پی ٹی آئی میں نمبر ٹو کی دوڑ!!

پی ٹی آئی میں نمبر ٹو کی دوڑ!!

بڑے بڑے سیاستدانوں کی زندگی بظاہر تو بڑی پر تعیش نظر آتی ہے اور لگتا ہے کہ وہ لوٹ مار اور کرپشن کے موقعوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت عیاشیاں کر رہے ہوں گے۔ لیکن اصل صورتحال مکمل طور پر ویسی نہیں ہوتی جیسی کہ نظر آ رہی ہوتی ہے۔ ان بیچار ے سیاستدانوں کے اندرونی حالات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کس قدر مظلوم کردار ہیں۔ یہ لوٹ مار، کرپشن، بے ایمانی، استحصال اور دیگر قانونی اور اخلاقی جرائم تو ضرور کرتے ہیں لیکن ان بیچاروں کو پانچ سال بعد، ؎ بعض اوقات اس سے بھی پہلے، آنا تو عوام کے پاس ہی پڑتا ہے۔ کتنا ترس آتا ہے جب بڑے بڑے رانا صاحب، چوہدری صاحب، خان صاحب، نیازی صاحب اور شاہ صاحب وغیرہ کو کمی کمین لوگوں کو سینے سے لگانا پڑتا ہے ،ان کے گندے گندے بچوں کو گود میں اٹھانا پڑتا ہے، انہی خواتین کے سر پر ہاتھ رکھنا پڑتا ہے جن پر ہمیشہ بری نظر ہی ڈالی ہو اور بعض اوقات توعوام کی جلی کٹی بھی سننا پڑتی ہیں۔ اسکے علاوہ پانچ سال کی کرپشن کے پیسہ میں سے کچھ حصہ ری انوسٹ بھی کرنا پڑتا ہے تاکہ ان کے مالی مفادات کا سلسلہ جاری رہ سکے اور اس میں اضافہ کا گراف کہیں نیچے نہ چلا جائے۔ 
اتنا سب کچھ کرنا کافی نہیں ۔ اگلے مرحلے میں عوام کے لیے درد دل رکھنے والے سیاستدانوں کا نیا امتحان شروع ہو جاتا ہے، یعنی اگرحزب اختلاف میں چلے گئے تو کس طرح اپوزیشن کا ماسک بھی چڑھائے رکھنا ہے اور اند ر خانے حکومت سے بنا کر بھی رکھنی ہے اور اپنے مفادات پر ضرب بھی نہیں پڑنے دینی۔ یقیناًیہ کافی مشکل کام ہے لیکن ہمارے سیاستدان اسے بہت احسن طریقے سے انجام دیتے آئے ہیں اور یقیناًآنے والے دنوں میں بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔( ویسے تو بطور اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ صاحب بھی اس ایریا میں اپنی کارکردگی کے جوہر دکھا چکے ہیں لیکن ان میں وہ بات کہاں جو ہم سب کے پیارے میاں محمود الرشید میں ہے۔ میاں صاحب تو فنکاری کی اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر چاہیں تو یہ مضمون پڑھانے کے لیے کسی یونیورسٹی میں سینئر پروفیسر بھی تعینات ہو سکتے ہیں)۔
 یہی سیاستدان اگر حکومت میں آ جائیں تو نئی مصیبتیں شروع ہو جاتی ہیں۔ پارٹی سربراہوں یعنی اے گریڈ کے سیاستدانوں کوتو یہ فکر لا حق ہوتی ہے 
کہ کیسے ایک مضبوط حکومت تشکیل دی جائے اور کیا ٹوٹکا لگایا جائے کہ ایک کمزوراور فرئینڈلی اپوزیشن وجود میں آئے۔ ڈی، ای، ایف، جی، ایچ وغیرہ کی کیٹیگری کے سیاستدانوں کی نظر ٹھیکوں، قبضوں اور غریب کی بیٹیوں پر ہوتی ہے۔ 
 سی کیٹییگری کے سیاستدان وزارت کے حصول میں سرگرم ہوتے ہیں ان کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ اول تو وزارت مل جائے نہیں تو مشیر تو لگا دیا جائے اور اگر کچھ بھی نہیں تو کم از کم پارلیمانی سیکریڑی اور کسی کمیٹی کا سربراہ ہی لگا دیا جائے۔ اس سارے کھیل میں سب سے مزیدار کھیل بی کیٹیگری کے سیاستدانوں کا ہوتا ہے۔ ان کی پہلی خواہش تو یہ ہوتی ہے کہ پارٹی کا سربراہ  یا تو نا اہل قرار پا جا ئے نہیں تو کسی نہ کسی حادثہ کا شکار تو ضرور ہی ہوجائے تاکہ یہ وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہو سکیں۔ اگر ایسا کچھ نہ ہو سکے تو وزارت خارجہ، وزارت داخلہ اور وزارت خزانہ جیسی اہم وزارتوں پر اپنی یا اپنے قابل اعتماد دستوں کی تعیناتی کے لیے جوڑ توڑ شرع کر دیتے ہیں۔ 
