پاکستان کی ترقی کا راز نبی کریم ﷺ کے راستے پر چلنے میں ہے : وزیر اعظم 

پاکستان کی ترقی کا راز نبی کریم ﷺ کے راستے پر چلنے میں ہے : وزیر اعظم 
سورس: فائل فوٹو

اسلام آباد : وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ موجودہ دور میں نوجوان نسل انتہائی دباؤ کا شکار ہے۔  میں ہمیشہ سے اپنی زندگی کا جائزہ لیتا  ہوں۔

اسلام آباد میں عشرہ رحمۃ اللعالمین کی تقریبات کے آغاز کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ عشرہ رحمۃ اللعالمین کے آغاز پر فخر پر محسوس کر رہا ہوں۔ ایک راستہ تباہی کا ہے اور دوسرا کامیابی کا ہے جو کہ نبی کریم ﷺ کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نوجوانی میں جن کو رول ماڈل سمجھتا تھا ان کی زندگی کو قریب سے دیکھا تو دیکھا کہ وہ تباہی کے راستے پر ہیں۔ آپ ﷺ کی زندگی میں نے بہت دیر میں سٹڈی کی  اور سمجھا کہ یہ ہی کامیابی کا راستہ ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ اللہ رب العزت نے ہمیں نبی کریم ﷺ کی زندگی سے سیکھنے کا حکم دیا۔ نبی کریم ﷺ کے بتائے راستے پر چلیں گے تو پاکستان ترقی کرے گا۔ 

انہوں نے کہا کہ میں آج نبی کریم ﷺ کا یوم ولادت منانے کے لیے پروگرام کا آغاز کر رہے ہیں اور اپنی قوم کے نوجوانوں سےبات کرنا چاہتا ہوں اور مجھے خوف ہے کیونکہ سوشل میڈیا اور جس طرف حالات جارہے ہیں اس لیے مختلف بات کروں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں اپنی زندگی سے شروع کروں گا کیونکہ جہاں میں آج ہوں ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا، بڑا سوچا کہ اس پر بات کروں یا نہ کروں، پھر مجھے بشریٰ نے کہا کہ ضرور کروں۔

وزیراعظم نے کہا کہ میری والدہ نے ایک دعا سکھائی تھی کہ سونے سے پہلے دعا کرو کہ اللہ مجھے سیدھے راستے پر لگا تو ہم بہن بھائی بھی بچپن میں یہی دعا کرتے تھے لیکن میری تعلیم ایچیسن میں ہوئی جہاں ہمارے رول ماڈل کوئی اور تھے جو ہمیں کہا گیا تھا سیدھا راستہ ہے اور جو رول ماڈل تھے، اس میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔

انہوں نے کہا کہ فلمی اداکار، پوپ اسٹار، کھلاڑی اور گلیمرس والے لوگ تھے اور ان کی زندگیاں بالکل مختلف تھی جن کے بارے میں ہمیں کہا گیا تھا کہ سیدھے راستے پر چلا۔

ان کا کہنا تھا کہ سمجھنے کے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ آج ہمارے نوجوانوں کے ساتھ یہی مسئلہ پڑا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب پہلی دفعہ انگلینڈ گیا تو 18 سال کا تھا تو وہاں جو ماحول دیکھا وہ زمان پارک سے بالکل مختلف ماحول تھا اور اس وقت جو رول ماڈل تھے ہم نے ان کی پیروی کی۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ میں اس وقت تک نہیں سوتا تھا جب تک پورے دن کے کاموں کا جائزہ نہ لیتا تھا جو میں سمجھتا ہوں ایک صفت ہے، دن میں کیا کھویا کیا پایا، ہمیشہ اپنا تجزیہ کرتا تھا تو جو رول ماڈل تھے اور ان کو قریب سے دیکھا تو مجھے آہستہ آہستہ سمجھ آنی شروع ہوئی جو ہم نماز میں کہتے ہیں کہ اللہ ان کے راستے پر چلا جن کو آپ نے نعمتیں بخشی ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ دنیا کا سب سے بڑا انقلاب 625 اور 636 اور 637 کے درمیان آیا تھا، یہ کبھی نہیں ہوتا لیکن اگر یورپ میں یہ ہوتا کتنی کتابیں لکھی جاتیں اور فلمیں بنی ہوتی۔

