مثبت بنیاد پرستی سے منفی انتہاپسندی (2)

مثبت بنیاد پرستی سے منفی انتہاپسندی (2)

اسلامی بنیاد پرستی کے مسلم ناقدین اکثر جدید بنیاد پرست تحریک اور ساتویں صدی کے خوارج فرقے کے درمیان متوازی بات کرتے ہیں۔ اپنی بنیادی سیاسی پوزیشن سے، خوارجیوں نے انتہائی عقائد تیار کیے جنہوں نے انہیں مرکزی دھارے میں شامل سنی اور شیعہ مسلمانوں سے الگ کر دیا۔
مگر بدنصیبی سے عصر حاضر میں اس میں دین اور عقائد تو نکل گئے مگر کاروبار رہ گیا ابھی تھوڑی سی بات اسی کے حوالے سے عیسائیت میں بنیاد پرستی کی بات کرلیں جس میں عیسائی بنیاد پرستی ، جسے بنیادی عیسائیت یا بنیاد پرست عیسائیت کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ایک مذہبی تحریک ہے جو بائبل کی لفاظی پر زور دیتی ہے۔ اپنی جدید شکل میں، اس کا آغاز 19ویں صدی کے آخر اور 20ویں صدی کے اوائل میں برطانوی اور امریکی پروٹسٹنٹ کے درمیان مذہبی لبرل ازم اور ثقافتی جدیدیت کے ردعمل کے طور پر ہوا۔ بنیاد پرستوں نے استدلال کیا کہ 19 ویں صدی کے ماڈرنسٹ ماہر الہیات نے بعض عقائد کی غلط تشریح کی ہے یا اسے مسترد کر دیا ہے ، خاص طور پر بائبل کی بے قاعدگی، جسے وہ عیسائی عقیدے کی بنیادی باتوں پر غور کرتے تھے۔ 
بنیاد پرستوں کو تقریباً ہمیشہ ہی بائبل کی غلطی اور بائبل کی بے راہ روی کے عقائد کو برقرار رکھنے کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ بائبل کی تشریح ، بائبل میں یسوع کے کردار ، اور معاشرے میں چرچ کے کردار سے متعلق روایتی عیسائی عقائد کو مدنظر رکھتے ہوئے ، بنیاد پرست عام طور پر مسیحی عقائد کے ایک بنیادی حصے پر یقین رکھتے ہیں جس میں بائبل کی تاریخی درستگی شامل ہوتی ہے۔ وہ واقعات جو اس میں درج ہیں نیز یسوع مسیح کی دوسری آمد۔ 
بنیاد پرستی اپنے آپ کو مختلف فرقوں میں ظاہر کرتی ہے جو کسی ایک فرقے یا منظم الہیات کے بجائے مختلف الہیات پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ نظریہ 1910 کی دہائی میں The Fundamentals کی ریلیز کے بعد فعال ہوا ، جو ایک بارہ جلدوں پر مشتمل مضامین، معذرت خواہانہ اور پولیمک ہے، جو قدامت پسند پروٹسٹنٹ الہیات کے ماہرین نے ان عقائد کا دفاع کرنے کی کوشش میں لکھا تھا جسے وہ پروٹسٹنٹ آرتھوڈوکس سمجھتے تھے۔ یہ تحریک 1920 کی دہائی میں امریکی پروٹسٹنٹ گرجا گھروں میں زیادہ منظم ہو گئی، خاص طور پر پریسبیٹیرین کے ساتھ ساتھ بپتسمہ دینے والوں اور میتھوڈسٹوں میں۔. بہت سے گرجا گھروں نے جنہوں نے بنیاد پرستی کو قبول کیا، اپنے بنیادی عقائد کے حوالے سے عسکریت پسندانہ رویہ اپنایا۔ اصلاح شدہ بنیاد پرست عقیدے کے تاریخی اعترافات پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں ، جیسے کہ ویسٹ منسٹر کنفیشن آف فیتھ ، اور ساتھ ہی پرنسٹن الہیات کو برقرار رکھتے ہیں۔ 1930 کے بعد سے، بپتسمہ دینے والی روایت میں بہت سے بنیاد پرست گرجا گھروں کی نمائندگی (جو عام طور پر ڈسپنسیشنل ازم کی تصدیق کرتے ہیں ) کی نمائندگی امریکہ کے آزاد بنیادی گرجا گھروں (1996 میں IFCA انٹرنیشنل) کے ذریعے کی گئی ہے، جب کہ میتھوڈسٹ روایت میں بہت سے مذہبی طور پر قدامت پسند کنکشنز (جو اس کی پیروی کرتے ہیں۔ ویزلیان الہیات) انٹر چرچ ہولینس کنونشن کے ساتھ سیدھ میں آنا ؛ مختلف ممالک میں، قومی ادارے جیسے کہ امریکن کونسل آف کرسچن چرچ مختلف فرقہ وارانہ پس منظر کے بنیاد پرست اداروں کے درمیان مکالمے کی حوصلہ افزائی کے لیے موجود ہیں۔ دیگر بنیاد پرست فرقوں کا دوسرے اداروں سے بہت کم رابطہ ہے۔ 