ہمارے سیاسی سیٹ اپ میں موجو د زیادہ تر سیاسی پارٹیوں میں بی کیٹیگری کے سیاستدان کم ہی بھرتی کیے جاتے ہیں یا انہیں اس مقام تک پہنچنے ہی نہیں دیا جاتا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی، نواز لیگ، جمیت علما اسلام اور ان جیسی پارٹیوں نے تو اس سلسلہ میں کافی مضبوط بند باندھے ہوئے ہیں لیکن اس معاملہ میں پاکستان تحریک انصاف سب سے علیحدہ نظر آتی ہے۔
گزشتہ انتخابات (2018) کے بعد ہم نے دیکھا کہ مذکورہ جماعت میں بی کیٹیگری کے کم از کم دو سیاستدان نظر آئے۔ (1) شاہ محمود قریشی اور (2) جہانگیر ترین۔ 
اس وقت کے حساب سے ان دونوں کا کردار بھی بہت دلچسپ رہا۔ جس وقت تک ملک میں پی ٹی آئی کی حکومت بنائے جانے کی کوششیں ہورہی تھیں اس وقت تک تو بظاہر سب اچھا تھا، لیکن حکومت بننے کے بعد جہانگیر ترین کے لیے معاملات مشکل سے مشکل تر ہوتے چلے گئے، حتیٰ کہ ایک دن ان کو مکمل طور پر کھڈے لائین لگا دیا گیا۔ ماننا پڑے گا،شاہ جی کی سیاست کو۔ جب تک مال خرچ کرنے کی بات تھی انہوں نے مکمل چپ سادھے رکھی اور جب ہر طرح سے معاملات طے ہو گئے تو پھر وہ ایکشن میں آئے اور اپنی سیاسی پینترے بازیوں سے ایک ایسی صورتحال پیدا کر دی کہ پی ٹی آئی کی ہر فیصلہ سازی میں ان کی رائے کی جھلک نظر آنے لگی۔  پارٹی کے اندر اپنے حریف نمبر ون جہانگیر ترین کو کھڈے لائین لگوا کر شاہ محمود قریشی صاحب اب تک تو انتہائی سکون سے وقت گزار  رہے تھے اور مکمل طور پر solo flight پر تھے ۔( اگرچہ اس دوران شاہ جی عمران خان کو نااہل قرار دلوائے جانے یا کسی مائنس ون فارمولا کے لیے کاوشیں اور سازشیں بھی کرتے رہے لیکن وہ گارگر ثابت نہ ہو سکیں)۔  بلا شبہ سیاست میں ٹائمنگ کی اہمیت سے کسی بھی طور انکار نہیں کیا جا سکتا۔ حالیہ سیاسی ہلچل کے نتیجہ میں کچھ ایسا ہوا جس کے نتیجہ میں شاہ محمود قریشی صاحب کو ایک مرتبہ پھر سے وزار ت عظمیٰ کا خواب چکنا چور ہوتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ ملکی سیاست اور عمران خان کے قریبی حلقہ میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے صاحبزادے چوہدری مونس الٰہی کی بھرپور انٹری نے شاہ جی کی نیندیں اڑا کر رکھ دی ہیں اور انہیں مستقبل میں پارٹی کے اندر اپنی نمبر ٹو والی پوزیشن خطرے میں محسوس ہونا شروع ہو گئی ہے۔ اگرچہ اس وقت تک چوہدری مونس الٰہی پی ٹی آئی کا باقاعدہ طور پر تو حصہ نہیں ہیں لیکن ایک دور اندیش باپ کا ہونہار فرزند یہ تو واضح طور پر دیکھ سکتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ق) ایک چھوٹی سیاسی پارٹی توتھی ہی اوپر سے  اس میں دراڑیں بھی پڑ چکی ہیں۔اس کے مقابلے میں ایک بڑی ملک گیر پارٹی جس کے تما م معاملات اس فرد واحد کے گرد گھومتے ہیں جس کی عمر ستر سال کے قریب ہے اور اس کے سر پر نااہلی کی تلوار بھی لٹک رہی ہے۔ بلا شبہ اس وقت ایک درست فیصلہ مونس الٰہی یا اس کے والد کو پی ٹی آئی میں سینئر ترین پوزیشن پر لا سکتا ہے۔ 
اب تک تو چوہدری باپ بیٹے نے اپنے پتے ٹھیک ٹھیک کھیلے ہیں اور وہ عمران خان کی قربت اور اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اگر گیم اس طرح ان کے حق میں رہتے ہوئے آگے بڑھتی رہی تو اس بات کی پیش گوئی کرنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں کہ جلد ہی چوہدری مونس الٰہی نہ صرف پی ٹی آئی کاحصہ ہونگے بلکہ شائد پارٹی کے اندر نمبر ٹو کی پوزیشن بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ 
رہی بات پیپلز پارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی جوائن کرنے والے شاہ محمود قریشی صاحب کی، تو لگتا ہے کہ شاید ان کی قسمت کی گاڑی  وزارت خارجہ سے آگے نہ بڑھ پائے۔ 

مصنف کے بارے میں