عمران خان کی ”ابھی نہیں تو کبھی نہیں“ حکمت عملی

عمران خان کی ”ابھی نہیں تو کبھی نہیں“ حکمت عملی

عمران خان قومی سیاست میں نمائندہ پوزیشن حاصل کر چکے ہیں۔ اپریل میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اسمبلی سے رخصت ہونے کے بعد انہوں نے ایک بڑی واضح پوزیشن اختیار کی اور وہ یہ ہے کہ ”میں نہیں تو کوئی نہیں“ اور اس پوزیشن پر ڈٹ گئے اور ایسے ڈٹے ہیں کہ بس اللہ اللہ۔ انہوں نے اقتدار سے علیحدگی کو اپنی ذاتی انا کا مسئلہ بنا لیا ہے اور وہ اس کی تسکین کے لئے صبح شام اور دن رات مصروف عمل ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ انہوں نے اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے نہ صرف لائحہ عمل ”میں نہیں تو کوئی نہیں“ کے ساتھ ساتھ ٹائم فریم ”ابھی نہیں تو کبھی نہیں“ بھی طے کر لیا ہے اور وہ اس کے مطابق یعنی اپنے لائحہ عمل کو اپنے ٹائم فریم کے مطابق رو بہ عمل لا کر اپنا حتمی ہدف حاصل کریں گے گزرے 4،5 ماہ کی سرگرمیاں، ان کے بیانات، ان کی دھمکیاں اور آگے بڑھتے چلے جانے کی کاوشیں، اس بات کی گواہ بن چکی ہیں کہ وہ اپنے عزائم کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو فنا کی گھاٹ اتارنے کی حکمت عملی پر یکسوئی سے عمل پیرا ہیں۔ یکسوئی کے ساتھ ”ایمانی قوت“ کے ساتھ وہ آگے بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ بلاخوف اور بلارکاوٹ آگے ہی بڑھتے چلے جا رہے ہیں، وہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ میں خطرناک ہو گیا ہوں۔
اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے وہ ”ظالمانہ“ اور ”سفاکانہ“ طریقے سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اپریل 2022 میں اقتدار کھونے کے بعد وہ ایک لمحے کے لئے بھی ”نچلے“ نہیں بیٹھے۔ وہ عوامی رابطہ مہم پر نکلے ہوئے ہیں جلسے پہ جلسہ کئے جا رہے ہیں، اپنے دوستوں اور فرینڈز کو گرمانے اور اکسانے پر جُتے ہوئے ہیں۔ اپنے فینز کو آخری معرکے کی تیاری کے لئے تیار کر رہے ہیں انہیں اسلام آباد کی کال دینے اور اس پر عمل درآمد کے لئے تیار کر رہے ہیں ویسے تو ان کے جلسوں کی گرما گرمی قائم دکھائی جا رہی ہے بھرپور جلسے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کام کے لئے انہوں نے امریکی ماہرین کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں۔ ایک طرف امریکہ کو اپنی حکومت کے خاتمے کی سازش کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں دوسری طرف امریکہ سے تعلقات بہتر بنانے اور امیج بلڈنگ کے لئے امریکی ماہرین کی خدمات کا حصول، چے معنی دارد۔؟بہرحال ایسے ہی ماہرین، پی ٹی آئی کے جلسوں کو کوّر کرتے ہیں اور پھر فوٹیج جاری کرتے ہیں جو ہمارے چینلز پر دکھائی جاتی ہے جس کے مطابق ”عوام کا سمندر“ ہی دکھائی دیتا ہے۔ حال ہی میں پشاور کے جلسے کے بارے میں آزاد ذرائع نے جو خبر دی اس کے مطابق وہاں سمندر اور دریا تو کیا ”عوام کی نہر“ بھی نظر نہیں آئی چند ہزار افراد جلسے میں موجود تھے جبکہ فوٹیج میں ”عوام کا سمندر“ دکھایا گیا جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ پرانی فوٹیج ہے جسے پشاور کے جلسے میں فٹ کر دیا گیا ہے۔ عمران خان اور ان کے ہمنوا جھوٹ بولتے ہی رہنے اور ایسے بولنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں کہ وہ جھوٹ بھی تھوڑی دیر کے لئے سچ نظر آنے لگتا ہے۔
عمران خان شہباز شریف کی قیادت میں قائم پی ڈی ایم کی حکومت کو مکمل طور پر مسترد کر چکے ہیں۔ انہوں نے کسی بھی حکومتی اور آئینی ادارے کو نہیں بخشا ہے۔ وہ نام لے لے کر اداروں اور ان سے متعلق ذمہ داران کی تذلیل کر رہے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے آرمی چیف کے تقرر کے حوالے سے بھی معاملات کو زیربحث لا کر ”متنازع“ بنانے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ واضح انداز میں ”متنازع“ بنا دیا ہے۔ آرمی چیف کا تقرر ایک آئینی معاملہ ہی نہیں ہے بلکہ حساس معاملہ ہے۔ جاری عالمی اور 
