گریٹ گیم اور پاکستان کا کردار

گریٹ گیم اور پاکستان کا کردار

آج کل گریٹ گیم پھر زوروں پر ہے پاکستان کی اسٹریجک اہمیت بہت زیادہ ہے روس کو پیار و محبت سے گرم پانیوں تک رسائی مل رہی ہے جبکہ امریکہ بہادر حسب روایت دھوکہ دیتے ہوئے بھارت سے محبت کی پینگیں بڑھا رہا ہے ایسے میں پاکستان کو اپنے پتے بڑی احتیاط سے کھیلنے کی ضرورت ہے ۔ اس گیم کے تین مرکزی کردار روس، امریکہ اور چین اپنے علاقائی، معاشی، سیاسی اور قومی مفادات کی جنگ براہِ راست لڑنے کے بجائے افغانستان جیسے ممالک میں لڑتے ہیں۔

ماضی میں سوویت یونین نے جب اپنی فوجیں افغانستان میں داخل کیں تو امریکہ نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور چند برسوں میں معاشی مشکلات کے شکار روس کو پاکستان کی مدد سے شکست سے دوچار کر دیا۔ آج بھی افغانستان میں بڑی عالمی طاقتوں کا کھیل جاری ہے اور ان کی اس آنکھ مچولی میں ہم یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ترپ کے تمام پتے ہمارے ہاتھ میں ہیں۔

افغانستان کے حالات درست کرنے کے لئے امریکہ نے 20سال وہاں جنگ لڑی، اربوں ڈالر صرف کیے اور اُس ملک میں استحکام اور امن لانے کی کوشش کی جہاں کے باشندوں نے بیرونی حملہ آوروں سے زیادہ آپس میں خون ریزی کی۔

دنیا کی دوسری بڑی سپرپاور چین کے اپنے مفادات اس خطے سے جڑے ہیں اور اس کی کوشش ہو گی کہ افغانستان کی نئی حکومت کو زیرِ اثر رکھ کر اپنے مقاصد پورے کرے۔ اپنے تجارتی راستوں کو محفوظ اور دنیا کی تجارتی منڈیوں تک رسائی کے لئے بیلٹ اینڈ روڈ اور سی پیک کی طرح کے بڑے منصوبوں کی کامیابی کے لئے چین اپنے ہمسایہ ممالک خصوصاً پاکستان، ایران اور افغانستان کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے کا خواہاں ہے، اس کے علاوہ چین کی کوشش ہوگی کہ ان کے ملک میں اسلامی تحریکوں کو طالبان مدد فراہم نہ کریں۔

سب کو معلوم ہے کہ آج کی دنیا روایتی جنگ کی بجائے معاشی برتری کی جنگ لڑ رہی ہے۔ معاشی برتری کی اس جنگ میں اس وقت امریکہ، چین اور یورپی یونین مضبوط فریقین کے طور پر کھڑے ہیں۔ فری مارکیٹ اکانومی میں معاشی منڈیوں کی تلاش اس معاشی جنگ کی بنیاد ہے۔ ایک جانب امریکہ ، یورپ اور جاپان کھڑے ہیں جبکہ دوسری جانب چائنا اور روس کھڑے ہیں۔ معاشی منڈیوں کی تلاش کے ساتھ سینٹرل ایشیا کے ذخائر بھی اپنی جگہ بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ سینٹرل ایشیا تک رسائی بھی دونوں بلاکوں کی ترجیحات میں شامل ہے۔

چائنا نے سینٹرل ایشیا میں اپنے مضبوط اثر و رسوخ کے لئے 1996 میں ’شنگھائی فائیو‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس میں چین، روس، قازکستان ، کرغستان اور تاجکستان شامل تھے۔ 2001 میں ازبکستان کی شمولیت کے ساتھ اس تنظیم کا نام بدل کر ’شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن رکھا گیا اور اس کے مقاصد کو پھیلا کر یوریشین مالک میں سیاسی، معاشی اور دفاعی تعاون جیسے شعبوں میں مدد اور تعاون کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اس کے علاوہ چین اور روس میں ایک معاہدہ ہوا یہ معاہدہ بنیادی طور پر چین اور روس کے سیاسی اور معاشی مفادات کے تحفظ کا معاہدہ تھا۔

چین نے حالیہ کچھ برسوں میں دنیا کی معاشی سرگرمیوں میں کم و بیش اپنا سکہ جما لیا ہے۔ اس معاشی جنگ میں منڈیوں کے حصول کے لئے چین کے صدر شی جی پنگ نے ایک خواب دیکھا ۔ آپ اس کو یوں کہہ لیں کہ چین جیسی ترقی یافتہ اقوام صرف خواب نہیں دیکھتی بلکہ اس کو عملی جامہ پہنانے پر یقین رکھتی ہے۔ چینی صدر کے اس خواب کو ون بیلٹ ون روڈ کا نام دیا گیا ہے ۔ دراصل یہ معاشی دنیا کے گرد ایک لکیر ہے جو چین کھینچ رہا ہے۔ یہ ایک گریٹ گیم ہے اور اس گریٹ میں گوادر کا کردار بہت اہم ہے۔ جبکہ ان کے مقابل میں امریکہ اور یورپ کی مضبوط معاشی قوتیں کھڑی ہیں۔ ماہرین کی نظر میں مستقبل کے معاشی برتری کی جنگ میں برسرپیکار قوتیں یہی ہوں گی۔

بھارت اس وقت خطے میں ہونے والی بین الاقوامی گریٹ گیم کا حصہ بنا ہوا ہے وہ کشمیر اور پانی کے معاملے میں کبھی مذاکرات نہیں کرے گا بلکہ پاکستان کو دباؤ میں رکھنا ہی گریٹ گیم کا حصہ ہے ۔

پاکستان کا جغرافیہ دنیا بھر کے لئے باعثِ کشش ہے اسلیے ہمیں اس گریٹ گیم میں اپنے فائدہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر قدم کو احتیاط سے اٹھانا ہو گا ۔ ہمیں سب کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے چاہئیں اور اگر کوئی سرد مہری کا مظاہرہ کرے تو ہمیں خود دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہئے کیونکہ ملکی مفاد ہر چیز پر مقدم ہے۔

دوستوں پاکستان کو احتیاط اسلیے کرنی چاہیے کیونکہ ہم وہ قوم ہیں جس نے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیا اور ابھی بھی کہا جا رہا ہے کہ ہم دہشت گرد ہیں کیا یہ لطیفہ نہیں ہے کہ اس صدی کا سب سے بڑا دہشت گرد مودی ہمیں دہشت گرد کہہ رہا ہے ۔ جبکہ ہمارے سیکڑوں شہری اور جوان شہید ہو چکے ہیں اور اربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے ۔ ہمیں اپنی اداؤں پر اب خود سے غور کرنا ہو گا کیونکہ اللہ آسمانوں سے فرشتے نہیں بھیجا کرتا قوموں میں اگر غیرت اور حمیت ہو تو وہ اپنی تقدیر کے فیصلے خود کرتی ہیں ۔

مصنف کے بارے میں