نوازشریف کی سوچ

نوازشریف کی سوچ


جہاں تک میں صورت حال کا ادراک کر پایا ہوں اور مجھے نوازشریف کی سوچ اور اندازِ سیاست کا معمولی علم ہے… میرے خیال میں وہ تحریک عدم اعتماد لانے میں جلدی نہیں چاہتے اور ان کی خواہش ہے کہ ماحول گرم رہے… اپوزیشن جماعتیں مل کر اس حکومت کا عرصہ حیات تنگ کئے رکھیں… عوام کو اس کی ناکامیوں اور ملک کو پہنچنے والے نقصانات سے خوب آگاہ رکھیں… انہوں نے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ اپنی جماعت کے چوٹی کی لیڈرشپ کے اجلاس منعقد کرا کے اور انہیں عدم اعتماد کے آپشن کو بروئے کار لانے کے لئے ہرممکن کوشش کرنے کی آپشن کی حوصلہ افزائی تو بہم پہنچا دی ہے… اس طرح ایک جانب آصف علی زرداری صاحب اور بلاول بھٹو دوسری جانب ان کی اپنی جماعت کے صدر شہباز شریف اس ہدف کے حصول کی خاطر پوری طرح سرگرم عمل بھی ہو گئے ہیں تاکہ تحریک عدم اعتماد کے لئے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے کم از کم ارکان کی حمایت کو یقینی بنایا جائے… یوں لہو گرم رکھنے کا بہانہ ڈھونڈ لیا گیا ہے… حکمران جماعت تحریک انصاف بھی اس چیلنج کو پوری طرح قبول کرتی نظر آ رہی ہے… انہوں نے بھی مقابلے میں عوامی رابطہ مہم کا عزم باندھ لیا ہے… وزیراعظم عمران خان بہادر ذاتی طور پر جوابی مہم کی قیادت کریں گے… ظاہر ہے ان کی وجہ سے پوری جماعت سرگرم عمل ہو جائے گی… جانبین اپنے حق کو دوسرے کی مخالفت میں رائے عامہ تیار کرنے کے لئے پورا زور لگا دیں گے… اپوزیشن 27 فروری اور 23 مارچ کو اپنے اپنے لانگ مارچ کرنا چاہتی ہے… نوازشریف کی خواہش غالباً یہ ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کی جانب سے اس جدوجہد کے عروج اور خاتمے تک صوبہ خیبر پختونخوا کے بقیہ اضلاع اور پنجاب بھر میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا وقت قریب آن پہنچے… اور عمران خان کو ایک اور زبردست شکست فاش کا سامنا کرنا پڑے… ایسی شکست جو اسے صوبہ خیبرپختونخوا کے پہلے اٹھارہ اضلاع کی مانند شکست فاش سے دوچار کر دے… یوں ہمارے کرکٹ کے ہیرو کی مقبولیت کا تمام تر زعم غبارے کی مانند پھٹ کر رہ جائے گا… یہ تو ہم سب کو معلوم ہے کہ عام انتخابات کے انعقاد میں زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سال باقی رہ گیا ہے… انہوں نے بہرصورت 2023 کے اختتام سے پہلے منعقد ہونا ہے… یوں نوازشریف ہی تمام کی تمام اپوزیشن (عمران خان کی سرپرست اسٹیبلشمنٹ کو بھی) یقین ہے اگر یہ انتخابات حتی الامکان آزادانہ اور بغیر کسی مداخلت کے منعقد ہوئے تو عمران خان اور ان کی جماعت کی تمام تر مقبولیت ہوا کے بگولے کی مانند اُڑتی نظر نہ آئے گی… میری ادنیٰ رائے کے مطابق میاں صاحب کے خیال میں عمران خان یہ طعنہ کبھی نہیں دے سکے گا کہ اسے پانچ سال کی آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی حکومت کو یہ مدت پوری نہیں کرنے دی گئی… تاہم اس کے لئے لازم ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنے