گڈبائے عمران خان

گڈبائے عمران خان

پاکستان تحریک انصا ف میں میری شمولیت معراج محمد خان کی پاکستان قومی محاذ آزادی ضم ہونے کے بعد ہوئی لیکن 1997ء کے عام انتخابات میں صفانوالہ چوک اور سکوائش کارنر کے آفس بہت آنا جانا رہااور اس الیکشن میں تحریک انصاف کا بھر پور ساتھ دیا۔معراج محمد خان پاکستان کی سیاست کی معراج تھے اورایسے دیانتدار لیڈر اس قوم کو کم ہی ملے ہیں لیکن وہ بھی2002ء کے انتخابات کے بعد عمران خان کے رویے کی وجہ سے تحریک انصاف کو خدا حافظ کہہ گئے۔ انہوں نے خرابی صحت کی وجہ سے کوئی نئی تنظیم نہیں بنائی جس کی وجہ سے بائیں بازو کا وہ ورکر جو معراج محمد خان کی وجہ سے تحریک انصاف میں آیا تھا وہ کہیں نہ جا سکا اور تحریک انصاف کا ہو کر ہی رہ گیا۔ عمران خان کے ساتھ زندگی کے اس طویل سفر میں ٗ میں نے یہی سمجھا کہ وہ ایک باکمال ایکٹر ٗ بہترین منظر نگار ٗ انتہا کا موقع پرست اورلاتعداد مقامات پر بزدلی دکھانے والا کردار ہے۔ بات پھر احمد علی بٹ کی یاد ا ٓ جاتی ہے کہ ہمارے پا س آپشن نہیں تھا لیکن میرے پاس آپشن پہلے دن سے تھا کہ میں اپنا لکھنے پڑھنے کا کام کرتا اور اِس ناکارہ پرزے کو ٹھیک کرنے کی بیکار کوشش ترک کردیتا ۔ 
22جولائی 2018 ء تک عمران خان کے ساتھ میں جمشید اقبال چیمہ کے انتخابی جلسے کے سٹیج پر تھا۔ امید نہیں تھی کہ عمران خان ایک کروڑ نوکریاں دے پائے گا ٗ وسوسہ بھی نہیں ڈالا تھا کہ پچاس لاکھ گھر تعمیر ہو جائیں گے ٗ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ پاکستا ن میں کرپشن نوے دن میں ختم ہو جائے گی ٗ 2 سو ارب ڈالر جو باہر سے آنے سے وہ بھی کہیں نظر نہیں آئے ٗ غیر منتخب نمائندوں سے بننے والی وزارتوں اورمشاورتوں نے لوٹ مار کا وہ بازار گرم کیا کہ ہر طرف الامان الامان کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔پنجاب میں بزدار اور اُس کے ساتھیوں نے کہرام برپا کررکھا تھا۔ تحریک انصاف و ہ پہلی سیاسی جماعت ہے جس پرخواتین کے ذریعے کرپشن کرانے کا الزام لگا ٗ عجیب بات ہے کہ جب لاہورکی ڈپٹی کمشنر صالح سعید تھیں مجھے اُس وقت اس حقیقت کا علم تھا کہ گوگی اورپنکی کیا کر رہی ہیں لیکن افسوس کہ پاکستان کے انتظامی اداروں کا سربراہ اُس سے یا تو بے خبرتھا یا پھر اُس کی رضامندی سے سب کچھ ہو رہا تھا۔ چھوٹے درجے کا سرکاری ملازم جو پہلے کالمسٹ ہونے کی وجہ سے عزت کرلیتا تھا جب وہ کروڑوں روپے دے کر لگنے والے ڈپٹی کمشنر کے ماتحت ہوا تو اُس نے عزت کرنا تو دور کی بات فون کال اٹینڈ کرنا بھی چھوڑ دی۔ عامر کیانی میڈیسن میں چونا لگا کر نکل گیا 
ٗ شہزاد اکبر اربوں لے کر بھا گ گیا ٗزلفی بخاری اور سرور خان کا نام نہ جانے کس کس سکینڈل میں آتا رہے ٗ پرویز خٹک کہیں جواب دہ نہیں تھا ٗسیف اللہ نیازی کو پارٹی کا چیف آرگنائزر بنایا گیا جس نے من پسند کے ریٹس پر جعلی تنظیم سازی کی اور بعد ازاں سینٹربنا کرنواز دیا گیا۔ فاقہ کش زبیرنیازی نے ملک ریاض کی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی جس کی وجہ سے وہ اب کروڑوں میں کھیل رہا ہے جبکہ حکومت سے پہلے وہ 70ہزار روپے ماہوار پر اسلام آباد کام کرتا تھا جہاں سے وہ ہفتہ کی رات کو لاہور پہنچتا اوراتوارکی شب واپس اسلام آباد۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ 2002ء کے انتخابات میں میاں اسلم اقبال نے آزاد امیدوارکی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا تو اُن کے مد مقابل سیدہ سلونی بخاری مرحومہ تھیں۔ سیدہ باکمال باکردار خاتون تھیں۔ میرے کچھ دوستوں نے مجھ سے رابطہ کیا کہ اگر آپ سیدہ سلونی بخاری کو دستبردار کرا لیں تو میاں اسلم اقبال الیکشن جیت کر تحریک انصاف جوائن کر لیں گے لیکن میں نے اخلاقی طورپر پہلے سیدہ سلونی بخاری سے بات کی توانہوں نے کہا کہ اگرچیئرمین مانتے ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ میں نے بات چیئرمین کے آگے رکھی تو چیئرمین نے طنزیہ مسکراتے ہوئے کہا کہ ”کیا تمہیں معلوم نہیں کہ وہ جوا کراتے ہیں“ میں نے مذاق میں کہا: ”جناب ہم نے کون سے اُس سے نماز کی امامت کرانی ہے“ لیکن چیئرمین تحریک انصاف کسی صورت راضی نہ ہوئے بلکہ الیکشن کے بعد بھی مجھے اس بات کا طعنہ دیتے رہے اور آج وہی اسلم اقبال اُن کی ناک کا بال ہے۔ لاہور سے جماعت اسلامی کے ایک ایم این اے میاں عثما ن ہوا کرتے تھے۔ تحریک انصاف پنجاب کے وزیر میاں محمود الرشید اُن کے سمدھی ہیں اورمیاں اکرم عثمان اُ ن کے داماد۔ اکرم عثمان نے بھی جماعت اسلامی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی۔ وہ بعد ازاں 2013ء میں تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈر رہے۔2022ء کے ضمنی انتخابات میں انہیں پھر ٹکٹ دیا گیا اوروہ صوبائی اسمبلی کا انتخاب جیت گئے لیکن حیرت انگیزبات یہ ہے کہ پہلے تو اُن کے بڑے بھائی کو پنجاب ٹرانسپورٹ کا چیئرمین بنایا گیا جو جماعت اسلامی کا رکن ہے اورپھر ضمنی الیکشن میں ان کے انتخابی حلقے سے جماعت اسلامی کے امیدوار نے اپنی فلیکس پر ”میاں عثمان کا نظریاتی بیٹا“ لکھوایا تو اکرم عثمان کو بہت تکلیف ہوئی جس کیلئے اُس کے بزرگوں نے امیر جماعت اسلامی سے رابطہ کرکے ”میاں عثمان کا نظریاتی بیٹا“ کٹوایا اوراکرم عثمان پھر سے میاں عثمان کے حقیقی بیٹے بن گئے۔
عبدالعلیم خان ٗ جہانگیر ترین ٗفیصل واوڈا کو آپ خود پارٹی میں لے کر آئے۔ عبد العلیم خان سے محبت اور احترام کے تمام تر رشتوں کے باوجود گزشتہ چار سال میں میری ایک ہی ملاقات ہے اوروہ بھی اتفاقیہ پنجاب کے وزیر برائے ڈیزاسٹر مینجمنٹ میاں خالد محمود کے ساتھ ہوئی۔ میں کبھی اُن سے ملنے اُن کے آفس نہیں گیا ٗ کبھی اُن کے گھر نہیں گیا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ احترام کے رشتے روزانہ ملنے سے کمزور ہو جاتے ہیں۔عبد العلیم خان کے ساتھ ہونے والی زیادتی بھی میرے لئے انتہائی تکلیف کا باعث تھی کیونکہ اُس کی واحد وجہ عبد العلیم خان کا سیاسی اورسماجی طور پر طاقتور ہونا تھا۔ آ پ نے اُس کے تعلق ٗ طاقت اور دولت کو بھرپور استعمال کیا لیکن جب اللہ نے آپ کو صاحب اختیار کیا تو آپ جناب علی علیہ سلام کے قول پر پورے اترے کہ ”طاقت اوراختیار ملنے پر لوگ بدلتے نہیں بے نقاب ہوتے ہیں۔“ خدا شاہد ہے کہ آپ اس قول کی مکمل تفسیر ہیں۔ خدا سے دعا گو ہوں کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی اراکین کو اتنی دیرتک زندہ اور تندرست رکھے کہ وہ آپ کا انجام جس کا آغاز ہو چکا ہے اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں کیونکہ اب آپ کبھی وزیراعظم سے کم پر راضی نہیں ہوں گے اورحالات آپ کے سامنے ہیں۔ کشمیر میں آپ کی شکست اور حکومتی اتحادیوں کی فتح آپ کیلئے خطرے کی پہلی گھنٹی ہے۔ پاکستان سے بھی ایسے ہی رزلٹ آئیں گے اورآپ ایک بار پھر کسی نئے شوکت خانم کیلئے زمین کا ٹکرا مانگنے کسی وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کے دروازے پر کھڑ ے ہوں گے۔  
آج تحریک انصاف کو خیر باد کہتے ہوئے مجھے اس بات کا دکھ ضرور ہے کہ میرے بہت پیارے دوست ابھی یہاں ہیں جنہوں نے یہی تحریر چند سال بعد لکھنی ہے لیکن میں دوستوں کو مجبورکرنے والا شخص نہیں ہوں اورنہ ہی انہیں کسی امتحان میں ڈالنا چاہتا ہوں۔ جناب ِعمران خان صاحب! آپ اگر ہماری زندگیوں کے قیمتی 27 سال نگل کر بھی ہمارے طبقے یعنی عام آدمی کو کچھ بھی ڈلیورنہیں کرپائے تو آپ بے فکررہیں یہ کام ہم اور ہماری آنے والی نسلیں مل کر کر لیں گی۔ انسانی شعور کے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ یہ پیچھے کی جانب سفر نہیں کرتا۔ اب اگلی سیاست اس سے اگلے بیانیے پر شروع ہو گی جس کی صلاحیت نہ تو آپ میں ہے اورنہ ہی آپ کے اردگرد موجود لوگوں میں۔ یہ سائبرین مرغابیاں ہیں موسم بدلتے ہی لوٹ جائیں گی اور آ پ اپنے چند مریدوں اور ”موٹو“ کے ساتھ بنی گالہ کی تنہائیوں میں گم ہو جائیں گے جہاں آپ نے کروڑوں انسانوں کی خواہشات اورخوابوں کو دفن کیا ہے۔ گڈبائے عمران خان۔    (ختم شد)