دھند زدہ حکومت اور سانحہ مری

دھند زدہ حکومت اور سانحہ مری

7 اور 8 جنوری کی رات جب قوم اور اس کے حکمران گرم لحافوں میں مزے کی نیند سو رہے تھے ایسے میں کچھ اہل وطن مری کے طوفان میں گھرے ہوئے اپنی جان بچانے کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ تمام راستے اور امیدیں دم توڑتی جا رہی تھیں اور زندگی کی ڈور بھی کٹتی جا رہی تھی۔ مری کے باسی بھی دور سے پھنسی ہوئی گاڑیوں کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ یہ سانحہ ہماری اجتماعی بے حسی کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ ہمارا اجتماعی شعور کس حد تک گر گیا ہے اس کو جانچنے کے لیے سانحہ مری کافی ہے۔ہینڈسم وزیراعظم نے نوٹس لے لیا ہے اور ذمہ داروں کا تعین کیا جائے گا لیکن سب جانتے ہیں کہ رات گئی بات گئی والا معاملہ ہے۔ سب ملبہ ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔
یہ قدرتی آفت نہیں تھی بلکہ اتنے زیادہ لوگ ہماری انتظامی بد انتظامی کا شکار ہوئے ہیں۔ حکومت اس بات پر خوشی کے شادیانے بجا رہی تھی کہ لوگوں کے پاس  بہت پیسہ ہے کہ لاکھوں گاڑیاں سیاحت کے لیے مری پہنچ گئی ہیں۔ انہیں ٹول ٹیکس لینے کی فکر تھی کسی نے ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں سوچا کہ لاکھوں افراد مری کی طرف جا رہے ہیں اور موسم کی سختی کی پیشن گوئی ہو چکی ہے تو یہ رہیں گے کہاں۔ کیا ان کے کھانے پینے کا مناسب بندوبست موجود ہے۔ میں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر یہ لکھا تھا کہ کسی جگہ میلے کا انعقاد کرنا ہو تو اس کے لیے بھی انتظامات کیے جاتے ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ آئیں گے تو انہیں کیسے سنبھالا جائے گا مگر یہاں تو 
کسی کو فکر ہی نہیں تھی۔ کسی نے اسسٹنٹ کمشنر مری سے نہیں پوچھا کہ وہاں کیا حالات ہیں، ٹریفک پولیس ٹریفک کے بہاؤ کو دیکھ رہی تھی تو باقی انتظامیہ کہاں گھوڑے بیچ کر سو رہی تھی۔ آج مری کے لوگ، مری کی انتظامیہ، وزیر داخلہ اور بعض ادارے اپنی تصویر کھنچوائی کے لیے ہر جگہ موجود ہیں اس رات سب کہاں تھے۔ تم سب اس کے ذمہ دار ہو۔ تم سب سے اس کا جواب پوچھا جائے گا۔ مدینہ کی ریاست بنانے کے دعوے کرنے والے کہتے ہیں کہ ابھی ہم ریاست مدینہ بنا رہے ہیں ابھی بنی تو نہیں کہ ہم سے حساب مانگے رہے ہو۔
میرے پیارے وزیراعظم نے کہا تھا کہ وہ سیاحت کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ بنی گالہ کے دو کمروں میں رہنے والے درویش وزیراعظم کیا جواب دیں گے کہ کیا سیاحت کے فروغ کے لیے بیانات داغنے سے سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔ کیا سیاحت کے فروغ کے لیے جو اقدامات ضروری تھے وہ کیے گئے ہیں۔ سیاحتی مقامات پر ہر طبقے کی ضروریات کے مطابق رہائش اور کھانے پینے کا بندوبست ہوتا ہے لیکن مری میں اس قسم کا کوئی بندوبست آج تک نہیں ہے۔ مری میں ایک بھی ہاسٹل نہیں ہے جہاں لوگ سستے کمرے یا بیڈ خرید سکیں۔ ایک رات کا کرایہ بیس اور تیس ہزار لینے کا قانون کہاں سے پاس ہوا ہے کہ لوگوں کے پاس اتنے زیادہ کرائے دینے کی استطاعت نہیں ہوتی اور وہ مری چل پڑتے ہیں کہ رات اپنی گاڑی میں گزار لیں گے۔ چائے کے ایک کپ کی قیمت تو اس حکومت سے مقرر نہیں ہو سکی تو باقی اشیائے خورونوش کی قیمتوں کا تعین کیسے ہو گا۔ سوئٹزرلینڈ دنیا کا سب سے مہنگا ترین ملک ہے اور ساری دنیا سے سیاح وہاں کا رخ کرتے ہیں وہاں بھی اچھے ہوٹل میں ایک رات کا کرایہ بیس اور تیس ہزار نہیں ہے۔ وہاں بھی کم بجٹ ٹریولر کیلئے ہوسٹل بنائے گئے ہیں۔ وہاں ہوٹلوں کے کمرے تمام تر سہولیات کے ساتھ دستیاب ہوتے ہیں اور یہاں ہزاروں روپے بھی اینٹھ لیے جاتے ہیں اور صرف سر چھپانے کے لیے جگہ فراہم کی جاتی ہے۔ ہوٹلوں کی آن لائن بکنگ کا کوئی معقول بندوبست نہیں ہے۔ جب کرایوں کا تعین ہی نہیں ہو گا تو ایڈوانس بکنگ کیسے ہو گی۔ مری کا ہوٹل مافیا تو اس تاک میں رہتا ہے کہ لوگوں کا جم غفیر آئے تو وہ اپنی مرضی کے نرخ وصول کریں۔ اور اس کاروبار میں تمام اہم لوگ اور ادارے حصہ بقدر جثہ شریک ہیں اور مال بنا رہے ہیں۔
