طیبہ تشدد کیس:اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملزمان کیخلاف چارج شیٹ جاری کردی

طیبہ تشدد کیس:اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملزمان کیخلاف چارج شیٹ جاری کردی

اسلام آباد: طیبہ تشدد کیس کے مرکزی ملزمان کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ نے چارج شیٹ جاری کردی جس کے مطابق ملزمان کو 6 جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔جسٹس محسن اختر کیانی نے ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی خان اوران کی اہلیہ ماہین ظفر کے خلاف چارج شیٹ جاری کردی جس کے مطابق اور ملزمان نے کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ کو حبس بے جا میں رکھا۔چارج شیٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملزمہ ماہین ظفر نے ملازمہ طیبہ پر تشدد کیا اپنی اہلیہ کو بچانے کے لیے راجا خرم علی خان نے طیبہ کو غائب کیا بعد ازاں پولیس نے طیبہ کو بازیاب کرایا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جاری ہونے والے چارج شیت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ راجہ خرم علی خان اورانکی اہلیہ نے طیبہ کو گھر پر ملازمہ رکھا جبکہ راجہ خرم علی خان اور ان کی اہلیہ نے اس گھریلو ملازمہ پر تشدد کیا۔چارج شیٹ کے مطابق جب پولیس نے طبیہ کو بازیاب کرایا تو اس کے ہاتھوں اور انگلیوں پر گہرے زخم کے نشانات پائے گئے تھے جبکہ ماہین ظفر کی جانب سے طیبہ کے ہاتھوں کو جلایا بھی گی تھا۔ملزمان کے خلاف جاری ہونے والی چارج شیٹ میں بتایا گیا ہے کہ ماہین ظفر کی جانب سے طیبہ کو دھمکایا بھی گیا تھا کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے تشدد کے حوالے سے کسی کو نہ بتائے جبکہ راجہ خرم علی خان اوران کی اہلیہ نے طیبہ کے علاج میں بھی کوتا ہی برتی تھی۔کمسن ملازمہ طیبہ پر تشدد کا معاملہ دسمبر 2016 کے آخر میں اس وقت منظرعام پر آیا تھا، جب تشدد زدہ بچی کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی تھیں۔ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجا خرم علی خان کے گھر سے بچی کی برآمدگی کے بعد پولیس نے انھیں اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔بعد ازاں 3 جنوری کو مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی کمسن ملازمہ کے والد ہونے کے دعویدار شخص نے جج اور ان کی اہلیہ کو 'معاف' کردیا تھا۔بچی کے والدین کی جانب سے راضی نامے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کم سن ملازمہ پر مبینہ تشدد کے معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے بچی اور اس کے والدین کو عدالت پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔اس کے بعد سے پولیس طیبہ کی تلاش میں سرگرداں تھی جبکہ اس نے طیبہ کی بازیابی کے لیے مختلف شہروں میں چھاپے مارے تھے، تاہم وہ اسلام آباد سے ہی بازیاب ہوئی، جسے بعدازاں پاکستان سوئیٹ ہوم کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔

دوسری جانب تشدد کے تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے سیشن جج اور ان کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ چند پڑوسیوں نے مبینہ طور پر ان کے خلاف 'سازش' کی، ملزم جوڑے کے مطابق انہوں نے والدین کی غربت کو دیکھتے ہوئے بچی کو انسانی ہمدردی کی بنا پر اپنے گھر میں رکھا تھا۔بعدازاں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کم سن ملازمہ پر ہونے والے تشدد پر ازخود نوٹس کیس کو مزید ٹرائل کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ بھیج دیا تھا۔10 فروری کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہونے والی گذشتہ سماعت کے دوران طیبہ کے والد نے ملزمان کو ایک مرتبہ پھر معاف کرنے کا بیان حلفی جمع کرادیا تھا، جس پر عدالت نے جج راجہ خرم علی اور ان کی اہلیہ کی درخواست ضمانت منظور کرلی۔

مصنف کے بارے میں