آخر چور ہے کون؟

آخر چور ہے کون؟

ہر روز ہم جب بھی اخبارات پڑھتے ہیں یا کہ نیوز چینل دیکھتے ہیں تو ہم چور چور کی آوازیں سنتے ہیں ہم اپنی نسل کی کیا تربیت کر رہے ہیں ان سب کے چہروں کو اگر ہم دیکھتے ہیں تو سوال تو اُٹھتا ہے کہ آخر چور ہے کون؟بات زیر بحث سے پہلے قابل غور ہے!
ابھی چند روز سے ایک بحث چل رہی ہے (ن)لیگ کے رہنما عمران خان کو چور چور کہہ رہے ہیں اور عمران خان موجودہ وزیر اعظم کو امپورٹڈ حکومت اور چیری بلاسم کا خطاب دے رہے ہیں۔مگر عمران خان سے میرا ایک سوال ہے اس بات کو تو کلیئر کریں جو فرح عرف (گوگی) سکینڈل پہ بھی روشنی ڈال دیں کیونکہ عوام منتظر ہے کہ آخر یہ سب ڈرامہ کیا ہے،اور عوام کا سوال تو کرنا بنتا ہے کیونکہ ایسی کونسی جادو کی چھڑی ہے جس سے ان لوگوں کے حالات تو بدلتے ہیں اگر حالات نہیں بدلتے تو ملک کے ہی نہیں بدلتے ان سب سیاستدانوں کو میرا کہنا ہے کہ وہی جادو کی چھڑی ملک کی بہتری کے لیے استعمال کر لیں شاید ملک کی تقدیر بدل جائے۔
افسوس !اس وقت ملک غذائی قلت کی طرف جا رہا ہے،مگر اس طرف کسی کا ذہن نہیں بلکہ سیاسی کھینچا تانی میں ملک کو انتشار کی طرف لے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے ،عمران خان جس پہ ساری قوم کی امیدیں ٹکی ہوئی تھیں وہ بھی ٹوٹ کے چکنا چور ہو چُکی ہیں اس وقت عمران خان ایک بار پھر لانگ مارچ اور دھرنوں کی عوام کو دعوت دے رہے ہیں یہ کوئی پہلا دھرنا نہیں ہے اس سے پہلے بھی بہت سے دھرنے گزر چُکے مگر کسی بھی دھرنے سے حکومت نہیں گری۔بہت سے لوگوں کی عمران خان کے بارے میں یہ رائے اب بھی ہے کہ وہ انگلش اچھی بول لیتے ہیں وہ ملک کو بحرانوں سے نکال لیں گے، مگر یہ بھی مت بھولیے کہ عمران خان کے دور میں جتنی مہنگائی عروج پہ پہنچی وہ بھی کسی دور میں اتنی تیزی سے نہیں ہوئی۔
اس وقت قوم جس مہنگائی سے لڑ رہی ہے اس کی کسی کو فکر نہیں غریب نے اگر گوشت کھانا ہوتا تھا تو مرغی کا گوشت کھا لیتے مگر اب تو وہ بھی عوام کی دسترس سے باہر ہوتا جا رہا ہے جس کے ایک کلو کا ریٹ 510  ہو چُکا ہے۔ آئل جو روزمرہ استعمال میں ہوتا ہے کی قیمت 500 روپے فی لیٹر تک جا پہنچی ہے، پیاز کی قیمت 200 روپے فی کلو تک جا پہنچی ہے،ا ور آگے گندم کی قلت کی صورتحال بھی پیدا ہو رہی ہے ،کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے خشک سالی کا بھی اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے اور موسمی تبدیلی کی اس حدت کے اثرات گلیشئر پر بھی پڑ رہے ہیں جس سے ایک اندازے کے مطابق 2500 جھیلوں کے رقبے میں اضافہ ہو چُکا ہے۔
جیسے جیسے موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ویسے ویسے بارشوں کی کمی بھی ہو رہی ہے جس سے خشک سالی میں طوالت اور شدت آرہی ہے،جس سے ملک میں فصلوں کے دورانیے اور زرعی پیداوار کا پورا سائیکل شدید قسم کے چینج سے گزر رہا ہے۔ اب سب سیاستدانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں ان نئی حقیقتوں کو جتنا جلد قبول کریں گے اُتنی ہی اس ماحولیاتی تبدیلی کے ساتھ اپنے زرعی سسٹم کو ڈھال سکیں گے۔ اس ماحولیاتی تبدیلی کو کنٹرول کرنا ہماری سب کی بھی ذمہ داری ہے،اس کے لیے ہمیں بڑے پیمانے پہ شجر کاری ،نئے جنگلات اور کاربن کے اخراج میں کمی ایسے اقدامات درکار ہیں۔اس کا تسلی بخش حل اجتماعی عالمی کو ششوں سے ہی ممکن ہے،اگر آج ہم تباہی اور خشک سالی کی طرف جا رہے ہیں تو یہ ہمارے پیدا کردہ مسائل ہیں جتنی جلدی ہو سکے ہمیں ان پہ قابو پایا جانا چاہیے۔
اس کا ایک بہترین حل یہ بھی ہے کہ عالمی سطح پہ کانفرنسیں منعقد ہونی چاہئیں۔ ماحولیاتی تحفظ عالمی ذمہ داری ہے۔ 12سال پہلے منعقدہ کانفرنس جس میں تمام دولتمند ممالک شامل کیے گئے اور اُس میں موسمیاتی بچائو کے لیے سالانہ 100ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا گیا جو وعدے تک ہی محدود رہا،پھر گزشتہ برس اکتوبر میں گلاسکو ،میں ہونے والی کانفرنس (CPO.26)میں بھی یہ مطالبہ اسی طرح موجود رہا۔ہمیں بے اعتدال بارشوں اور درجہ حرارت کی شدت کیلئے خود کو تیار رکھنا چاہیے اور ان حقائق کے تناظر میں اپنے رہن سہن،معیشت اور معاشرت کو ترتیب دینے کی کوشش کرنے چاہیے۔
ایک اہم خبر جو بہت ڈسکس کی جا رہی ہے اور اس پہ ڈسکس کرنا بنتا بھی ہے اور آئی ایس پی آر کی طرف سے بھی بیان بھی جاری ہوا کہ سیاست میںفوج کو مت گھسیٹو تو یہ بات درست بھی ہے۔ہمارے پاکستان کا یہ واحد ادارہ ہے کہ جس کی چھائوں میں ہمارا ملک محفوظ ہیں۔ہم راتوں کو سو رہے ہوتے ہیں اور یہ جاگ کے ہماری سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔میں اس کالم کی وساطت سے تمام سیاستدانوں کو ایک پیغام دینا چاہوں گی کہ جس شاخ پہ بیٹھیں اُس کو کاٹا نہیں کرتے ہمارے اس ادارے کی عزت کرنا ہر پاکستانی شہری پہ لاگو ہوتی ہے اس قسم کی بیان بازیوں سے ہمیں عالمی سطح پہ ایک منفی میسیج دینے سے گریزاں ہونا چاہیے۔سیاست میں سیاسی بیان بازی اور ملک کی بہتری کی پلاننگ کرنی چاہیے نہ کہ ا پنے اداروں کو اس طرح بیان بازیوں میں گھسیٹا جائے ،اگر ہمارے اس ادارے کو کوئی نقصان پہنچے گا تو ہماری ملکی سالمیت کو خطرہ ہو سکتا ہے لہٰذا سب کو یہ بات سمجھنی چاہیے۔

مصنف کے بارے میں