محسن پاکستان کو دانشوروں کا خراج عقیدت

Riaz ch, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

گزشتہ سے پیوستہ ماہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وفات پر حکومتی وزرا، سیاستدانوں سے لے کر عوام تک سبھی غمگین ہیں اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے لیے جوہری پروگرام کے 'بانی' کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں خراجِ عقیدت پیش کر رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں قلم کاروان اسلام آباد کے زیر اہتمام7 دسمبر کو ہونے والی ادبی نشست میں ’’ڈاکٹر عبدالقدیر خان‘‘ کے عنوان سے تحریری سیمینار منعقد ہوا۔جس میںشرکاء نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان بارے مقالات پیش کئے۔
ادبی نشست میں دانشوروں نے مرحوم محسن پاکستان کی ذاتی زندگی اورخاندانی حالات سے لے کر ان کے پیشہ ورانہ کارہائے نمایاں اور سماجی خدمات سمیت وطن عزیزکے حکمران طبقے کی ان کے ساتھ بدسلوکیوں کابھی ذکرکیا۔نشست میں شریک تمام دانشوروں نے ان کی سادگی اوربے نیازی کو سنہرے حروف سے رقم کیااور دورابتلاء میں ان کی ثابت قدمی کومثال بناکرپیش کیا کہ جرأت مندقیادت کی طرح وہ برے سے برے حالات میں بھی ملک سے فرارنہیں ہوئے۔
 حبیب الرحمن چترالی نے یہ بھی انکشاف کیا کہ  محسن پاکستان نے اپنی ایٹمی دفاعی پیش رفت کاآغازچترال سے کیاتھاجہاں ایک ابتدائی آلہ پہاڑکی چوٹی پر مقامی بزرگ کی مددسے نصب کیاگیاتھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اس دفاعی کامیابی پر کل مسلم امہ نے خوشی کااظہارکیاتھاچنانچہ ڈاکٹرقدیرخان اپنے اس کارنامے کے باعث اللہ تعالی کے ہاں بہت مقرب گردانے گئے ہوں گے اور اللہ تعالی نے انہیں اعلیٰ درجات سے نوازاہوگا۔
عبدالقدیر خان 27 اپریل 1936 کو متحدہ ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے تھے اور برصغیر کی تقسیم کے بعد 1947 میں اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان ہجرت کی تھی۔کراچی میں ابتدائی تعلیمی مراحل کی تکمیل کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول 
کے لیے وہ یورپ گئے اور 15 برس قیام کے دوران انھوں نے مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ اور بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لیوین سے تعلیم حاصل کی۔
1974 میں پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے یورینیم کی افزودگی کے معاملے پر رابطوں کے بعد 1976 میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان واپس پاکستان آئے اور 31 مئی 1976 کو انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز کی بنیاد رکھی۔اس ادارے کا نام یکم مئی 1981 کو فوجی آمر جنرل ضیاالحق نے تبدیل کر کے ان کے نام پر 'ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز' رکھ دیا تھا۔پاکستان کے جوہری پروگرام کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ وہ ایک طویل عرصے تک اس پروگرام کے سربراہ رہے ۔ مئی 1998 میں پاکستان نے بھارتی ایٹم بم کے تجربے کے بعد کامیاب تجربہ کیا، جس کی نگرانی ڈاکٹر قدیر خان نے ہی کی تھی۔
ڈاکٹر قدیر خان پر ہالینڈ کی حکومت نے اہم معلومات چرانے کے الزامات کے تحت مقدمہ بھی دائر کیا لیکن ہالینڈ، بیلجیئم، برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسرز نے جب ان الزامات کا جائزہ لیا تو انہوں نے ڈاکٹر خان کو بری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا تھا کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ داخل کیا گیا ہے وہ عام اور کتابوں میں موجود ہیں جس کے بعد ہالینڈ کی عدالت عالیہ نے ان کو باعزت بری کر دیا تھا۔
انھیں دو مرتبہ ملک کا سب سے بڑا سول اعزاز نشانِ امتیاز دیا گیا۔ پہلے چودہ اگست 1996 کو صدر فاروق لغاری اور پھر 1998 کے جوہری دھماکوں کے بعد اگلے برس 1999 میں اس وقت کے صدر رفیق تارڑ نے انھیں اس اعزاز سے نوازا۔ اس سے قبل 1989 میں انھیں ہلال امتیاز بھی دیا گیا تھا۔
ڈاکٹر خان کو پاکستان کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے بطور چیف ایگزیکٹیو اپنا مشیر نامزد کیا تھا۔ تاہم جنرل مشرف کے دور میں ہی حکومتی دباؤ میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے سرکاری ٹی وی پر دیگر ممالک کو جوہری راز کی فروخت کے الزامات تسلیم کیے تھے جس کے بعد  2004 میں انھیں معافی دینے کے بعد ان کے گھر میں نظربند کر دیا گیا تھا اور یہ نظربندی پانچ برس جاری رہی تھی۔نظربندی کے خاتمے پر 2008 میں انھوں نے کہا تھا کہ وقت آنے پر وہ یہ انکشاف کر دیں گے کہ انھوں نے جوہری ٹیکنالوجی منتقل کرنے کا اعتراف کیوں کیا تھا۔انھوں نے اپنے اقدام کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ایک آدمی کے اعتراف سے پورے پاکستان کا فائدہ ہو رہا تھا۔تاہم 2008 میں نظربندی کے خاتمے کے بعد بھی وہ سکیورٹی کے پیش نظر عوامی تقریبات میں دکھائی نہیں دیتے تھے۔
 ڈاکٹر عبد القدیر خان پاکستان کے دفاع اور سلامتی کی ایک قابلِ فخر تاریخ اور جدوجہد کا نام تھا۔ ان کی زندگی پاکستان سے محبت کی کہانی ہے۔ اسلام اور پاکستان ہی ان کا مطمع نظر رہے ان کی تمام زندگی پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے میں صرف ہوئی۔ڈاکٹر عبدالقدیرخان قوم کا اثاثہ تھے ۔ ان کی ملک کے لیے خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ پاکستان اور قوم ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی۔ ان کے انتقال پر ہر محب وطن پاکستانی کی آنکھ اشکبار ہے۔
 ڈاکٹرعبدالقدیرخان کواسلام آباد کے ایچ 8 قبرستان میں پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا ۔ جسد خاکی کی تدفین سے قبل گارڈ آف آنرز پیش کیا ۔ مسلح افواج و پولیس کے دستوں نے سلامی پیش کی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خواہش کے مطابق ان کی نماز جنازہ اسلام آباد کی فیصل مسجد میں ادا کی گئی۔ نماز جنازہ پروفیسر ڈاکٹر محمد الغزالی نے پڑھائی۔ نمازِ جنازہ میں قائم مقام صدر سینیٹر صادق سنجرانی اور وفاقی وزراء سمیت سیاسی و عسکری قیادت نے بھی شرکت کی۔