ارکان پارلیمنٹ کو احمقانہ قانون بنانے کا بھی حق ہے، کوئی عدالت ارکان کی نیت کا تعین نہیں کرسکتی،پارلیمنٹ بھی عدالتی فیصلہ مسترد کردے تو خطرناک صورتحال ہوگی: وفاقی حکومت

ارکان پارلیمنٹ کو احمقانہ قانون بنانے کا بھی حق ہے، کوئی عدالت ارکان کی نیت کا تعین نہیں کرسکتی،پارلیمنٹ بھی عدالتی فیصلہ مسترد کردے تو خطرناک صورتحال ہوگی: وفاقی حکومت
سورس: File

اسلام آباد (جہانزیب عباسی)وفاقی حکومت نے نیب قانون میں حالیہ ترامیم کیخلاف کیس میں سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کو احمقانہ قانون بھی بنانے کا مکمل اختیار حاصل ہے ۔کسی برے یا احمقانہ قانون پر بھی عدالت کا دائرہ اختیار نہیں بنتا ۔انتہائی خطرناک صورتحال پیدا ہو جائے گی اگر پارلیمنٹ عدلیہ کے کسی فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے اسے مسترد کردے ۔ یہ دلائل وفاقی حکومت کے وکیل ایڈووکیٹ مخدوم علی خان نے امریکی سپریم کورٹ کے پہلے سیاہ فام جج کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے دیے ۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے نیب قانون میں حالیہ ترامیم کیخلاف تحریک انصاف کی درخواست پر اٹھائیسویں سماعت ہوئی ۔ وفاقی حکومت کی طرف سے سینئر ایڈووکیٹ مخدوم علی خان نے عدالتی دائرہ اختیارپر سوال اٹھاتے ہوئے کہا اسلام کے خلاف کسی قانونی سازی کو چیلنج کرنے کا آئینی فورم شریعت کورٹ ہے،کوئی قانون سازی اسلام کے خلاف ہے یا نہیں یہ جانچنے کا اختیار سپریم کورٹ، ہائی کورٹ کے بجائے شریعت کورٹ کو حاصل ہے ۔ آئین پاکستان نے قانون بنانے، کسی قانون میں تبدیلی کا خالصتاً اختیار پارلیمنٹ کو دے رکھا ہے ۔

حکومتی وکیل نے دلائل میں مزید کہا اعلیٰ عدالتوں نے مقننہ کے اختیارات کو تسلیم کیا ہے،امریکی صدر کو معافی کا اختیار ہے،امریکی سپریم کورٹ نے کبھی امریکی صدر کے اختیارات میں مداخلت نہیں کی، پارلیمنٹ کا کام ہے کہ وہ قانون میں ترمیم کرے یا اس کو مزید واضح کرے،قانون سازی کرنا عدلیہ کا کام نہیں ہے ۔

دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال اٹھایا قانون پارلیمنٹ کی اکثریت کی جانب سے پاس ہونا چاہیے ۔اس نیب ترمیم کی منظوری کے وقت کتنے ممبران نے اس کو پاس کیا تھا;238; ۔ وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کوئی قانون اس وجہ سے مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ اس کو منظور کرتے وقت ارکان کی اکثریت موجود نہیں تھی، کوئی اسمبلی عوامی خواہشات کے خلاف قانون منظور کرے تو اس کا فیصلہ کرنا عوام کا اختیار ہے عدلیہ کا نہیں ۔

دوران سماعت جب حکومتی وکیل نے دلائل میں کہا ارکان پارلیمنٹ آئین کے مطابق فیصلے کرنے کا حلف لیتے ہیں تو جسٹس اعجاز لا احسن نے کہا اراکین پارلیمنٹ کے حلف میں تو یہ بھی ذکر ہے کہ وہ تمام فیصلے ملکی سلامتی ،ترقی و بہتری کیلئے کریں گے ،کیا ملکی سلامتی ،ترقی اور بہتری کے خلاف قانون سازی ممبران پارلیمنٹ کے حلف کی خلاف ورزی تصور ہوگی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے ججز آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنے کے پابند ہیں ،ججز ملکی سلامتی ،ترقی اور خوشحالی کے مطابق فیصلوں کا حلف نہیں لیتے ۔ حکومتی وکیل بولے کوئی عدالت اراکین پارلیمنٹ کی نیت کا تعین نہیں کر سکتی ۔

ایڈووکیٹ مخدوم علی خا ن نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا رکن پارلیمنٹ اپنے کسی بھی اقدام پر عوامی عدالت میں جواب دہ ہے،امریکی جج تھرگُڈ مارشل نے کہا ارکان پارلیمنٹ کو احمقانہ قانون بنانے کا مکمل اختیار ہے،امریکی جج نے کہا اگر عوام اپنے ارکان پارلیمنٹ کے ذریعے جہنم میں جانا چاہے تو میں کیا کروں ، کسی برے یا احمقانہ قانون پر بھی عدالت کا دائرہ اختیار نہیں بنتا،انتہائی خطرناک صورتحال پیدا ہو جائے گی اگر پارلیمنٹ عدلیہ کے کسی فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے اسے مسترد کردے،اس طرح تو کسی بھی عدالت کا کوئی جج قانون کو ملک کی بہتری اور خوشحالی سے متصادم قرار دیکر مسترد کر سکتا ہے، ججز اور ارکان پارلیمنٹ کے حلف میں بہت ساری چیزیں مشترک ہیں ۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے ہم نے عوامی مفاد دیکھنا ہے،نجی مفاد کو عوامی مفاد قرار نہیں دیا جاسکتا،نیب قانون سے انفرادی طور پر فائدہ اٹھانے والوں کا معاملہ الگ ہے ۔ حکومتی وکیل نے دلائل میں کہا سپریم کورٹ پارلیمنٹ یا انتظامیہ کے اقدام کا تب جائزہ لے سکتی ہے جب سرخ لکیر عبور کی جائے، پارلیمنٹ کے بنائے گئے قانون کو بدنیت قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ کیس کی سماعت کل دوبارہ ہوگی ۔ خیال رہے تحریک انصاف وکیل ایڈووکیٹ خواجہ حارث ستائیس طویل سماعتوں پر مشتمل دلائل دے چکے ہیں۔

مصنف کے بارے میں