”معصوم ملازمین پرظلم۔ ذمہ دار کون“

Iftikhar Hussain Shah, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

پچھلے مہینے یعنی جون کے آخری ہفتہ میں سوشل میڈیا پر ایک وڈیو وائرل ہوئی۔ ا س وڈیو میں ایک وقار نامی موٹر سائیکل مکینک نے اپنی دوکان ثقلین آٹوز واقع شاہدرہ ٹاؤن لاہور میں اپنے آٹھ سالہ ملازم احسان پر دوکان پر دیر سے آنے کیوجہ سے موٹر سائیکل چین (chain) سے وہ ظلم ڈھایا کہ جسے دیکھ کر روح کانپ اُ ٹھی۔ وہ مسلسل بچے کو اس لوہے کی چین سے مارے جا رہا تھا اور معصوم بچہ چیخیں مارمار کر اُس ظالم درندے سے معافی مانگے جا رہا تھا جو اُسے معاف کرنے کو تیار نہیں تھا۔اس وڈیو کے وائرل ہونے پر لاہور پولیس نے ایکشن لیا اوروقار موٹر سائیکل مکینک کو گرفتار کر لیا۔پھر وہی ہوا جو اس ملک میں ایسے کیسز میں ہوتا ہے۔ پولیس نے وقار کی ایک وڈیو بنائی جس میں وہ بچے سے، اس کے والدین سے اور لوگوں سے معافی مانگے جا رہا تھا اور یوں یہ قصہ تمام ہوا۔ ظاہر ہے وقار کے خلاف ایک ایف آئی آر بھی رجسٹرڈ ہو گئی ہو گی جو وقت گزرنے کے ساتھ اپنی موت آپ مر جائیگی۔اور لوہے کی چین سے اپنے نازک جسم پر مار کھانے والا بچہ احسان بھی صبرکاپیا لہ پی کر غم کی چھاؤں میں  سو گیا ہو گا۔ اُسکے ماں باپ بھی بے بسی کی تصویربنے اسی دنیا میں گھوم رہے ہونگے۔ اسی طرح کی ایک اور خبر دو تین دن پہلے ٹی وی (TV) پر گوجرانوالہ کی پیپلز کالونی میں واقع ایک بیکری کے مالک کی دو چھوٹے معصوم بچوں پر(جو اس کی بیکری میں ملاز م تھے)کرنے والے ظلم کی وڈیو وائرل ہونے کی چل رہی تھی۔خبر کے مطابق پولیس نے اس خبر کا نوٹس لے لیا اور مجرم کو تلاش کرنا شروع کر دیا تھا۔ یہ دونوں وڈیوز (videos) سوشل میڈیاپر وائرل ہونے کی وجہ سے لوگوں کے نوٹس میں آئیں ورنہ نہ جانے کتنے غریبوں کے معصوم بچوں پر ہر روز اور ہر گھڑی ظلم ڈھائے جا رہے ہونگے۔ اگر یہی دو وڈیوز (videos) دنیا کے مہذب ممالک کے باسیوں کو دکھائی جائیں تو اُن کے دلوں میں پاکستان کا کیا تصور ابھرے گا۔ اپنے ملک میں بے روزگاری ہے اور غربت ڈھیروں ڈھیر ہے۔ حکومتوں پر قابض طبقے لوٹ کھسوٹ میں بمع فیملیز مصروف ہیں۔ غریب روز بروز اور غریب ہو رہے ہیں۔ عمران خان کے لچھے دار لاروں سے تو غریبوں کے پیٹ نہیں بھرتے۔اس کے اپنے بچے تو باقی پاکستانی سیاستدانوں کی طرح لندن کے خوبصورت محلوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اپنے ملک میں تو غریب سڑکوں کی چوکوں پر بیٹھے مزدوری ڈھونڈتے ہیں یا بھیک مانگتے ہیں۔ظاہر ان کے بیٹے بیٹیوں کو جہاں مزدوری ملتی ہے وہیں کام شروع کر دیتے ہیں۔ اس ملک میں گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی ورکشاپس پر، پٹرول پمپس پر، سروس سٹیشنز، پنکچر لگانے اور ٹائروں میں ہوا بھرنے والی جگہوں پر آپ کو کم عمر بچے کام کرتے نظر آئینگے۔ چھوٹے چھوٹے ریسٹورنٹس اورڈھابوں پر بھی یہی کم عمر (جنہیں سکولوں میں ہونا چاہیے تھا)کام کرتے نظر آئینگے۔ آجکل تو خوشحال گھرانوں میں میڈموں اور چھوٹی باجیوں کی ڈیوٹیز (duties) کے لیے بھی کم عمر لڑکے اور لڑ کیو ں کو بطور ملازم رکھاجاتاہے۔ا ن کم 
