”ہمیں کیوں نکالا“

”ہمیں کیوں نکالا“

پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ وہ ن لیگ کو جارہے تھے مگر اللہ نے عین وقت پر باجوہ صاحب کو بھیج دیا جنہوں نے ان کا رخ پی ٹی آئی کی طرف موڑ دیا پشت پہلواس فقرے میں عسکری سیاسی مداخلت اپنی کٹھ پتلی حیثیت اور آئندہ کے نتائج کی ذمہ داری بھی اللہ پر ڈالنے کا ارادہ نظر آتا ہے …… جو کرواتا ہے بے شک اللہ ہی کرواتا ہے سیاسی شطرنج کے یہ مہرے بے بس آسمان سے لے کر بساط سیاست تک ……مجبورہیں تو محض اپنی اولاد کے ہاتھوں (جو کہ ہربندہ ہوتاہے)
مجھے لگتا تھا امیر لوگ اپنی اولاد سے اتنی محبت نہیں کرتے ہوں گے جس قدر ہم کرتے ہیں مگر کھلا یہ کہ امراء تو اپنی اولاد کے لیے وہ جرائم بھی سرزد کرجاتے ہیں جو بڑے سے بڑا مجرم بھی کرتے ہوئے گھبراتا ہے۔ منفی محبت شاید زیادہ طاقتور ہوتی ہے مثبت جذبوں میں بوریت بہت ہوتی ہے سیاست دانوں کو ہنگامہ آرائی مجلس سازی اور رونقی زندگی ہی بھاتی ہے۔ ہتھکڑیاں،تخت یا تختہ، جلسے، ٹرک ٹرالے جلوس نعرے پھولوں کی بارش یہ سب کچھ کتنا جعلی ہی سہی مگر پر فریب رستوں کے مسافر کو اچھا لگتا ہے۔ 
ادھر سادہ زندگی گزارنے والے غرباء یہی کہتے جاتے ہیں ”اینہی دولت کیہ کرنی سیاست داناں نے“ (اتنی دولت کیا کرنی ہے سیاست دانوں نے …… ان کے ”پاروں“ مکئی کی روٹی سرسوں کا ساگ بے فکر بے ٹیکس زندگی ہی سب کچھ ہے اتنا سمجھنے کوکوئی تیار نہیں کہ انسان انسانوں سے مختلف بھی ہوسکتے ہیں ان کے اندر کی ہنگامہ آرائی باہرسکون کی متلاشی ہوتی ہے اور بعض مرتبہ اندر کا اندھیرا اور خاموشی باہر کی ہنگامہ آرائی کی متقاضی ہوتی ہے۔ 
اللہ نے جیسے پرویز الٰہی کو ہدایت دی سب کو دے عین وقت پر کوئی ”باجوہ“ بھیج دیا کرے ہمارے پاس تو ”خضر“ کا وسیلہ و آسرا تھا ان کو حقیقی دیدہ ورملے۔ایسا نہیں کہ پی ڈی ایم کو ”خضر“ نہیں ملے وہ بھی جب مشکل صورت حال میں پھنستے ہیں زرداری صاحب ہسپتال بستر علالت اور دوائی داروچھوڑ کر پنجاب کی آرام دہ کرسی تو کبھی کے پی سندھ کی مسند پر براجمان ہوجاتے ہیں۔ 
فتنہ گری، فتنہ سازی وفتنہ کشیکے تمام مراحل بہ احسن وخوبی ادا ہوجاتے ہیں، سیاسی میچیورٹی اورتحمل کی مثال ہیں زرداری صاحب میاں نواز شریف چونکہ کشمیری ہیں لہٰذا جان بہت پیاری ہے ذرا سی کلفت بھی طبیعت پر گراں گزرتی ہے کشمیری آج تک لیلیٰ وطن کو آزاد نہ کرواسکے کچھ نہ کچھ پنجابیوں جیسی احمقانہ دلیری کی کمی ضرور ہے سندھی ذہنی داؤپیچ لگانے کے ماہر ہوتے ہیں احمقانہ دلیری اور ”گجھے“داؤ پیچ جب  آپس میں مل جاتے ہیں تو پی ڈی ایم بنتی ہے مولانا کے پاس طلباء دین کی مؤدب وسیع تعداد موجود ہے، مذہب حدیث فقہ جہاد کیا کچھ نہیں۔ 
ادھر اپنے خان صاحب ہیں آج تک کرکٹ گراؤنڈ ہی ہے باہر نہیں نکل سکے پاک بھارت جنگ میں ترانہ گایا جاتا تھا ”جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی“ اب انہیں کون بتائے کہ سیاست کھیل نہیں کھلاڑیوں کا یہ دادورس کی بات ہے ہمارے سامنے جو سیاسی نسل ادھیڑ عمری سے بڑھاپے میں داخل ہورہی ہے اس میں زرداری صاحب سیاسی میچیورٹی اسیری ذہانت معاملہ فہمی اور اعتبار کے لحاظ سے پہلے نمبرپر ہیں، میاں نواز شریف کے پاس اینٹی ایسٹیبلشمنٹ کارڈ ہے مگر ساتھ ہی بزدلی کا تمغہ بھی حتیٰ کہ شہباز گل صحافی عمران خان اشرف شریف ناپسندیدہ ہوتے ہوئے بھی اپنی مردانگی کو بچالے گئے ماریں قیدیں ذلتیں کیا کچھ نہیں ہوا،میاں شہباز شریف بہت بہادر نہ سہی مگر ”اٹی سٹی‘، ملانی تو آتی ہے جیسے تیسے وزیراعظم بن گئے یہ شوق ایسا تھا کہ کان پڑی کوئی تذلیل بھی سنائی نہ دی دوسری طرف نواز شریف ووٹ کی دولت ہوتے ہوئے بھی نوٹ کی دولت کو ترجیح دے گئے۔ 
زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو متوازن گزارنا بہت مشکل چیز ہے، سیاسی فارمولا کے ماتحت ہمیشہ کمزور حکومتیں تشکیل دی جاتی ہیں  اور ان کو حکومت سازی کی پوزیشن میں لانے کے لیے دوایک چھوٹی سیاسی پارٹیاں دس پندرہ سیٹوں کی مددسے جتوائی جاتی ہیں انہی کی مدد سے قومی وصوبائی حکومت کے پتے مکمل ہوتے ہیں ایک زمانے میں پیرصاحب پگاڑا اشارے کنائے میں بات کیا کرتے تھے نئے نئے سگنل دیتے اور سگنل لیتے تھے اب بھی سگنل کا تسلسل قائم ہے اللہ تعالیٰ کے حکم پر کس کا آنا اور سیاسی مستقبل پر مہر ثبت کرنا درحقیقت اشارہ ہی ہے ان کے لیے کہ اشارے کی زبان سمجھتے ہیں حالانکہ اشارہ عقلمند کے لیے ہوتا ہے خیر یہ تو محاورے کی بات ہے، وطن اس لیے بھی دل سے مشابہہ ہے کہ شکست وریخت کے ساماں ہوتے رہتے ہیں۔ ہرخطہئ زمین اپنے سیاسی کلچر کی سرزمین پر پرورش پاتی ہے، ہمارے ہاں گھروں میں بھی مندرجہ بالا سیاسی فارمولا کی جھلک پائی جاتی ہے گھر میں ایک بہو کو نیچا دکھانے کے لیے دوسری کو وقتی اہمیت دی جاتی ہے دو طاقت کے حریفوں کی طاقت کو توڑنے کے لیے تیسرے کو لایا جاتا ہے حتیٰ کہ (ایک مرتبہ میں نے پہلے بھی لکھا تھا) محبت بھی دو نہیں تین لوگوں کے سچ کی بات ہے دولوگوں کے درمیان محبت کا شعلہ تب تک نہیں بھڑکتا جب تک تیسری دیا سلائی نہ ہو ……
بنیادی طورپر ہم جس خطہئ زمین کے لوگ ہیں وہاں کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہرجگہ ہماری یہی پالیسی چلتی ہے خاندان میں بھی دو پارٹیاں ہوتی ہیں تیسرا کمزور فریق ایک ساتھ مل کر پلڑا بھاری کردیتا ہے۔ 
خان صاحب نے مجلسی طاقت پر زیادہ بھروسہ کیا اور ذہنی گیم پر کم یہاں کے جدی پشتی سیاست دانوں نے انہیں پچھاڑ دیا کون اپنی لگی لگائی روزی کو خان صاحب کی جذباتیت کی نذر تو نہیں کرسکتے اوپر سے خیر سے موجودہ سیاسی لات ساری کی ساری ستر70برس کراس کرچکی ہے سب کو پتہ ہے کہ ہماری آخری باری ہے کوئی بھی آئیدگی کے خوف سے مبتلا نہیں، یوں بھی چھت کے نیچے دیواروں کے رنگ تبدیل کردینے سے فرق نہیں پڑتا۔ 
خان صاحب کے ساتھ ہاتھ ہوگیا کہنے کی باتیں ہیں یہ ہمارا سیاسی کھیل ہے یوں ہی چلتا ہے خاں صاحب اس کھیل کا حصہ رہے ہیں، خوب سمجھتے ہیں سمجھنے اور اس سے سبق سیکھنے میں فرق ہوتا ہے چاہے تو یہ کہ اب تمام سابق وزرائے اعظم اپنی ایک پارٹی بنا لیں اور اس کا نام رکھیں ”ہمیں کیوں نکالا“ اس ضمن میں یہ احتیاط ضرور رکھیں کہ ہمیں کیوں لگایا گیا؟ کا شکوہ نہیں کرنا صرف نکالنے کا ”رونا“ رونا ہے دومرتبہ نواز شریف بے نظیر اور عمران خان نکل چکے بھٹو صاحب پھانسی گھاٹ اترچکے لیاقت علی خان گولی کی نذر ہوئے، جونیجو بیرونی دورے پر تھے واپسی پر اسمبلیاں ٹوٹی ہوئی ملیں حیرت یہ کہ اسمبلیاں ”جڑتی“ ہیں تو دل ٹوٹتے ہیں اسمبلیاں ٹوٹتی ہیں تو شگوفے کھلتے ہیں، اب کے پنجاب میں اسمبلی ٹوٹنے، لرزنے اور لٹکنے کے مراحل میں ہے اقبال نے تو کہا تھا……
جوشکستہ ہو تو عزیز تر
ہے نگاہ آئینہ ساز میں 
تاحال تو محض خاں صاحب کا دل ہی شکستہ ہے وہ آہنی ارادوں والے کھلاڑی ہیں جو پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے ماضی پرستی ہم ایسے شاعروں ادیبوں کا شیوہ ہے خاں صاحب اس سے مبراء ہیں وہ اپنی جوانی کے دنوں کو بھول گئے ادھیڑ عمری کو بھی یاد نہیں کرتے اور بڑھاپا تو سارے ہی سیاست دانوں کا اچھا ہوتا ہے بہ نسبت دوسرے شعبوں کے ملکر انجمن ستائش باہمی بنائیں بہ نام ”ہمیں کیوں نکالا“