گجرات کو صوبہ بنانے کا مشورہ

گجرات کو صوبہ بنانے کا مشورہ

آٹا مارکیٹ سے غائب ہونا شروع ہو چکا ہے۔ بجلی کی بچت کے لیے بازاروں کی بندش پہلے سے تباہ حال معیشت کے تابوت میں مزید کیل ٹھوکنے کے مترادف ہے۔ کم ازکم پنجاب میں ہر طرح کے حالات سے نبرد آزما رہنے والی بیوروکریسی کو مفلوج بنا کے رکھ دیا گیا ہے۔ جو لوگ عثمان بزدار کی حکومت کے خلاف نعرے لگاتے نظر آتے تھے آج والئی ِ گجرات کا ماتم کرتے نظر آتے ہیں۔ وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے لاکھوں نوکریاں دینے کا اعلان کیا ہے جبکہ سرکاری خزانے کے حالات یہ ہیں کہ آنے والے دنوں میں پہلے سے موجود ملازمین و افسران کو تنخواہیں دینا مشکل میں پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی میں نئی بھرتیوں کے لیے مقابلے کے امتحانات کا نظام کینسل کر کے سلیکشن کا اختیار ڈی جی فوڈ اتھارٹی کو دے دیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ اب تقرریاں پرچی سسٹم پر ہوں گی۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی ایک شاندار ادارہ ہے جو پرچی سسٹم سے تباہ نہ بھی ہوا تو خراب ضرور ہو جائے گا۔ میرٹ کا خیال نہ رکھا گیا تو اس کا سارا ملبہ محکمہ کے ڈائریکٹر جنرل پر گرے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چودھری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی اپنے تعلقات کا خیال بھی رکھتے ہیں اور تعلق نبھانا بھی جانتے ہیں لیکن اب تو وہ پورے پنجاب کے وارث ہیں اور پنجاب کے ہر فرد
کی ذمہ داری ان پر ہے۔ اتنے مشکل حالات میں اگر ان کی ساری توجہ گجرات اور گجرات کے انتخابی حلقوں پر رہے گی تو باقی پنجاب کے لوگ یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ چودھری صاحبان گجرات کو صوبہ ڈکلیئر کرا کے اپنے خاندان کے تاقیامت وزیراعلیٰ رہنے کا بل پاس کرا لیں لیکن کم از کم پنجاب
پر اب مزید ستم بند کر دیں۔ یہی پنجاب ہے جس میں عثمان بزدار نے ہر شہر کو ترقیاتی فنڈز دیئے صوبے میں ضلعی سطح پر آرٹ کونسلیں بنائی گئیں۔ صوبائی سطح پر تعلیمی اور ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ دیا، کاروباری طبقے کی توقعات پر پورا اترنے کی پوری کوشش کی۔ لیکن آج صرف سرکاری سطح پر بھی صرف ان اداروں کا خیال رکھا جا رہا ہے جہاں کوئی نہ کوئی گجراتی تشریف فرما ہے۔ کہاں گیا چودھری پرویز الٰہی کے سیاسی وقار کو بلند رکھنے والا پرانا ویژن، پڑھا لکھا پنجاب، 1122، امراض قلب کا ہسپتال جو اگر گجرات میں بنایا گیا تو ملتان میں بھی بنایا گیا۔ لیکن آج چند دنوں کی بادشاہت نے لگتا ہے ہمارے سمجھدار اور دانا سیاسی رہنماؤں کی آنکھوں پر افراتفری کی پٹی باندھ دی ہے۔ ان کو اس وقت گجرات کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا۔
شہباز شریف کی مقبولیت کا خاتمہ کرنے والی بھی یہی اپروچ تھی جب انہوں نے لاہور کو ہی سارا پنجاب سمجھ لیا تھا۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی کی چُھٹی کرانے والی ن لیگ کو آج لاہور میں خیرات دینے کے لیے کوئی تیار نہیں۔
اگر گجرات کے سیاسی رہنما ہونے کے ناتے اتنا کُھل کر کھیلا جا رہا ہے تو پھر بسمہ اللہ پڑھیں رکھیں ایک نئے صوبے کی بنیاد۔ سرائیکی صوبے والے تو بیچارے کُرلا کُرلا کے مر گئے کہ نیا صوبہ بنانا ہماری سماجی، معاشی اور سرکار کی انتظامی ضرورت ہے لیکن کسی کے کان پہ کبھی جوں تک نہیں رینگی۔ اب موقع ہاتھ میں ہے جس طرح تمام پراجیکٹس اور فنڈز کی منظوری کا بوجھ کیبنٹ پہ ڈالا جا رہا تو لگتے ہاتھ دو صوبے بھی منظور کرا لیے جائیں۔ سرائیکی صوبے کے ساتھ ساتھ صوبہ گجرات بنے گا تو جواز بھی مل جائے گا۔ نظام سقہ نے بھی تو کیا تھا یہی کچھ۔ اگر ایک دن کی بادشاہت میں دنیا بدلی جا سکتی ہے تو مہینوں کی بادشاہت کے عرصے میں کیا نہیں کیا جا سکتا۔
سنا ہے مونس الٰہی نے فیصل آباد میں خودکشی کرنے کے لیے گھنٹہ گھر پر چڑھنے والے شخص کی جان بچانے والے 1122 کے بہادر جوان کو انعام دینے کی سفارش کی ہے۔ یہ بلاشبہ ایک احسن بات ہے لیکن کاش مونس الٰہی نے خودکشی کا سوچنے والے شخص سے اس کو اس نہج پر پہنچانے والے حالات کا بھی پوچھا ہوتا۔ خودکشیاں تو آئے دن کی جا رہی ہیں اور زیادہ تر وجہ معاشی تباہی ہے لیکن اخبارات صرف اور صرف اقتدار کی چھینا جھپٹی سے متعلق خبروں سے بھری رہتی ہیں۔ ایک انڈسٹری کی خودکشی لاکھوں گھرانوں کے معاشی قتل کا باعث بنتی ہے اور یہاں ملیں بند ہونے کی قطاریں لگ چکی ہیں۔ آج ایک تو کل دوسری اور اگر چند بڑے صنعتی گروپس حالات سے لڑنے کی کوشش کر رہے ہیں تو ملوں کے یونٹس کو جزوی طور پر چلا کر۔ اگرچہ چودھری پرویز الٰہی لاکھوں نوکریاں دینے کی بات تو کر رہے ہیں لیکن نوکریاں پیدا کرنے کی بات سوچنے کا ان کے پاس وقت ہی نہیں۔ نادر شاہی احکامات کے تحت کام چلانے کے مضمرات بھی مدِنظر نہیں رکھے جا رہے۔ کشتی ڈوبنے جیسی صورتحال بن چکی ہے۔ ہر کوئی اپنا اپنا مال سمیٹنے پہ لگا ہوا ہے کسی کو کشتی کا خیال ہے نہ اس پہ سوار بے سہارا، کمزور اور مجبور سواریوں کا۔ پی ڈی ایم پاکستان کی کشتی ڈبو بیٹھی ہے اور پنجاب کی اس ڈوبتی کشتی میں بھی گجرات کی سواریوں کے علاوہ کوئی سواری بچتی نظر نہیں آتی۔
یہ راستے کھا جائیں گے ہر شخص کی آنکھیں
بدلا نہ اگر شہر کا نقشہ کوئی دن اور