اسے ہی انارکی کہتے ہیں

اسے ہی انارکی کہتے ہیں

ایک عرصہ ہو گیا ہم یہی کہہ رہے تھے کہ ملک کو عدم استحکام سے دو چار کیا جا رہا ہے لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گذشتہ کچھ دنوں سے سندھ کو چھوڑ کر پورے ملک میں افراتفری کا ماحول ہے اور اگر کسی کے ذہن میں کوئی غلط فہمی یا احمقانہ خوش فہمی اب بھی موجود ہے تو عرض ہے کہ جو ماحول بنا دیا گیا ہے اسے ہی انارکی کہتے ہیں۔ حکومتیں عوام کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ ان کے فرائض منصبی میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ اگر کوئی شر پسند گروہ حالات کو خراب کرتا ہے اور روز مرہ زندگی کے معمولات متاثر ہوتے ہیں تو حکومتی مشینری حالات کو معمول پر لا کر اپنی آئینی ذمہ داری پورا کرتی ہے لیکن یہاں تو ہر بات نرالی ہو رہی ہے۔ راولپنڈی میں احتجاج کرنے والوں نے اسلام آباد جانے والے راستوں کو بند کیا ہوا ہے لیکن بجائے اس کے کہ پنجاب حکومت احتجاج کرنے والوں کو جو بہت زیادہ تعداد میں نہیں ہیں انھیں منتشر کر کے حالات کو معمول پر لائے اس کے برعکس حکومتی مشینری پورے صوبہ میں ان کی سہولت کار بنی ہوئی ہے اور حیرت اس بات پر ہوئی کہ راولپنڈی کی انتظامیہ نے آٹھ اور نو نومبر کو سکولوں میں بھی چھٹی کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا۔لاہور میں مال روڈ پر گورنر ہاؤس کے باہر ہم انھیں کیا کہیں احتجاج کرنے والے، شر پسند یا بلوائی اس کا فیصلہ قارئین خود کر لیں کہ جنھوں نے گورنر ہاؤس کے حفاظتی بیریئر توڑ دیئے۔ باہر لگے ہوئے تمام سی سی ٹی وی سکیورٹی کیمرے توڑ دیئے حتیٰ کہ گیٹ کو آگ لگا دی۔ اس ساری صورت حال کا انتہائی افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس دوران پولیس خاموش تماشائی بن کر مجرمانہ کردار ادا کرتی رہی اس لئے کہ ویسے تو ریاست کے ہر شہری کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ دار حکومت ہوتی ہے لیکن گورنر ہاؤس کوئی پرائیویٹ پراپرٹی نہیں ہے بلکہ ریاست کی ملکیت ہے اور نہ صرف ملکیت بلکہ ریاست کے جاہ و جلال اور وقار کی علامت ہے اور جب حکومتی مشینری ہی ریاست کے وقار اور اس کے جاہ وجلال کو مٹی میں ملانے پر تل جائے تو اس سے بڑھ کر اور انارکی کسے کہیں گے۔مختلف موٹر ویز کو بند کر دیا گیا ہے کہ جہاں سے ملک کی اہم شخصیات ہی نہیں بلکہ سفارتی شخصیات بھی سفر کرتی ہیں اور یقینی بات ہے کہ ان کے بند ہونے سے جہاں اندرون ملک مسائل پیدا کئے جا رہے ہیں وہیں بیرون ملک بھی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔
 معاملات ابھی رکے کہاں ہیں بلکہ جو کچھ ہونے جا رہا ہے وہ مزید خوف ناک ہے۔ اگر تحریک انصاف کے بقول یہ سب احتجاج ہی ہے تو شعور کی منزل کو پہنچے ہمیں بھی کم و بیش چالیس سال سے اوپر ہو چلے ہیں اور پڑھنے والے اس بات سے اتفاق 
کریں گے کہ احتجاج ہمیشہ شہر کے مصروف مقامات پر کیا جاتا تھا جیسے کہ کراچی اور لاہور میں عام طور پر ریگل کے مقام پر احتجاج کیا جاتا تھا لیکن یہ احتجاج کا کون سا طریقہ ہے کہ حکومتیں اپنی ہیں کوئی روکنے والا نہیں ہے لہٰذا دو گاڑیوں کو سڑک کے درمیان میں کھڑا کر کے اور ساتھ میں درجن دو درجن بندے کھڑے کر کے شہروں کو ملانے والی مرکزی شاہراہیں بند کر دو۔اگر کسی کو احتجاج کا یہ طریقہ سمجھ نہیں آ رہا تو آسان اور سادہ زبان میں آمد و رفت کے ذرائع بند کر کے ملک کی معاشی ناکہ بندی کی جا رہی ہے۔ اسلام آباد کے تمام راستے بلاک کئے جا رہے ہیں اور پندرہ دن بعد یا جب بھی لانگ مارچ اسلام آباد پہنچے گا تو خیبر پختونخوا کے وزراء پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ مسلح جتھوں کے ساتھ اسلام آباد پریلغار کریں گے۔ ہمیں حیرت اس بات پر ہے کہ وزیر آباد میں عمران خان کے قافلہ پر فائرنگ کی ایف آئی آر میں چند دن کی تاخیر ہوئی تو سپریم کورٹ نے آئی جی پنجاب کو بلا کر چوبیس گھنٹے میں ایف آئی آر درج کر کے رپورٹ کرنے کا حکم صادر کر دیا لیکن ایک نیوکلیئر پاور رکھنے والے ملک کے دارالحکومت پر اعلانیہ مسلح جتھوں کے ساتھ یلغار کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں لیکن کسی کو کوئی فکر نہیں ہے بلکہ کچھ تو اسے آزادی رائے اور پر امن احتجاج کے زمرے میں ڈال کر مٹی پاؤ فارمولے پر عمل پیرا ہیں۔
یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے اس لئے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو ایک آئینی طریقہ عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا ہے۔ اس میں تحریک انصاف کے کسی رکن کا ووٹ شامل نہیں تھا لیکن ہوا کیا کہ جو اتحادی پہلے عمران خان کے ساتھ تھے وہ جب موجودہ حکومت کے ساتھ مل گئے تو وہ سارے اتحادی جو عدم اعتماد کی تحریک سے چند دن پہلے تک محب وطن بھی تھے اور دیانت دار بھی تھے جیسے ہی انھوں نے عمران خان کی حمایت سے ہاتھ کھینچا تو وہ غدار بھی ہو گئے اور کرپٹ اور بکاؤ مال بھی ہو گئے اور چند دن پہلے تک تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ ان اتحادیوں کا اتحاد جو جائز اور حلال تھا موجودہ حکومت کے ساتھ ملتے ہی ان اتحادیوں کا اتحاد ناجائز اور حرام ہو گیا۔حکومتیں پہلے بھی جاتی رہی ہیں 1990اور 1996میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومتیں اور 1993میں مسلم لیگ نواز کی حکومتوں کو 58ٹو بی کی غیر جمہوری آئینی شق کے ذریعے ختم کیا گیا۔ یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف کو نا اہل قرار دے کر گھر بھیجا گیا۔ احتجاج انھوں نے بھی کیا لیکن جان کو نہیں آ گئے ان سب نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور آگے چل دیئے۔خان صاحب نے 2014میں بھی لانگ مارچ کیا کہ جس کے آغاز میں ہی سانحہ ماڈل ٹاؤن میں 14بندوں کی جان چلی گئی اور پھر اسلام آباد میں 126دن کے دھرنوں نے پاکستان کی معیشت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا لیکن جن 35پنکچرز کی بنیاد پر یہ سب کیا گیا تھا بعد میں جب ان کے متعلق پوچھا گیا تو خان صاحب نے کمال سادگی سے جواب دیا کہ وہ تو ایک سیاسی بیان تھا۔ اب بھی ہر بات پر سیاست ہر بات پر الزام اور وہ بھی ریاستی اداروں اور حساس عہدوں پر ذمہ داریاں ادا کرتی شخصیات پر اور بغیر کسی ثبوت کے لیکن اب تحریک انصاف اور خود عمران خان جس روپ میں نظر آنا شروع ہو گئے ہیں اس سے ہمیں الطاف بھائی اور مہاجر قومی موومنٹ کی یاد آ گئی لیکن الطاف بھائی کی سیاست کا دائرہ کار کراچی اور زیادہ سے زیادہ حیدر آباد تک محدود تھا لیکن عمران خان کی سیاست دو شہروں کے بجائے پورے ملک تک وسیع ہے۔الزامات سے یاد آیا کہ ایک امریکی ٹی وی کو انٹر ویو میں جب انھوں نے خان صاحب کے الزامات کے حوالے سے شواہد کا پوچھا تو بار بار اصرار کے باوجود بھی عمران خان کوئی ثبوت پیش نہ کر سکے۔یہ ہے الزامی سیاست کی حقیقت اور اسی وجہ سے عمران خان ہم خیال صحافیوں کے علاوہ کسی اور کو انٹرویو نہیں دیتے کیونکہ انھیں علم ہے کہ ان کے سوالات کا خان صاحب کے پاس کوئی جواب نہیں ہو گا۔ اور ایک بات یاد رکھیں کہ اس وقت جو کچھ ان دونوں صوبوں میں ہو رہا ہے وفاقی حکومت نے جلد اس سنگین صورت حال کا تدارک نہ کیا تو حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔

مصنف کے بارے میں