طور پر عہد کر لے اور پوری سیاسی لیڈرشپ کو بھی یقین دلا دے کہ اس کی جانب سے کسی قسم کی براہ راست یا بالواسطہ مداخلت نہیں کی جائے گی… کوئی نئی طرز کے اے آر ٹی سسٹم نہیں آئے گا… سیاسی انجینئرنگ نہیں کی جائے گی اور عام انتخابات اسی طرح شفاف اور نہایت آزادانہ طریقے سے ہوں گے جس کا مشاہدہ ابھی ہم نے صوبہ خیبرپختونخوا کے اٹھارہ اضلاع یعنی بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے دوران کیا ہے… ایسے انتخابات کی کوکھ سے جو بھی نتیجہ برآمد ہو گا وہ خواہ عمران خان کو کامیابی کا سہرا یا اپوزیشن کی جماعتوں کے لئے نویدِ فتح بن کر آئے یا نوازشریف کے لئے چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے کے دروازے کھول دے… اس کو من و عن اور دل سے قبول کرنا فطری طور پر اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام پارٹیوں کے لئے سیاسی یقین کا باعث بن جائے گا کیونکہ آئین پاکستان کی حدود کے اندر اور منتخب پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ہر طرح کے اثرات سے آزاد ہو گا…
یہ ہے وہ نقشہ جو نوازشریف صاحب اپنے ذہن میں لئے بیٹھے ہیں… اگرچہ پاکستان کی تاریخ کے بدقسمت تناظر میں خواب کی باتیں معلوم ہوتی ہیں… بڑے بڑے سیاسی دانا یہ کہنے سے گریز نہیں کرتے کہ فوج کے کردار کو ظاہر یا خفیہ طریقے سے تسلیم کئے بغیر اس ملک میں کوئی سیاسی نظام نہیں چل سکتا… لیکن ذرا غور کیجئے کہ اس کلیہ کو طوعاً و کرہاً ہم نے اپنا کر پچھلے 70 سال کے دوران اپنے ملک کو کس کس عدم استحکام یہاں تک کہ افسوسناک ترین المیوں سے دوچار نہیں کیا… اس سوچ اور عمل کو اپنا کر یہ ملک دولخت ہوا… بھارت کے مقابلے میں شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا… ہم امریکہ کی فرنٹ لائن ریاست بنے… افغانستان کی جنگ جیت کر ہارے ہوئے ہیں بھارت پانچ اگست 2019 کے اقدام کے ذریعے کشمیر کو اس اژدھے کی مانند ایسے ہڑپ کر گیا ہے جس کا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا تھا… ہمارے پاس زبانی شورشرابا بلند کرنے کے علاوہ کچھ نہیں رہا اور لمحۂ موجود کے اندر بلوچستان کی جان کو لالے پڑے ہوئے ہیں… ان تمام حادثات سے جو ہمیں دوچار ہونا پڑا ہے ان کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ ہمارے نیم جمہوری، نیم فوجی نظام یا کامل مارشل لاء کی وجہ سے ملک کی فیصلہ کن طاقت کو عوام کا مکمل مینڈیٹ حاصل نہیں تھا… ان کی صحیح معنوں میں منتخب پارلیمنٹ نے کبھی ایک دفعہ بھی ایسی کسی پالیسی کی حمایت نہیں کی… گزشتہ چند جرنلوں یا ان کے کاسۂ لیس سویلین حکمرانوں نے مل کر چند ڈالروں، جدید اسلحے کی گولیوں کے عوض امریکہ نواز جنگوں میں چھلانگیں لگائیں… اسی دوران جو دو تین دفعہ صحیح معنوں میں عوام کی منتخب حکومتیں برسراقتدار آئیں انہیں نہایت حقارت کے ساتھ اور کسی نہ کسی کمزور بہانے اٹھا باہر پھینکنے میں دیر نہ کی… مگر اسٹیبلشمنٹ سے آزاد ان حکومتوں کا کارنامہ دیکھئے… انہیں جب بھی آزادی