علاقائی صورت حال کے تناظر میں اس معاملے کی حساسیت اور بھی اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو اس وقت کے وزیراعظم محمد نوازشریف نے 2016 میں چیف بنایا تھا عمران خان اور ان کی پارٹی نے اس پر صاد کیا تھا پھر اسی آرمی چیف کو 2019 میں عمران خان نے 3 سال کے لئے توسیع دی تھی جس پر ن لیگ سمیت تمام جماعتوں نے صاد کیا تھا۔ عمران خان نے قومی اسمبلی میں یہ معاملہ طے کر دیا تھا اور اس وقت یہ بھی طے پایا تھا کہ مزید ایک سال کے لئے توسیع بھی دی 
جا سکے گی یہ اختیار وزیراعظم کو دیا گیا تھا آج یہی اختیار لے کر شہباز شریف وزارت عظمیٰ کے منصب پر براجمان ہیں یہ وہی ایوان ہے جس میں بیٹھ کر عمران خان نے قمر جاوید باجوہ کو 3 سال کی توسیع دی تھی۔ اب یہ وہی ایوان ہے جس کی قیادت شہباز شریف کے ہاتھوں میں ہے۔ اگر شہباز شریف نیا آرمی چیف مقرر کرتے ہیں یا موجودہ چیف کو 1 سال کی مزید توسیع دے دیتے ہیں تو اس میں کیا حرج ہے؟ لیکن اپنے ہی لکھے ہوئے، منظور کئے گئے ضابطے کو نہ ماننے کا اعلان کر کے عمران خان اسی ہٹ دھرمی کا ثبوت دے رہے ہیں جو ان کی بیان کردہ حکمت عملی کے مطابق ہے کہ ”میں نہ مانوں“ اور ”میں نہیں تو کوئی نہیں“۔ ایسے حالات میں جب ملک معاشی طور پر بحرانی کیفیت کا شکار ہے سیلاب نے پورے ملک کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے عمران خان کا ایسا طرز فکر و عمل ملکی تباہی کا پیش خیمہ بھی ہو سکتا ہے اسے ملک دشمنی بھی کہا جا سکتا ہے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ عمران خان پاکستان کے خلاف متحرک غیرملکی قوتوں کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے یکسوئی سے کام کر رہے ہیں اور انہیں ایسی ہی بیرون ملکی قوتوں کی مکمل حمایت اور عملی تائید بھی حاصل ہے جس کے باعث وہ بلا روک ٹوک دھڑلے سے ہر وہ کام کرتے چلے جا رہے ہیں جو ان کے ایجنڈے کے مطابق ہے۔ جہاں تک سوال ہے شہباز شریف کی قیادت میں قائم حکومت کا تو اس کے بارے میں اس کی ”ناکارکردگی“ اور ”غیرفعالیت“ کے بارے میں عوامی تاثر گہرا ہوتا نظر آ رہا ہے آئی ایم ایف کی ڈیل فائنل ہونے تک تو کہا جا رہا تھا کہ یہ ڈیل ہماری قومی معیشت کے لئے ”بہت لازم“ ہے اس کے بغیر ہم ڈیفالٹ بھی ہو سکتے ہیں اس لئے عوام کو مہنگائی کی کڑوی نہیں بلکہ زہریلی گولی کھانے کے لئے مجبور کیا جاتا رہا اب جبکہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارے معاملات طے ہو چکے ہیں عمران خان کی حکومت نے قومی معیشت کو جس پٹڑی سے اتارا تھا وہ اب اس پر چڑھا دی گئی ہے تو عوام کی ”ریلیف کی توقع“ بالکل بجا ہے عوام مہنگائی کے اندر پس چکے ہیں ان کی قوت خرید جواب دے چکی ہے سیلاب کی تباہ کاریوں نے معاملات مزید دگرگوں کر دیئے ہیں۔ ہر طرف تباہی ہی تباہی ہے شہباز شریف اور ان کی حکومت، جسے صرف 25 کلومیٹر تک محدود ہونے کا طعنہ دیا جاتا تھا، پوری قوت اور استعداد کے ساتھ سیلاب زدگان کی امداد اور دادرسی میں مصروف ہے صوبہ سرحد ہو یا بلوچستان، سندھ ہو یا گلگت بلتستان، بلاتفریق شہباز شریف دن رات دادرسی میں مصروف ہیں لیکن سیلاب زدگان کی دادرسی کے ساتھ ساتھ مہنگائی زدگان کی دادرسی بھی اتنی ہی ضروری ہے بجلی کے 300 یونٹ استعمال کرنے والوں کو رعایت دینا، مستحسن اقدام ہے لیکن یہ ناکامی ہے حکومت کو چاہئے کہ وہ مہنگائی کے پسے ہوئے عوام کی دادرسی کا بھی ایسے ہی بندوبست کرے جیسے سیلاب زدگان کی کی جا رہی ہے وگرنہ عمران خان کی حکمت عملی حکومت کا بوریا بستر گول کر دے گی اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے شہباز شریف کو ہوش کے ناخن لے لینے چاہئیں۔

مصنف کے بارے میں