چند اسکالرز کیتھولک کو بنیاد پرست قرار دیتے ہیں جو جدید عیسائی الہیات کو زیادہ روایتی عقائد کے حق میں مسترد کرتے ہیں۔ اصطلاح بعض اوقات غلطی سے انجیلی بشارت کی اصطلاح سے الجھ جاتی ہے۔
مگر عصر حاضر کا المیہ یہ ہے کہ دونوں اطراف سے بنیاد پرستی کے احیا کے لئے خالصتاً نظریات کو پس پشت ڈال دیا گیا اور سیاسی مفادات، ذاتی مفادات، ذاتی شناخت آگے لے آئے یہی صورتحال بدعت اور دیگر مذاہب کی ہے حالانکہ بدعت کا کوئی مرتکب نہیں تھا جنہوں نے مذہب کا نہ ہونا مذہب بنا لیا۔ ہم اپنی بات کرتے ہیں۔ ہمارے ضیاء الحق کے دور سے بنیادپرستی اور مذہب کا نام ایک گھنائونی سازش سے شروع کیا گیا جو دن بدن بڑھتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ لبرل جماعتیں بھی اس کے رنگ میں رنگ گئیں۔ اب حالات یہ ہیں کہ یہ سب کچھ انتہاپسندی کی خوفناک شکل اختیار کر لیا۔ اب جس کا دل چاہتا ہے پورا ملک بلاک کر دیتا ہے۔ جس میں سوشل میڈیا نے اس چلن کو دوآتشہ کر دیا۔ ضیاء الحق اسلام کی بجائے منافقت، عسکریت پسندی نافذ کر گیا اور اس کے مقابلے میں بھارت نے اپنے ہاں مسلمانوں اور کشمیریوں کی زندگی تنگ کر دی۔ وطن عزیز میں اسلامی بنیاد پرستی رہی نہ کوئی مثبت رجحان بس عسکریت پسند اور انتہاپسندی وقت کا گیت بن گئی۔ افسوس کے یہ سب کچھ ریاست کے ایماء پر ہوا۔ اب یہ انتہاپسندی کا خناس ریاست سے سنبھالنا مشکل ہوتا چلا جا رہاہے۔ جن کا کوئی کردار نہیں وہ بھی بنیاد پرست ہیں۔ ہر فرقہ، ہر طبقہ جب چاہے پورا ملک بلاک کر دے جو آزادی اظہار کے نام پے جاری رکھا جانا قرار پایا۔ اس سارے کاروبار میں آئین قانون ، معاشرت برباد ہو گئی۔ انصاف اور وسائل کی عدم دستیابی ریاست کی جانبداری اداروں کے انحطاط، بدعنوانی نے انتہاپسندی کو فروغ دیا۔ حیرت ہے کہ 75سالوں سے بلوچستان کے عوام کی اشک جوئی نہ کی گئی۔ اس کے ذمہ دار چاہے وہاں کے سردار ہی ہوں لیکن ریاست بالاتر ہوا کرتی ہے مگر آئین کے تابع رہ کر انتہاپسندی کا خوفناک اور لامتناہی سلسلہ حالیہ دور میں ضیاء الحق کے خونیں اور ظلم و جبر کے دور سے شروع ہوا۔ مخالفین خصوصاً پیپلز پارٹی کے لئے کوڑے، پھانسیاں، قیدیں، جلاوطنیاں رہ گئیں اور اس رسم کو آنے والے لوگوں نے اپنے مخالفین کو آگے بڑھایا یہاں تک کہ انتہاپسند عسکریت پسند مذہبی سیاسی گروہ پیدا کئے ۔ مثبت نسبت سے سوشلزم ہونے والی مذہبی بنیاد پرستی ضیاء الحق کے صدر کے بعد خوفناک انتہاپسندی کے دور میں داخل ہو گئی۔ جھوٹ اور پروپیگنڈا آج ساتھ عسکریت کا اظہار ہماری پہچان بن گئی جس کا نتیجہ ہم بھارت میں مسلمانوں پر ٹوٹنے والے مظالم اور بیرونی دنیا میں اپنے برباد شدہ امیج کی صورت دیکھ رہے ہیں۔ انتہاپسندی صرف آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی ہی سے قابو آسکتی ہے۔

مصنف کے بارے میں