سود خور مافیا

سود خور مافیا

تاریخِ پاکستان گواہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام پر حاصل کیے گئے خطہ ارض میں شریعت اور نظامِ اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے اپنے گھر اور مال و متاع کو قربان کیا، لاکھوں معصوم جوانیاں خون کی نذر کیں، عزتوں کی قربانیاں دیں۔ مگر قائداعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعدآنے والے حکمرانوں میں سے کوئی بھی اُنکے منشور کو لے کر نا چل سکا۔ اس وقت دنیا میں سود کی وبا عام ہے جو تمام روئے زمین کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے، سود ایک ایسا موذی مرض ہے جس میں آج تمام انسانیت مبتلا ہے۔ سود سے مراد ایک فریق کی جانب سے دوسرے فریق کے لیے وقتِ ادائیگی پہلے سے طے شدہ مخصوص اضافہ سود کہلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کے لیے سود کو حرام قرار دیا ہے۔ سود کو قران کریم میں اتنا سنگین گناہ قرار دیا ہے کہ کسی اور گناہ کو اتنا سنگین گناہ قرار نہیں دیا گیا۔ شراب نوشی، زناکاری، بدکاری کے لیے بھی قران کریم میں اس قدر سخت وعید نہیں آئیں جو سود خوروں کے لیے آئی ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو اور جو سود تمھارا لوگوں کی طرف باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو جان لو کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمھارے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور خیرات کو بڑھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکرے اور گنہگار سے محبت نہیں کرتا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر اپنے خطاب میں واضح کہا تھا کہ مغرب کا سرمایہ داری نظام ان وعدوں کی تکمیل میں ہرگز معاون ثابت نہیں ہو سکتا جو ہم نے ایک نئے وطن کے قیام کے لیے برصغیر کے مسلمانوں سے کیے تھے۔ سود ایک لعنت ہے اور پاکستان کے آئین کے تحت سودی کاروبار یا لین دین پر پابندی ہے۔ اس کے باوجود گزشتہ چند سال سے اس حرام کاروبار کی بدولت پاکستان کے ہر شہر، قصبہ، گلی اور کوچے نیز ہر گھر میں سود کا سامان پہنچنا شروع ہو چکا ہے۔ ان سود خوروں کی قسطیں ادا کرتے ہوئے درجنوں افراد قبروں کے اندر پہنچ جاتے ہیں مگر پھر سود خور مافیا ان کی اولاد سے رقم واپسی کا تقاضا کرتا ہے۔ دراصل یہ سودی نظام ایک مافیا ہے جو ہمارے معاشرے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ناسور کی طرح پھیلتا چلا جا رہا ہے، دن بہ دن پھیلتے اس مکروہ کاروبار کو کسی بھی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں ہے۔ ان کا طریقہ کار بہت ہی سادہ ہے، قسطوں پر فرنیچر، الیکٹرانکس، گاڑیاں اور موٹر سائیکل حاصل کریں جس پر سود کی شرح 35 سے 50فیصد تک ہوتی ہے۔ مہنگائی کے ہاتھوں تنگ غریب عوام کبھی مجبوری اور ضرورتوں سے تنگ آ کر ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور پھر آخری دم تک اس نا ختم ہونے والے قرض کو اتارتے رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے حکومتِ پاکستان کی طرف سے بھی ایسے لوگوں کو مکمل تعاون حاصل ہے، شاید اس لیے کہ حکومت ِ پاکستان خود سود کھاتی ہے اور کھانے والوں کو مدد فراہم کرتی ہے۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: یقینا لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ کوئی شخص ایسا نہ بچے گا جس نے سود نہ کھایا ہو، جو نہیں کھائے گا اسے بھی اس کا غبار لگ جائے گا۔ شاید ہم اسی زمانے سے گزر رہے ہیں، ہمارے اجناس کی کاشت کے لیے زمین کی تیاری میں استعمال ہونے والے ٹریکٹر سے لے کر بیج، سپرے، کھاد سب سودی قرض پر حاصل کیا جاتا ہے۔ سود ظلم کی ایک بھیانک شکل ہے۔ سود خور بغیر کسی محنت اور مشقت کے کسی دوسرے کی کمائی حاصل کر لیتا ہے، اس کی حق تلفی کرتا ہے جس کے باعث معاشرے میں بد امنی، بے چینی، چوری، ڈکیتی، رشوت خوری پھیلتی ہے۔ آج دنیا بھر میں سودی نظام نے اپنی تباہ کاریوں سے ہر ایک کو پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ دنیا میں غربت کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح، معاشی بدحالی، قرضوں کے خوفناک جال اور ملکوں کے درمیان ہونے والے تنازعات کی سب سے بڑی وجہ سودی نظام معیشت ہے۔ سودی نظام نے دنیا بھر کے ملکوں کی معیشت کو کھوکھلا کرنے کے ساتھ ساتھ انسان کے اندر سے ہمدردی، خدا ترسی، خدا خوفی اور انسانیت کے جذبات کو بھی ختم کر کے رکھ دیا۔ اللہ اور اس کے پیارے حبیبﷺ سے اعلانِ جنگ کر کے بھی بھلا کوئی معیشت بحال ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام کیا ہے۔ قرآن کریم میں سود کے متعلق بار بار حکمِ ربی ہے۔ جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ روزِ قیامت کھڑے نا ہو سکیں گے مگر اسی طرح جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھو کر اپنے اثر سے خبطی بنا دیتا ہے، اور یہ سزا انہیں اس وجہ سے ملے گی کہ وہ کہتے ہیں، تجارت بھی تو سود ہی کی مانند ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے خرید و فروخت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ سورہ النساء میں بنی اسرائیل پر عذابِ الٰہی کے اسباب بیان کیے گئے ہیں جن میں سے ایک سبب یہ بتایا گیا کہ انہیں سود سے منع کیا گیا مگر اس کے باوجود وہ سود لیتے تھے۔ دینِ اسلام دولت کو چند ہاتھوں میں ارتکاز کے بجائے اسے مسلسل گردش میں لانے کی تعلیم دیتا ہے۔ اور دولت کی گردش کا ذریعہ نظام زکوٰۃ، صدقہ اور خیرات کو بناتا ہے تاکہ دولت غریب اور ضرورت مند لوگوں تک بھی بآسانی پہنچ جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سود خوروں کے خلاف کارروائی کی جائے اور سود خوری کے متعلق قانون بنایا جائے تا کہ معاشرے سے سود جیسی لعنت کو ختم کیا جائے۔۔ اللہ پاک ہمارا حامی و ناصر ہو اور ہمیں سود جیسی لعنت سے پناہ عطا فرمائے۔۔۔آمین

مصنف کے بارے میں