خاموشی بھی زباں رکھتی ہے

خاموشی بھی زباں رکھتی ہے

اپنا کل سنوارنے کے چکر میں ہم اپنا آج کس قدر مشکل بنا لیتے ہیں اور مسلسل خوب سے خوب تر کی ریس میں گم رہتے ہیں۔ امیر غریب کی اس دوڑ نے معاشرے کو تباہی کے جس دھانے پر لا کھڑا کیا ہے اس کے ذمہ دار ہم سب ہیں مگر ہر کوئی اپنے فرائض کی گٹھڑی دوسروں کے کاندھے پر لاد کر بری الذمہ ہوا پھرتا ہے، گلی محلے کے چوک چوراہوں سے ملک کے ایوانوں تک سب ہی دن رات یہ راگ تو الاپتے ہیں کہ پاکستان سے پیار ہے اور اس ملک و قوم کی بہتری کے لئے ہمیں مل کر کام کرنا چاہیے۔ مگر جب بات آتی ہے عملی اقدام کی تو چاہے سیاست دان ہوں یا عام شہری ہر کوئی اپنے ذاتی مفاد اور سہولت کو ترجیح دیتا ہے بات یہیں تک محدود نہیں بلکہ جھوٹی انا کا جھنڈا بلند رکھنا بھی کوئی ہم سے سیکھے۔ اس کی ایک مثال یوں ہے کہ وطن عزیز میں قوانین کی پیروی کو اپنی توہین جاننے والے ہمارے شہری جب بیرون ملک جاتے ہیں تو وہاں انہی قوانین پر جی جان سے عمل کرتے ہیں۔ اب پاکستان کے بلخاظ آبادی سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی بات ہوجائے کہ جس پر ہر سیاسی جماعت فرض سمجھ کر حق جماتی ہے کیونکہ حکومت بنانے میں یہاں کے ووٹ کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، گزشتہ کچھ عرصے میں یہاں آئین و قانو ن سے یوں کھلواڑ کیا جارہا ہے کہ اسکی کوئی مثال نہیں ملتی، ایسے بھی دن گزرے کہ صبح وزارت اعلیٰ کی مسند پر کوئی ایک شخص فائز تو شام کو کوئی اور براجمان، ایسی کھینچا تانی کو ایک بھارتی وزیراعظم نے یوں بیان کیا تھا کہ میں اتنے تہبند نہیں بدلتا جتنی پاکستان میں حکومتیں بدل جاتی ہیں۔ اس کھینچا تانی میں گورننس کا کیا حال ہوا، مہنگائی کا گھوڑا کیسے منہ زور ہوا اور پھر سیلاب سے بے گھر افراد کیسے بھوکوں مرے یاپانی میں بہہ گئے، یہ سب تو ایک علیحدہ ہی داستان ہے کہ جس کا بیان کرنا شرمندگی ہے تو سننا بھی باعث فخر نہیں کہ رہنماؤں کے نام پر ایسے نابغہ روزگار نمونوں کو ہم نے ہی کہیں بریانی تو کہیں تھانے کچہری میں حمایت کے لالچ میں اپنے سر سوار کیا ہے۔
انتخاب میں غلطی اپنی جگہ لیکن بعد میں ان سیاسی رہنماؤں کی غلطیاں اور ووٹرز سے ناروا رویہ بھی ہماری آنکھیں کھولنے کو کافی نہیں ہوتا۔ ان سیاسی مداریوں کی ڈگڈگی پر ہم نہ صرف ناچتے رہتے ہیں بلکہ ان کی غلطیوں کو غلطی ماننے پر بھی تیارنہیں ہوتے۔ اب یہ حقیقت بھی اپنی جگہ لطیفہ ہے کہ ہمارے لیے مداری بنے یہ سیاسی کھلاڑی خود کسی کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔ اپنی حالت سدھارنے کا بیڑا بھی ہمیں خود ہی اٹھانا ہے کیونکہ یہ فیصلہ ہم ہی کرسکتے ہیں کہ اس پتلی تماشے میں پتلی بنے رہنا ہے یا پھر یہ دھاگے اور زنجیریں توڑ کر ان ناخداؤں سے اپنی ابتر حالت کا جواب طلب کرنا ہے۔