اتنا بڑا سانحہ ہو گیا ہے تو اس سے سبق سیکھیں مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہاں سیکھنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ تمام سیاحتی مقامات کے لیے ایک قومی پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے اور سیاحوں کو ان مافیاز کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی ریاستی پالیسی کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ انتظامیہ آف سیزن اور سیزن کے دنوں میں ہوٹلوں کے کمروں اور کھانے پینے کی قیمتوں کا تعین کرے گی تو حالات ٹھیک ہوں گے۔ اس بات کو بھی انتظامیہ یقینی بنائے گی کہ ہوٹل کی انتظامیہ کس قیمت کے کمرے کے ساتھ کن سہولیات فراہم کرنے کی ذمہ دار ہو گی۔ یہ سب ہو گا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ بہت سوں کے کاروباری مفادات ان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ملکہ کوہسار مری بدانتظامی کی وجہ سے قتل گاہ میں تبدیل ہو چکی ہے۔
اس سانحہ کی تحقیقات کے لیے کوئی آزاد اور غیر جانبدار کمیشن تشکیل دیا جائے اور اس سوال کا جواب تلاش کیا جائے کہ ساری رات اور سارا دن لوگ مدد کے لیے پکارتے رہے تو مدد کیوں نہیں پہنچی۔ لوگ 1122 کو فون کرتے رہے لوگ پولیس کو فون کرتے رہے، سب سوئے ہوئے تھے مگر فرشتہ اجل کب غافل ہوتا ہے۔ مری میں یہ برف باری کوئی پہلی بار نہیں ہوئی پہلے بھی ہوتی ہے تو سڑکوں کو کلیئر کرنے کے انتظامات کیوں موجود نہیں ہیں۔ بارشوں کی وجہ سے چھوٹی سی لینڈ سلائیڈنگ ہو جائے تو اس کو جلد از جلد کلیئر کرنے کا کوئی بندوبست موجود نہیں۔
خون جما دینے والی سردی نے زندہ انسانوں کو نگل لیا ہے۔ ایک دو دن ہم سب روئیں گے پھر معمولات زندگی میں مصروف ہو جائیں گے۔ پھر اک نیا حادثہ ہو گا اور پھر ایک کمیشن بنے گا اور معاملہ گول ہو جائے گا۔ سچ پوچھیں جب سے یہ حکومت آئی ہے کہ اک عذاب کا سامنا ہے۔ دھند زدہ حکومت کی حد نگاہ چند فٹ سے زیادہ نہیں ہے اسے کیا خبر کہ آگے کتنی بڑی کھائی ہے۔ ان کے وزیر صبح شام لعنتیں سمیٹ رہے ہیں۔  پٹی کہاں ہے جو ہمیں ان کی شان میں قصیدے لکھ کر سناتا رہا، وہ نحوست زدہ دانشور کہاں ہے جو کہتا تھا کہ یہ سب لوٹ کر کھا گئے ہیں، یہ قوم کا مسیحا بن کر آئیں گے۔ ان کے دور کو امیر المومنین کے دور سے تشبیہہ دینے والے روز محشر کس منہ سے کھڑے ہوں گے۔ قوم کو جاہل سمجھنے والوں کے حسن انتخاب کی داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ دس بیس بندے قربان ہو گئے تو کیا ہوا۔ کہتے ہیں کہ اک نا حق کا خون ہوتا ہے تو عرش کانپ جاتا ہے یہاں تو وقفے وقفے سے یہ سلسلہ جاری ہے۔
یہ جمہوریت عوام کی حکومت عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے کے اصول پر نہیں چل رہی بلکہ یہ حکومت نہ عوام کیلئے ہے نہ عوام کے ذریعے آئی ہے تو عوام کو جوابدہ کیوں ہو۔ صد شکر کہ میں اس گناہ میں شریک نہیں تھا ورنہ مجھ سے بھی حساب ہوتا۔ ووٹ قوم کی امانت تھا جس نے خیانت کی ہے وہ حساب کیلئے تیار رہے۔ ان سب کا خون ان کی گردنوں پر بھی ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنا ہیلی کاپٹر ریسکیو آپریشن کے لیے اسلام آباد روانہ کر دیا وہ مری گیا یا نہیں یہ سوال کوئی نہیں پوچھے گا، تصویر بن گئی سمجھو کام ہو گیا۔ اس وقت ضرورت قوم کو ریسکیو کرنے کی ہے اس کیلئے بڑے آپریشن کی ضرورت ہے۔ اتنا بڑا عذاب ٹالنے کیلئے بہت سے لوگ قتل گاہوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ذرا سوچو اور کتنے لوگ قربان کرو گے۔