وزیراعظم نے کہا کہ مجھے اپنی زندگی میں اتنی دیر بعد پتہ چلا تو یہا بیٹھے ہوئے اکثر لوگوں کو یہ نہیں پتہ کہ کیا ہوا تھا، وہ دنیا کی تاریخ کا بہت فینومینا تھا، جس کو آپ سمجھ نہیں سکتے۔

انہوں نے کہا کہ 625 میں جنگ بدر میں 313 لوگ ہوتے ہیں، 636 اور 637 میں دو سپر پاورز نے 11 اور 12 سال میں گھٹنے ٹیک دیے، یہ کیا ہوا تھا، اس پر کوئی تحقیق ہوئی، کوئی ہمیں بتایا گیا، ہمارے بچوں کو پتہ ہے کہ ہوا کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب آپ اس کے پیچھے جائیں گے تو ایک چیز پتہ چلے گی کہ نبی ﷺ وہ شخصیت تھے جو یہ انقلاب لے کر آئے تھے، ایک تو ان کی شخصیت تھی دوسرا مدینے کی ریاست تھی جو ان کی سنت تھی، تو تب مجھے پتہ چلا کہ اللہ کیوں کہتے ہیں کہ ان کی زندگی سے سیکھو۔

انہوں نے کہا کہ اللہ ہمیں اس لیے حکم کر رہا ہے کہ اگر اپنے ملک کو مدینہ کی ریاست کے اصولوں پر کھڑا کروگے تو آپ کا ملک اٹھ جائے گا، آپ اگر ان کے کردار کو اپنانے کی کوشش کروگے تو آپ اوپر جائیں گے۔

تقریب سے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ ہم ربیع الاول مناتے ہیں، پٹاخے اور آتش بازی کرتے ہیں، خوشیاں مناتے ہیں لیکن کیا ان کی زندگی پر ہم عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا نہیں کرتے، یہ ایسے ہی ہے کہ ہم قرآن مجید کو گھر میں رکھا ہوا اور سارے اس کو بڑے ادب سے اٹھا رہے ہیں پڑھ نہیں رہے ہیں کہ اس کے اندر کیا لکھا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حضورﷺ کے لیے جان دینے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں لیکن ان کے کردار سے تو سیکھیں، کیا ان کے کردار پر چل رہے ہیں یا نہیں، اللہ کا حکم ہے کہ ان کی سنت پر عمل کرو۔

ان کا کہنا تھا کہ حضورﷺ کی ساری محنت انسانوں کے لیے تھی، دنیا کی بڑی جمہوریتیں ہیں وہاں کوئی یہ تصور کرسکتا ہے کہ خلیفہ وقت حضرت علی ایک یہودی شہری سے عدالت میں کیس ہار جاتے ہیں، حضرت علی کا مقام دیکھیں کتنا بڑا تھا لیکن جج کہتا ہے میں آپ کی بیٹی کی گواہی قبول نہیں کرتا، یہ انسانیت کا نظام تھا اور سب انسان برابر تھے، ایک یہودی کو بھی ملک کے سربراہ سے وہی انصاف مل رہا تھا۔

سیرت نبویﷺ پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ انسانوں کو اکٹھا کرنےکا تصور تھا، قیادت کا پیمانہ دیا کہ ایک قائد انسانوں کو اکٹھا کرتا ہے، تقسیم نہیں کرتا نفرتیں پھیلا کر، یہ نہیں کہتا ہے کہ ہندو سب سے عظیم قوم ہے باقی سب نیچے ہیں، انصاف سارے انسانوں کے لیے ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو پیغام وہ لے کر آئے تھے وہ سب سے بڑا تھا کہ انسان اکٹھے ہیں اور وہ رحمت اللعالمین ہے، پھر ان کو دیکھتے دیکھتے لوگ لیڈر بن گئے، اگر آپ 623 کے بعد مطالعہ کریں تو اتنے مختصر وقت میں اتنے بڑے لیڈر پیدا نہیں ہوئے، جو ان کودیکھتا تھا وہ لیڈر بن گیا۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ حضرت بلال ایک غلام تھے لیکن انہوں نے دو مرتبہ عسکری مہم قیادت کی تھی تو سب ان کو دیکھ کر عظیم لوگ بن گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ انصاف انسان کو آزاد کردیتا ہے، کمزور کو انصاف چاہیے، طاقت ور این آر او چاہتا ہے، کمزور طاقت ور سے تحفظ چاہیے اور جب آپ انصاف دیتے ہیں تو ایک معاشرے کو آزاد کردیتے ہیں، اس لیے دنیا میں جتنے بھی خوش حال ملک ہیں، ان میں قانون کی بالادستی ہے اور وہ اوپر چلے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تعلیم کی وجہ سے مسلمان بڑھے، پھر جتنے بڑے سائنس دان تھے ان کو دیکھ لیں وہ سارے زندگی اور قرآن پر تجزیہ تھا اور پھر وہ سائنس دان بھی تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ حضورﷺ کی شخصیت کی تین خصوصیات پہلی صادق اور امین، پھر انسانوں کو خوف سے آزاد کرادیا، جو انسان کو غلام بنادیتا ہے، میں یہ چاہتا ہوں یہ سارے ہمارے اسکولوں میں بچوں کو پتہ چلیں، یہ تاریخ کا حصہ ہے۔