وطن عزیز کی ابتری کا موازنہ ہمیں ان ممالک سے ضرور کرنا چاہیے جو بعد میں آزاد ہوئے اور آج معاشی طاقتیں بن چکے، اس فہرست میں چین کو کچھ وجوہات کی بنا کر موازنے کا موضوع نہ بھی بنائیں تو اپنے علیحدہ ہونے والے بازو سابق مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کا ذکر ہی ہمارے لیے بیک وقت باعث ندامت و ترغیب ہونا چاہیے کہ کیسے کوئی قوم تمام تر مشکلات کا سامنا کرکہ اقتصادی طاقت بننے کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہے۔ اپنے گریبان میں جھانکیں تو فی الوقت حالت کچھ یوں ہے کہ روپیہ ڈالر کے مقابلے میں جس قدر تیزی سے اپنی قدر کھو رہا ہے ہم بھی اسی تیزی سے پستی کے اندھیروں میں ڈوبتے چلے جا رہے ہیں۔ ایک وقت میں دنیا بھر کے لیے معاشی میدان میں مثال، دوسرے ممالک کو قرض دینے والا، معاشی منصوبے بنا کر دینے والا، فنی مہارت مہیا کرنے والا پاکستان آج اس قدر بے وقت ہوچکا کہ دوست ممالک بھی آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر پاکستان میں سرمایہ کاری سے ہچکچاتے ہیں۔ یہ اس سب میں بیرونی سازش کا عنصر ڈھونڈنے والے صاحبان کو نوشتہ دیوار پڑھنا چاہیے کہ قائداعظم کے فرمودات اتحاد تنظیم اور ایمان کو ہم نے جس طرح کاغذ پر لکھے کالے حروف جان کر بھلا دیا تو ایسا ہونا کچھ بعید نہیں تھا۔
اب کچھ بات راہ ِعمل کی ہوجائے تو کرنا کچھ ایسا ہے کہ عوام خود بھی آسائشات چھوڑے اور حکمرانوں کو ایسا کرنے کے لیے عوامی دباؤ بنایا جائے کہ سرکار کے اللے تللے بجلی کے بے تحاشہ بلوں، مہنگی پیٹرولیم مصنوعات اور جان لیوا ٹیکسوں کی صورت عوام کی جیب پر ہی عذاب کی مانند حملہ آور ہوتے ہیں۔ ناجائز منافع خوروں کو لگام دی جائے کہ جو افواہ کی بنیاد پر ہی پیاز جیسی ضرورت کو اسٹاک کرکہ اتنا مہنگا بنادیتے ہیں کہ کاٹنے کی بجائے پیاز خریدتے وقت ہی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ غریب طبقے کو ٹارگٹڈ سبسڈی تنخواہوں میں اضافے کی صورت میں مہیا کی جائے تاکہ محنت کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو۔ گھر بیٹھے پیسے دینے سے حرام خور اور نکھٹو ہی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ گھروں میں مرد کفیل نہ ہونے کی صورت میں خواتین اور بیواؤں کو سلائی کڑھائی اور دیگر فنی علوم سکھائے جائیں اور اس دوران وظیفہ مہیا کیا جائے تاکہ پیروں پر کھڑے ہونے تک وہ گھر کا خرچ چلا سکیں۔ کام چوروں کی حوصلہ شکنی کے لیے ہر قسم کے وظائف کو تربیت کے حصول سے مشروط کیا جائے۔ کاروباری طبقہ بھی ٹیکسوں پر صرف شور ڈالنے کی بجائے اپنے حصے کا جائز ٹیکس ادا کرے اور غیر ضروری و ناجائز منافع خوری سے گریز کرے تو مہنگائی کا یہ طوفان بدتمیزی بھی تھم سکتا ہے اور حکومتی خزانے کو بھی کچھ سہارا میسر آسکتا ہے۔ سرکاری ملازمین بھی قبلہ درست کریں اور بغیر تساہل، سستی اور رشوت کے کچھ حق اپنی تنخواہ کا بھی اداکرلیں، یہ چند اقدامات ہی نیک نیتی سے اٹھا لیے جائیں تو ہمیں ترقی کی راہ پر گامزن ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

مصنف کے بارے میں