش آیا۔ نواب امیر محمد خان آف کالا باغ جو ایک بڑی دبنگ اور بارعب شخصیت کے مالک تھے اور ایوب خان کے دور میں طویل عرصے تک مغربی پاکستان کے گورنر رہے تھے اور گورنرشپ کے ہٹنے کے بعد اپنے آبائی گھر (یا محل) کالاباغ میں مقیم تھے انہیں ان کے دوسرے بیٹے (نام اس وقت یاد نہیں آ رہا) نے قتل کر دیا۔ یہ ایک بہت لرزہ خیز اور چونکا دینے والی خبر تھی۔ مجھے یاد ہے نوائے وقت کے اس وقت کے رپورٹر عبدالقادر حسن جنہوں نے بعد میں نامور اخبار نویس اور کالم نگار کے طور پر شہرت پائی، کالاباغ گئے واپسی پر انہوں نے اپنے اخبار میں ”غیرسیاسی باتیں“ کے عنوان سے چھپنے والے کالم میں اس کی تفصیل بیان کی۔ ملک امیر محمد خان کے رعب و دبدبے اور ان کی خاموش تربیت کا ذکر کیا۔ یہ کالم میں نے پڑھا۔ اس کی پوری تفصیل مجھے یاد نہیں لیکن اس نے مجھے عبدالقادر حسن مرحوم کا ایسا گرویدہ کیا کہ اس وقت سے ان کے کالموں کا مستقل قاری ہی نہ بن گیا بلکہ اپنے آپ کو ان کا نیازمند سمجھنے لگا۔