سے کام کرنے کا موقع ملا، چاہے مختصر عرصہ کے لئے انہوں نے جیسا کہ لیاقت علی خان کا دور گواہی دیتا ہے آزاد کشمیر حاصل کیا… ملک فیروز خان نون کے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے چند مہینوں کے اندر گوادر کی پٹڑی کو پاکستان کے جغرافیے کا حصہ بنایا جس پر آج ہم فخر و غرور سے پھولے نہیں سماتے… ذوالفقار علی بھٹو تختۂ دار پر تو لٹک گیا لیکن پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا آغاز کر گیا… اس کے بعد یہ پروگرام آنے والے حکمرانوں کی مجبوری بن گیا تاآنکہ نوازشریف جیسے سویلین وزیراعظم نے نہایت جرأت مندانہ طریقے سے اس کے کھلے عام تجربات کر کے ہمارے ملک کو دنیا کی ساتویں ایشیا کی تیسری اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بنا دیا… یوں ملک کے دفاع کا وہ اہتمام کیا جس کی خاطر بڑے بڑے سورمائوں نے میدان جنگ میں کھڑے ہو کر جنگیں ہاری تھیں… لہٰذا اگر آپ پوچھیں کہ ہمارے تجربات کی روشنی میں بھی معیاری طرز حکومت کیا ہوتا ہے تو جواب خالصتاً جمہوریت، متفقہ علیہ آئین کی پاسداری اور پارلیمنٹ کی سربلندی کو تسلیم کرنے کے علاوہ کچھ نہ ہو گا…
مگر اس وقت جو صورت حال ہے اس میں جناب آصف علی زرداری ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو اور کسی حد تک میاں نوازشریف کے بھائی میاں شہباز بے تاب چلے آ رہے ہیں… عمران خان نے اپنے تقریباً چار سال کے دوران ملک کی جو درگت بنا دی ہے پاکستان کے عوام کو جس جہنم زار میں پھینک دیا ہے اور خارجہ پالیسی کے میدان میں ہمیں جن ذلتوں سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے وہ شدت سے تقاضا کرتی ہیں کہ بلاتاخیر تحریک عدم اعتماد کو رو بہ عمل لا کر ایسے ناپسندیدہ حکمران سے نجات حاصل کی جائے… کوئی کہتا ہے اس کام میں اسٹیبلشمنٹ کی مرضی شامل ہے کسی مبصر کی رائے میں اصل حکمران چپ سادھے بیٹھے ہوئے ہیں… تاہم جو جماعتیں کھلے عام فوجی قیادت کے اشارے کے بغیر ایک قدم نہیں اٹھا سکتیں… مثلاً گجرات کے چودھری اور ان کے ق لیگ اور صوبہ سندھ کے شہری علاقوں کی ایم کیو ایم انہیں ابھی تک اپنے حقیقی سرپرستوں کے اشارے کا انتظار ہے جو مل نہیں پا رہا… اسی لئے تحریک عدم اعتماد کا معاملہ لٹکا ہوا ہے… نوازشریف کو اعتماد ہے یہ گیم جتنی آگے چلے گی بلدیاتی انتخابات کے اگلے مرحلوں کا اور عام چنائو کا وقت اتنا ہی نزدیک آتا جائے گا پھر ان کے میدان میں اترنا عمران خان بہادر کی مجبوری بن جائے گی… اس کی مقبولیت کا سارا راز کھل جائے گا… اور نتیجے کے طور پر وہ تھپیڑا پڑے گا کہ چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا… پھر عمران خان کسی کو طعنہ دینے کے قابل نہیں رہے گا کہ مجھے زبردستی اقتدار سے نکال کر پھینکا گیا… میری مدت پوری نہ ہونے دی گئی… مگر معاملہ وہی ڈھاک کے تین پات… کیا اسٹیبلشمنٹ واقعی دل و جان سے اپنی غیرجانبداری کا ثبوت دے سکے گی یا نہیں… اسی پر پاکستان کے مستقبل کا انحصار ہے…

مصنف کے بارے میں