عوام کو ہوش کے ناخن لینا ہوں گے

عوام کو ہوش کے ناخن لینا ہوں گے

فریڈرک نطشے کے مطابق’’اگر آپ کاکروچ کو ماریں تو آپ ہیرو ہیں اور اگر ایک خوبصورت تتلی کو ماریں تو آپ ولن ہیں ! اخلاقیات بھی جمالیاتی معیار رکھتی ہیں‘‘۔جواہر لال نہرو کے والد موتی لال نہرو کامیاب وکیل، بزنس مین اور سیاست دان تھے، وہ دہلی، الٰہ آباد اور کلکتہ میں پریکٹس کرتے تھے اور 1900ء کے شروع میں لاکھوں روپے ماہانہ کماتے تھے، وہ دوبار آل انڈیا کانگریس کے صدر بھی رہے، موتی لال نہرو صاحب خود سیاست دان تھے مگر وہ اپنے بیٹے جواہر لال نہرو کو سیاست سے دور رکھنا چاہتے تھے، وہ انہیں صرف وکیل دیکھنے کے خواہاں تھے، انہیں لاٹھی اور جیل سے بچائے رکھنا چاہتے تھے۔جواہر لال کے والد نے بیٹے کو شاہی خاندان کی طرح پڑھایا، نوابوں جیسی پرورش کی، کیمبرج یونیورسٹی میں تعلیم دلائی اور جب وہ بیرسٹر بن کر ہندوستان واپس آگئے تو انہیں الٰہ آباد میں اچھے کلائنٹس لے کر دیئے لیکن جواہر لال نہرو کمیونسٹ ذہنیت کے مالک تھے، وہ سیاست میں آ کر معاشرے میں مساوات پیدا کرنا چاہتے تھے، والد نے بہت سمجھایا مگر جب دال نہ گلی تو اس نے ایک دن جواہر لال نہرو کی الماری سے سارے قیمتی سوٹ، جوتے اور سگار نکالے اور دوستوں کے بچوں میں تقسیم کر دیئے اور ان کی جگہ کھدر کے دو پائجامے اور تین کرتے لٹکا دیے اور ہاتھ سے بنی ہوئی دیسی جوتی رکھوا دی، جواہر لال کے کمرے سے سارا فرنیچر بھی اٹھوا دیاگیا، فرش پر کھردری دری اور موٹی چادر بچھا دی اور خانساماں کو حکم دے دیا تم کل سے صاحب زادے کو جیل کا کھانا دینا شروع کر دو اور بیٹے کا جیب 
خرچ بھی بند کر دیا گیا،جواہر لال نہرو نے جب اپنے کمرے کا یہ حال دیکھا تو رات کو مسکراتے ہوئے والد کے پاس آئے، بڑے نہرو صاحب اس وقت سٹڈی میں ٹالسٹائی کا ناول ’’وار اینڈ پیس‘‘ پڑھ رہے تھے‘ بیٹے نے پوچھا ’’آپ مجھ سے خفا ہیں‘‘ موتی لال نے نظریں کتاب سے اٹھائیں اور نرم آواز میں جواب دیا ’’میں تم سے ناراض ہونے والا دنیا کا آخری شخص ہوں گا‘‘ چھوٹے نہرو نے پوچھا ’’پھر آپ نے اتنا بڑا آپریشن کیوں کر دیا‘‘ والد نے بیٹے سے کہا ’’صاحب زادے تم نے جو راستہ چنا ہے اس میں جیل، بھوک اور خواری کے سوا کچھ نہیں، میں چاہتا ہوں تم آج ہی سے ان تمام چیزوں کی عادت ڈال لو جو اس راستے میں تمہیں پیش آنے والی ہیں۔ دوسرا غریب کے پاس اعتبار کے سوا کچھ نہیں ہوتا لہٰذا یہ انتہائی سوچ سمجھ کر دوسروں پر اعتبار کرتے ہیں، تم اگر عام آدمی کی بات کرنا چاہتے ہو تو پھر تمہیں خود بھی عام آدمی ہونا چاہیے، تم انگلینڈ کے سوٹ اور اٹلی کے جوتے پہن کر غریب کی بات کرو گے تو تم پر کوئی اعتبار نہیں کرے گا، میں نہیں چاہتا دنیا میرے بیٹے کو منافق کہے چنانچہ تم آج سے وہ کپڑے پہنو گے جو غریب پہنتا ہے اور تم اتنے پیسے ہی خرچ کرو گے جتنے غریب کی جیب میں ہوتے ہیں‘‘ جواہر لال نہرو نے والد کا ہاتھ چوما اورپھر مرنے تک کھدر کے کپڑے اور دیسی جوتے پہنے اور غریبوں جیسا سادہ کھانا کھایا۔ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ ایسی لیڈر شپ کا فقدان ہے، پوری دنیا میں لیڈروں کا تعلق عموماً بڑے گھرانوں سے ہوتا ہے، یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہوتے ہیں‘ان کا گلوبل ایکسپوژر بھی ہوتا ہے اوریہ اندر سے رجے ہوئے ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ جب سیاست میں آتے ہیں تو یہ سادگی اور غریب پروری کا تحفہ ساتھ لے کر آتے ہیں، یہ عام آدمی کی صرف باتیں نہیں کرتے یہ عام آدمی نظر بھی آتے ہیں مگر ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے، ہم ’’ڈرٹی پالیٹکس‘‘ کے ایک خوف ناک جوہڑ میں غوطے کھا رہے ہیں۔ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں غریبوں کی باتیں ضرور کرتی ہیں لیکن ان کے لیڈروں کا لائف سٹائل اور ان کی شخصیت ان باتوں سے میچ نہیں کرتا۔ ہزاروں کنال کے بنگلوں اور فارم ہاؤسز میں رہنے والے کئی کئی لاکھ ماہانہ تنخواہ اور دنیا بھر کی مراعات لینے والے بیرون ملک بڑے گھر اور بنک بیلنس رکھنے والے جہاز اور ہیلی کاپٹر کو گلی کے موٹر سائیکل کی طرح استعمال کرنے والے ہمارے وزیراعظم ایک غریب ملک کے رہنما نہیں ہوسکتے۔اگر رہنما لینا ہے تو غریب عوام سے لیں جو عام شہریوں کی طرح پانچ سات مرلہ کے گھر میں رہے۔ جرمن چانسلر اینجلا کی طرح دو تین سوٹوں اور ایک ہی کوٹ کے ساتھ پانچ سالہ دور اقتدار پورا کرے لیکن دنیا بھر میں کروڑوں ہی لوگوں کو اپنے کردار سے اپنا گرویدہ بنا لے اور باراک اوباما کی طرح صدارت سے فارغ ہو کر کرایے کا مکان ڈھونڈتا پھرے۔پاکستانی اور بالخصوص غلامانہ ذہنیت والے سے یہ توقع عبث ہے۔ ہماری قسمت میں لیڈر نہیں دھندے والے لوگ ہیں.یہ بات اب عوام کو معلوم ہو جانی چاہیے۔ انگلینڈ کے سوٹ اور اٹلی کے جوتے پہن کر غریب کی بات کرو گے تو کوئی تم پر اعتبار نہیں کرے گا۔اگر غریب کی بات کرنی ہے تو طرز زندگی بھی ان جیسا اپنانا ہو گا۔ اگر عوام یہ چاہتے ہیں کہ ان کے مسائل کا حل نکلے تو انہیں لیڈر بھی عام طرز کے چننا ہونگے۔ اگر عوام لیڈر خواص میں چنیں گے تو ان کے حالات آج سے بھی بدتر ہوں گے۔ لہٰذا عوام کو ہی ہوش کے ناخن لینا ہوں گے۔

مصنف کے بارے میں