پاناما عملدرآمد کیس، سماعت 17 جولائی تک ملتوی، ظفر حجازی کیخلاف مقدمے کا حکم

پاناما عملدرآمد کیس، سماعت 17 جولائی تک ملتوی، ظفر حجازی کیخلاف مقدمے کا حکم

اسلام آباد: جے آئی ٹی کی جانب سے دو باکس میں 11 جلدوں کی صورت میں سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کروا دی ہے۔ جمع کرائے گئے باکس کو ٹرالی پر لایا گیا تھا جس پر لفظ ’ثبوت‘ تحریر تھا۔ڈائریکٹر ایف آئی اے واجد ضیاء نے  عدالت سے رپورٹ کا والیم نمبر 10 پبلک نہ کرنے کی استدعا کی۔ رپورٹ جمع کروانے کے بعد جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی ۔ 

سماعت کے دوران حسین نواز کی تصویر لیک کے معاملے پر درخواست نمٹا دی گئی۔ سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ تصویر لیک کے ذمہ دار کا نام سامنے آنا چاہئے لیکن اس پر کمیشن بنانے کی ضرورت نہیں اگر حکومت کو تصویر لیک پر کمیشن بنانے میں دلچسپی ہے تو بنا لے۔

ظفر حجازی کے خلاف مقدمے کا حکم

ایس ای سی پی ریکارڈ ٹیمپرنگ کے معاملے پرسپریم کورٹ نے ظفر حجازی کے خلاف مقدمے درج کرنے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ نے آج ہی مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ ظفر حجازی نے ماتحت افسران پر دباؤ ڈالا۔

سماعت کے موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایف آئی اے نے ایس ای سی پی کے چیئرمین ظفر حجازی کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔

نجی میڈیا گروپ کو توہین عدالت کا نوٹس

 سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے پاناما عملدرآمد کیس کے تین رکنی بینچ نے جے آئی ٹی امور اور آئی ایس آئی کے حوالے سے متنازع خبر شائع کرنے پر نجی میڈیا کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا۔ جسٹس اعجاز افضل نے اپنے ریمارکس میں کہا نجی میڈیا گروپ کی خبر براہ راست توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے۔

اس موقع پر جج نے کمرہ عدالت میں موجود نجی میڈیا گروپ کے نمائندے کو روسٹرم پر طلب کر کے خبر سے متعلق استفسار کیا جس پر نمائندے نے کہا کہ جس رپورٹر نے خبر شائع کی وہ میں نہیں۔

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ جس نے خبر فائل کی وہ چھپ کر بیٹھا ہے اور خبر دینے سے پہلے رپورٹر نے جج سے رابطہ کرنے کی جرات کیسے کی۔ عدالت نے نجی میڈیا کی خبر کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا جے آئی ٹی کی نگرانی کا اختیار آئی ایس آئی کو نہیں دیا گیا تھا۔

سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے وزیراعظم کے سیاسی مشیر آصف کرمانی اور دیگر لیگی رہنماؤں طلال چوہدری اور سعد رفیق کی جانب سے کی جانے والی تقاریر کا متن طلب کرتے ہوئے کہا کہ تقاریر میں جے آئی ٹی کو دباؤ میں لانے کے ساتھ عدالت کو دھمکیاں بھی دی گئیں ہیں۔اس موقع پر فواد چودھری نے کہا کہ رانا ثناء اللہ، عابد شیر علی کے بیان کا بھی نوٹس لے جس پر عدالت نے کہا کہ فواد چودھری کیوں نہ آپ کی تقاریر کا مواد منگوایا جائے۔ سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ بیان بازوں کو عالمی عدالت میں ایڈہاک جج لگا دیں۔ 

عدالت نے جے آئی ٹی ممبران کی سیکیورٹی یقینی بنانے کے لیے اٹارنی جنرل کو حکم جاری کرتے ہوئے کہا جے آئی ٹی کے تمام ممبران کے دفاتر اور گھروں کو سیکیورٹی فراہم کی جائے۔ سپریم کورٹ کے مطابق جوڈیشل اکیڈمی کا کنٹرول عدالت کے پاس ہے اور اکیڈمی کو 10 روز تک خالی کریں گے۔

عدالت نے فریقین کے وکلاء کو آئندہ سماعت پر حاضر ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹ مکمل طور پر پڑھ کر آئیں اور اپنے دلائل کو دہرایا نہ جائے۔سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی سماعت17 جولائی تک کے لیے ملتوی کردی۔