عمران خان نے کہا کہ ہمارے ملک کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ اگر ہم نے اپنے ملک کو اٹھانا ہے جب تک ان کی سنت پر نہیں چلیں گے یہ ملک نہیں اٹھ سکتا، یہ میرا ایمان ہے کیونکہ ہمارے اندر ایسے چیزیں آگئی ہیں جو ملک کو آگے جانے سے روک رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 1970 کے بعد جو ہارتا ہے وہ کہتا ہے دھاندلی ہوگئی لیکن یہ پہلی دفعہ ہے کہ حکومت نے فیصلہ کیا کہ اس نظام کو تبدیل کرتے ہیں، کیونکہ پہلے سارے دھاندلی کا شور کرتے ہیں لیکن حکومت میں آنے کے بعد کچھ نہیں کرتے، حکومت میں ہوتے ہیں تو دھاندلی کرنا آسان ہوجاتا ہے کیونکہ آپ کے پاس پیسہ ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے جائزہ لیا تو جیسے ووٹنگ ختم ہوتی ہے اس کے بعد رزلٹ کے اعلان تک ساری دھاندلی ہوتی ہے، سپریم کورٹ نے 2015 میں جوڈیشل کمیشن بنایا تھا، اس میں یہی بات سامنے آئی تھی، اس کو ختم کرنے کے لیے ای وی ایم مشین اور ٹیکنالوجی لے کر آئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہی لوگ جو دھاندلی کا شور کر رہے ہیں وہ کہتے ہیں ٹیکنالوجی نہیں لاؤ، میری پوری کوشش ہے الیکشن میں بھی نیوٹرل امپائر کی طرح کام کروں، یہاں ہم کیوں نہیں کرسکتے کیونکہ اگلے دھاندلی کرتے ہیں وہ چاہتے نہیں ہیں کہ نظام تبدیل ہو۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہم اپنے نوجوانوں کی تربیت کریں گے تو یہ مقابلہ کریں گے کہ جو ملک کی اخلاقیات نیچے چلی گئی ہے، خاص طور پر وہ لوگ جو اقتدار میں آکر چوری کرتے ہیں تو سارے ملک کی اخلاقیات نیچے چلی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوسری بات ہے فحاشی کی، جب انسان فحاشی کی بات کرتا ہے تو یہاں ایک طبقہ ہے، کہتا وہ اپنے آپ کو لبرل ہے، وہ شور مچادیتا ہے کہ کتنا بڑا ظلم ہوگیا، پتہ نہیں ہمیں پیچھے لے کر جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پردہ صرف عورت یا مرد کے کپڑوں کی بات نہیں ہے بلکہ ایک مجموعی تصور ہے کہ معاشرے میں خاندان کے نظام کو بچانے کے لیے کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ جیسے یہاں مغربی اثرات پڑ رہے ہیں تو یہاں بیٹھے لوگ مغربیت کو اپنا لیتے ہیں لیکن ان کو پتہ نہیں ہوتا کہ اس کے کیا اثرات ہوتے ہیں، ہمارے یہاں اسکالر شپ ہونی چاہیے تھی کہ اس کے اثرات کیا ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جہاں 14 شادیوں میں ایک طلاق ہوتی تھی، دیکھتے دیکھتے آج 70 فیصد شادیوں کی طلاق ہوتی ہے، میں نے خود دیکھا کہ طلاق پر بربادی بچوں پر آتی ہے۔