عمر لڑکوں اور لڑکیوں کے کوئی ڈیوٹی اوقات (duty timings) نہیں ہوتے اور عموماً یہ ان گھروں کے سرونٹ کوارٹرز ہی میں رہتے ہیں، اس لیے وہ دن رات ان کے اشارہ ابرو پر تابعداری کرتے ہیں۔ زیادہ تر کے مقدر میں بچا کھچا کھانا اور پہننے کو مالکوں کے اُترے ہوئے کپڑے ہوتے ہیں۔ ان کا معاوضہ وقتاًفوقتاً ان کے والدین لے جاتے ہیں۔چھوٹی چھوٹی بات پر ان کو بُرا بھلا کہا جاتا 
ہے۔ چھوٹی موٹی غلطی پر انہیں مار بھی پٹتی ہے۔سب سے خوفناک بات تو یہ ہے کہ ورکشاپس کے استاد، ریسٹورنٹس کے سینئر ورکرز اور بعض اوقات تو گھروں کے میل ممبران بھی ان مظلوم لڑکوں اور لڑکیوں سے جسمانی زیادتی سے باز نہیں آتے۔ اب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا ان معصوم بچوں سے یوں مزدوریاں کرانے کی قانون اجازت دیتا ہے۔صاف ظاہر ہے ہرگزنہیں کیونکہ سولہ سال سے کم عمر کے بچے، تو بچے (child) کہلاتے ہیں اور ان سے مزدوری کرانا Child labour کہلاتا ہے جس کی انٹرنیشنل لیبر لاز (International labour laws) اجازت نہیں دیتے۔ تو کیا پاکستان میں چائلڈ لیبر (child labour (کی اجازت ہے۔ تو اس کا جواب بڑا واضح ہے کہ ہرگز نہیں۔تو پھر کیوں جس طرف نظر دوڑائیں آپ کو بچے مزدوریاں کرتے نظرآتے ہیں۔اس کا جواب بھی بڑا واضح ہے کہ اس ملک میں قوانین کا نفاذ صرف امیروں کے مفاد کے پیش نظر ہوتا ہے۔ غریبوں کے بچوں کی چائلڈ لیبر یا مزدوریاں چونکہ اس ملک کے سرمایہ داروں اور اُمراء کے مفاد میں ہے لہٰذا ایسے قوانین پر عمل درآمد کی کوئی ضرورت نہیں۔ ظاہر ہے ہمارے ملک میں چائلڈ لیبر کو روکنے کے لیے قوانین موجود ہیں جن کا نفاذ صوبائی محکمہ لیبر اور ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے لیکن ان کا عملی نفاذ آپ کو کہیں نظر نہیں آئیگاکیونکہ آپ کو کہیں حکومتی will نظر نہیں آئیگی۔ہمارے وزیراعظم اس ملک کے بچوں کی stunted growth کا ذکر تو بڑے دردمندانہ انداز میں کرتے ہیں لیکن کیا انہیں غریبوں کے معصوم بچوں کی اس عمر میں مزدوریاں کرناجب انہیں سکولوں میں ہونا چاہیے تھا نظر نہیں آتا۔ لیکن ایک بات تو اپنے وزیراعظم کی ماننی پڑے گی کہ سہانے خواب دکھانے میں اور غریبوں سے ہمدردی جتانے میں کوئی اُن کا ثانی نہیں۔لیکن یہ سچ ہے کہ ایسے دکھائے گئے خواب کچھ عرصہ تک چلتے ہیں۔بے وقوف سے بے وقوف پر بھی آخر حقیقت آشکارا ہو جاتی بھلے اسے کچھ عرصہ زیادہ لگ جاتا ہے۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ اس ملک کا ہر فرد اس ملک سے بھاگنا چاہتا ہے۔ میں تو اس بات پر حیران ہوں کہ اب تو یہاں کا خوشحال اور مراعات یافتہ طبقہ بھی ترقی یافتہ ممالک کی شہریت لینے کو اپنی ترجیحات میں شامل کیے پھرتا ہے۔ میرا زیادہ واسطہ تو اس ملک کی بیوروکریسی سے ہے، ان میں تو زیادہ تر اس نعمت سے مستفید ہو چکے ہیں۔