جے آئی ٹی کی کارروائی

 جے آئی ٹی نے فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں 8 مئی2017 سے کام کا آغاز کیا تھا۔ جے آئی ٹی کے سامنے وزیراعظم نواز شریف، وزیر اعلیٰ شہباز شریف، وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز، وزیر اعظم کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر، چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری، سابق چیئرمین نیب محمد امجد، صدر نیشنل بینک، سابق وزیر داخلہ رحمان ملک، قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک، چیئرمین ایس ای سی پی ایک بار جبکہ وزیر اعظم کے کزن طارق شفیع 2 بار، وزیر اعظم کے بڑے صاحبزادے حسین نواز 6 بار اور حسن نواز 3 بار پیش ہوئے۔ اس کے علاوہ حدیبیہ پیپر ملز کیس کی تفتیش سے منسلک افسران بھی پیش ہوئے۔

جے آئی ٹی نے قطری شہزادے کو تین جبکہ قطری نے جے آئی ٹی کو چار خط لکھے اور قطری شہزادہ اپنے محل میں بیان ریکارڈ کرانے پر بضد رہا جبکہ جے آئی ٹی نے انہیں پاکستانی سفارتخانے میں آنے کی آفر کی تھی ۔

جے آئی ٹی کے کل 60 اجلاس منعقد ہوئے اور آخری اجلاس گزشتہ روز ہوا۔ واضح رہے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے 126 دن سماعت کے بعد 20 اپریل کو اپنے فیصلے میں جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا تاکہ شریف خاندان کی رقوم کی قطر سے منتقلی کی تحقیقات کی جا سکیں۔

دو ججز نے وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا جبکہ تین نے کہا کہ اس حوالے سے ابھی مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔ اس فیصلے میں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار نے اختلافی نوٹ تحریر کیے تھے۔

جے آئی ٹی کو دیئے جانے والے سوالات

پانچ رکنی بینچ نے جے آئی ٹی کو اس کیس کے حوالے سے مزید تحقیقات کیلئے 13 سوالات دیئے تھے

گلف اسٹیل مل کیسے وجود میں آئی؟

فروخت کیوں کی گئی؟

اس کے ذمہ واجبات کا کیا بنا؟

فروخت سے حاصل رقم کہاں استعمال ہوئی؟

رقم جدہ، قطر اور پھر برطانیہ کیسے منتقل کی گئی؟

کیا 90 کی دہائی کے اوائل میں حسن اور حسین نواز اپنی کم عمری کے باوجود اس قابل تھے کہ وہ فلیٹس خریدتے یا ان کے مالک بنتے؟

قطری شہزادے حمد بن جاسم کے خطوط کا اچانک منظر عام پر آنا حقیقت ہے یا افسانہ؟

حصص بازار میں موجود شیئرز فلیٹس میں کیسے تبدیل ہوئے؟

نیلسن اور نیسکول نامی کمپنیوں کے اصل مالکان کون ہیں؟

ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ نامی کمپنی کیسے وجود میں آئی؟

حسن نواز کی زیر ملکیت فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور دیگر کمپنیوں کے قیام کے لیے رقم کہاں سے آئی؟

ان کمپنیوں کو چلانے کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا؟

حسین نواز نے اپنے والد نواز شریف کو جو کروڑوں روپے تحفتاً دئیے وہ کہاں سے آئے؟

یہ بھی یاد رہے کہ بینچ نے نواز شریف کو آئین کے آرٹیکل62,63 کے حوالے سے نااہل قرار دینے یا نہ دینے سے متعلق فیصلہ محفوظ کر لیا تھا اور قرار دیا تھا کہ جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ آنے کے بعد اس بات کا فیصلہ کیا جائے گا۔

بعد ازاں چیف جسٹس ثاقب نثار نے جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا جس نے ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی تھی اس کے دیگر ارکان میں اسٹیٹ بینک سے عامر عزیز، ایس ای سی پی کے نمائندے بلال رسول، نیب سے عرفان نعیم منگی ، آئی ایس آئی سے بریگیڈیئر محمد نعمان سعید جبکہ ایم آئی سے بریگیڈیئر کامران خورشید شامل تھے۔جے آئی ٹی کو ہدایت کی گئی تھی کہ ساٹھ یوم میں تحقیقات کر کے حتمی رپورٹ دے ۔

نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں