”وطن کی فکر کر!ناداں“

”وطن کی فکر کر!ناداں“

برسراقتدار سیاسی قیادت کے کچھ فیصلے محض اپنے اختیارات اور طاقت کا اظہار کرنے کے لیے ہوتے ہیں ایسے معاملات کی نوعیت ہومیو پیتھک علاج کی ہی ہوتی ہے جس سے مریض شفایاب ہوتا ہے اور نہ ہی اس علاج کے کوئی مضر صحت اثرات نمودار ہوتے ہیں یعنی فائدہ نہ نقصان۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اس سال 9 نومبر کو مصور پاکستان ڈاکٹر علامہ اقبالؒ کے یوم پیدائش پر ملک میں عام تعطیل کا اعلان کر دیا۔ یاد رہے کہ جب یہ چھٹی ختم کی گئی تھی تو بھی ن لیگ کی حکومت تھی اس وقت نواز شریف وزیراعظم تھے۔ اس معاملے پر ن لیگ کا مؤقف ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے والا ہے کہ خود ہی یہ تعطیل ختم کی تھی اور خود ہی اس سال چھٹی دے دی۔ یاد رہے کہ سالانہ کیلنڈر میں اقبال ڈے کی چھٹی بحال نہیں کی گئی یہ نوٹیفکیشن صرف 2022ء کے 9 نومبر کے لیے جاری ہوا ہے اگلے سال کی چھٹی اگلے سال کے وزیراعظم کی مرضی پر منحصر ہے۔ جب یہ چھٹی ختم کی گئی تھی تو اس وقت ن لیگ کے مخالفین نے کہا تھا کہ یہ فیصلہ شاعر مشرق کے پوتے سینیٹر ولید اقبال کو تحریک انصاف میں جانے پر سبق سکھانے کے لیے کیا گیا ہے۔ ولید اقبال کی عاقبت نا اندیشی کا اندازہ لگائیں کہ وہ چار سال تک حکومت میں رہنے کے باوجود جہاں اور کچھ نہیں کر سکے وہاں ان سے اتنا بھی نہیں ہوا کہ اقبال ڈے کی چھٹی بحال کرانے کی اخلاقی جرأت ہی کر لیتے۔ اس یہ کون سا کوئی بجٹ درکار تھا۔ بہرحال شاعر مشرق کے فکرو فلسفے کے ایک ادنیٰ سے قاری کی حیثیت سے میں ذاتی طور پر شہباز شریف کے اس فیصلے پر اظہار مسرت کرتا ہوں بلاشبہ یہ ان کے سیاسی تدبر کی علامت ہے۔ 
قومی سیاسی صورتحال نہایت دگر گوں ہے جہاں کسی بھی لمحے کچھ بھی ہو سکتا ہے سپریم کورٹ کے حکم پر عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر پولیس کی طرف سے درج ہو چکی ہے اور پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے اس کو مسترد بھی کیا جا چکا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان رسہ کشی کا آخری دور چل رہا ہے کیوں کہ جتنے حالات خراب ہو چکے ہیں ان میں مزید ابتری کو گنجائش باقی نہیں بچی۔ اگر لانگ مارچ گوجرانوالہ سے اسلام آباد پہنچ کرامن و امان کا مسئلہ پیدا کرے گا تو ظاہر ہے کہ وہاں عوام اور لاء انفورسمنٹ میں تصادم ہو گا۔ تاریخ میں پہلی بار یہ ہوا ہے کہ ملک کے کسی ادارے کی ساکھ اور اعتماد اس قابل نہیں رہا ہے کہ سیاسی قوتوں میں ثالثی یا مفاہمت یا ڈائیلاگ کا اہتمام کر سکے یہ صورتحال قومی بدقسمتی کی علامت ہے۔ ان حالات میں تصادم سے بچاؤ کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ اگر پی ڈی ایم اور تحریک انصاف کے درمیان الیکشن کی تاریخ پر اتفاق نہ ہوا تو پھر ملک میں غیر اعلانیہ مارشل لاء یا نئی اصطلاح سیمی مارشل لاء لگ سکتا ہے۔ سیمی مارشل لاء کو اردو میں نیم فوجی حکومت کہہ سکتے ہیں جس میں حکومت براہ راست فوج کے پاس نہیں ہو گی مگر ایک سال کے لیے کوئی ایسا حکومتی بندوبست ہو گا جس کے بعد انتخابات ہوں گے یہ صورتحال جمہوری قوتوں کے لیے نقصان دہ اور ان کی ناکامی تصور کی جائے گی۔ 
اصل میں اپوزیشن کی ضد اور غیر لچکدار رویے نے یہ حالات پیدا کیے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن یہ سمجھتی ہے کہ وہ اس وقت مقبولیت کی جس بلندی پر ہیں اگر فوری انتخابات ہو جائیں تو وہ اقتدار میں واپس آجائیں گے۔ اس طرح کا جادو زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا اور اس طرح کے جادو کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ سامری جادوگر کے سحر کی قرآنی مثال سب کے سامنے ہے جس نے بنی اسرائیل کو ایک بچھڑے کی عبادت کرنے پر لگا دیا اور پوری قوم کو گمراہ کر دیا مگر بعد میں اس کا انجام یہ ہوا کہ سامری جادو گر اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا اور اسی پاگل پن میں اس کی موت واقعہ ہوگئی۔ قرآن مجید میں پرانی قوموں کے قصے جن کو اساطیر الاولین کہا جاتا ہے وہ اس لیے بار بیان کیے جاتے تھے تاکہ مسلمانوں کو ان سے عبرت حاصل ہو اور وہ اپنے انجام کی فکر کریں۔ 
کہا جاتا ہے کہ سیاست کے میدان میں جو کچھ بھی ہوتا ہے یہ پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے یعنی اتفاقیہ نہیں ہوتا اگر کبھی آپ کو یہ واقعات اتفاقیہ نظر آئیں تو سمجھ لیں کہ ان کی منصوبہ بندی ہی ایسے کی گئی ہے کہ یہ آپ کو اتفاقیہ یا حادثانی نظر آئیں حالانکہ یہ اتفاقیہ پن بھی پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے عمران خان پر حملے کا جو واقعہ پیش آیا ہے اس سے کم از کم ایک ردعمل یہ ہوا ہے کہ پوری قوم جو ارشد شریف کے قتل کو سب سے بڑا ایشو سمجھ رہی تھی۔ اپنے مؤقف سے رجوع کرنے پر مجبور ہو گئی۔ اب ارشد شریف کا قتل ایک معمول کی واردات لگنے لگا ہے۔ اگلے ایک ہفتے میں آپ دیکھیں گے کہ عمران خان پر قاتلانہ حملہ بھی روٹین میں آجائے گا اور قوم کو کوئی اور ایشو مل جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاست کے سارے کرداروں کو اندرونی صورتحال پتہ ہے اگر نہیں پتہ تو عوام کو نہیں پتہ کیونکہ یا تو انہیں بے خبر رکھا جاتا ہے یا پھر ان کو مرضی کی خبر دی جاتی ہے۔ ملک معاشی طور پر تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اور قوم کو غذائی قلت اور قحط سامنے نظر آرہے ہیں مگر مجال ہے کہ قومی اداروں حکومت یا اپوزیشن میں کسی کو اس کی کوئی فکر ہو۔ سب اپنا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ 
پنجاب میں گورنر راج کی خبریں گردش کر رہی ہیں کیونکہ گورنر ہاؤس کو نذر آتش کرنے کی کوشش کرنے والوں کو پنجاب حکومت اور پولیس نے پکڑنے کی کوشش نہیں کی یہ ایک طرح سے خانہ جنگی کی صورتحال ہے۔ درجن بھر افراد جا کر سڑکیں بلاک کرتے ہیں مگر پولیس انہیں نہیں روکتی۔ وزیراعلیٰ پنجاب ایک تیسرے فریق کی طرح کھڑے ہیں۔ ن لیگ کے ساتھ وہ پہلے ہی نہیں تھے اب وہ تحریک انصاف کے ساتھ بھی نہیں ہیں وہ اپنی مرضی کر رہے ہیں عمران خان پر حملے کے بعد کے حالات میں انہوں نے عمران خان کو مایوس کیا ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اندر سے ن لیگ اب پرویز الٰہی کی حکومت ختم کرنے کے حق میں نہیں کیونکہ پرویز الٰہی اب عمران خان کی مرضی سے نہیں بلکہ اپنی مرضی کر رہے ہیں جس کے ن لیگ کو مفت میں فوائد پہنچ رہے ہیں۔ 
پولیس کو اختیارات کے ناجائز اور ظالمانہ اختیارات کے استعمال اور ریاستی طاقت کا ایک مضبوط استعارہ سمجھا جاتا ہے مگر موجودہ حالات میں پولیس نہایت بے بس مظلوم اور toothless نظر آتی ہے۔ پنجاب اور وفاق کے درمیان تصادم میں سب سے زیادہ بے عزتی پولیس کی ہو رہی ہے انہیں یہ سمجھ نہیں آرہی کہ آرڈر کس کا ماننا ہے کیونکہ پولیس کو قانونی اور غیر قانونی احکامات کی تمیز ختم ہو چکی ہے وہ صرف اس آرڈر کو ماننے کے قائل ہے جس میں ان کی اپنی skin saving کی ضمانت ہو۔ ذلت کی اتنی اتھاہ گہرائی میں گرنے کے بجائے پولیس افسران کو چاہتے تھے کہ زمین پر رینگنے کے بجائے قانونی اور آئینی احکام پر عمل کرتے اس کے لیے خواہ ان کی نوکری چلی جاتی مگر وہ اب بھی اپنی نوکریاں بچانے کے لیے پر عزم ہیں۔ 
وزیراعظم شہباز شریف اپنے مصر کے سرکاری دورے کے اختتام پر پاکستان واپس آنے کے بجائے لندن تشریف لے گئے ہیں تا کہ نواز شریف سے ہدایات لے سکیں سننے میں آرہا ہے کہ نواز شریف الیکشن کی تاریخ دینے پر آمادہ ہیں لیکن اس کے لیے ان کی اپنی شرائط ہیں۔ اسی اثنا میں عمران خان کی گرفتاری کے امکانات بھی موجود ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بھی ممکن ہے کہ عمران خان سرکاری اداروں کی تحویل میں جا کر اپنی پارٹی کو لانگ مارچ ختم کرنے کی ہدایت جاری کریں جس طرح کی ہدایت سعد رضوی نے تحریک لبیک پاکستان کو دی تھی جس کے بعد مذاکرات کی راہ ہموار کی جائے گی۔ البتہ پاکستان کی سیاست کا اگلا پیج پلٹنے میں اب بھی دو ہفتے درکار ہیں۔ 28 نومبر کے بعد کی سیاست کا انتظار سب پر بھاری پڑ رہا ہے۔ بقول شاعر مشرق 
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں 

مصنف کے بارے میں