شہباز گل پر مقدمہ… رانا ثناء اللہ کے لئے کڑا امتحان!

شہباز گل پر مقدمہ… رانا ثناء اللہ کے لئے کڑا امتحان!

لگتا ہے رانا ثناء اللہ پی ٹی آئی کے لئے فی الاصل ڈرائونا خواب بنتے چلے جا رہے ہیں انہوں نے کہا ہے کہ قانون ہاتھ میں لینے والوں کے ساتھ 25 مئی سے بھی زیادہ سختی سے نمٹیں گے۔ پریڈ گرائونڈ اور ایف نائن پارک میں جلسہ کی جگہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے مقرر کی ہے۔ ٹی ایل پی سمیت جو پارٹی چاہے جلسہ کرے، رانا ثناء اللہ ہماری قومی سیاست کا ایک ایسا کریکٹر ہیں جن کے بارے میں دو متضاد آراء پائی جاتی ہیں ویسے ہر سیاست دان کے بارے میں ایسا کہا جا سکتا ہے کہ اس کے چاہنے والے، ووٹرز کی ایک رائے، جبکہ مخالفوں کی دوسری رائے ہو گی لیکن رانا صاحب کے بارے میں طرفین کی آراء بڑی پختہ اور شدید ہیں ن لیگی اور پی ٹی آئی مخالف عناصر رانا صاحب کو ایک دلیر، جرأت مند اور کھرا سیاستدان سمجھتے ہیں کیونکہ عمران خان اور ہمنوائوں کی دشنام اور گالم گلوچ کے سامنے رانا صاحب بڑی جرأت کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں آپ ان کی زبان سے کوئی ایسا فقرہ نہیں نکلوا سکتے جو وہ ادا نہ کرنا چاہتے ہوں۔ رانا صاحب نے ہیروئن سمگلنگ کا جھوٹا مقدمہ بھی بھگت لیا ہے بڑی استقامت سے جیل بھی کاٹی ہے۔
9/10 اپریل کو جب عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد ہو گیا تو پی ٹی آئی غیض و غضب میں مبتلا ہو گئی تھی احتجاج اور دشنام عروج پر پہنچا ہوا نظر آنے لگا تھا ماہرین اور تجزیہ نگار بھی اس اٹھان سے متاثر نظر آنے لگے تھے۔ عمران خان نے 25 مئی کو لانگ مارچ اور دھرنے کی کال دی تھی کہا جا رہا تھا کہ وہ نئے الیکشن کی تاریخ لئے بغیر اسلام آباد سے واپس نہیں جائیں گے پھر ہم نے دیکھا کہ رانا ثناء اللہ نے عمران خان کو اور اس کی کال کو کیسے ناکام بنایا۔ عمران خان کی احتجاجی سیاست کے پھولے ہوئے غبارے سے ہوا نکال دی۔ اب تحریک انصاف نے 13 اگست کا جلسہ اسلام آباد کی بجائے، لاہور کی ہاکی گرائونڈ میں کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ انہیں رانا ثناء اللہ پر اعتماد نہیں ہے انہیں خوف ہے کہ کہیں رانا ثناء اللہ ان کے ساتھ 25 مئی کی طرح کوئی ہتھ نہ کر دے کیونکہ ثناء اللہ وزیر داخلہ ہی نہیں ہے بلکہ ’’رانا‘‘بھی ہے اور وہ پہلے بھی اپنا آپ دکھا چکا ہے۔ اس لئے تحریک انصاف نے کسی قسم کا رسک نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ اچھا فیصلہ ہے ثناء اللہ سے بچیں وہ اصلی ’’رانا‘‘ لگتا ہے۔
اپریل 2022، عمران خان کے خلاف 11 جماعتی اپوزیشن اتحادی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد پی ٹی آئی کو ایک نیا جنم ملا ہے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ تحریک انصاف کی 44 ماہی کارکردگی انتہائی پست اور مایوس کن تھی مرکز ہو یا صوبہ پنجاب کی حکومت، کارکردگی کے اعتبار سے عوامی توقعات پر پوری نہیں اتر سکی تھی ماہرین کی رائے تھی کہ 2023 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو بری طرح شکست ہو جائے گی مرکز میں عمران خان اور ان کی ٹیم سوائے بلند بانگ تقریریں کرنے، اپوزیشن کو دیوار سے لگانے اور گالم گلوچ کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر پا رہے تھے پنجاب میں عثمان بزدار وسیم اکرم پلس بن کر کچھ بھی نہیں کر پا رہے تھے۔ وزراء کے درمیان گروپنگ اور کرپشن کی باتیں عام تھیں۔ پی ٹی آئی کی عوام میں پذیرائی انتہائی پستیوں کو چھو رہی تھی عمران خان صرف اور صرف تقریروں کی حد تک رہ چکے تھے ایسے میں وہ بڑھ بڑھ کر اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد لانے کی چتاونی دے رہے تھے کیونکہ انہیں یقین تھا کہ اپوزیشن اتنی توانا نہیں ہے کہ ان کی حکومت کو چیلنج کر سکے۔ پھر انہیں اس بات پر بھی اطمینان تھا کہ سرپرستوں کے پاس ان کے علاوہ کوئی اور آپشن بھی نہیں ہے۔ عمران خان اپنی تمام حماقتوں کے باوجود اس بات پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ 
ن لیگ وغیرہم کو ان کے مقابلے میں کبھی بھی ترجیح نہیں دے گی۔ ان کا یہ یقین کسی حد تک درست بھی تھا کہ سرپرستوں نے 2011 سے جس بت کو تراش کر 2018 میں تخت نشین کیا تھا اسے اتنی جلدی کوڑادان میں پھینکا نہیں جا سکتا تھا۔ پھر جتنی محنت عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لئے کی گئی تھی اس سے کئی گنا زیادہ محنت نوازشریف کو اقتدار سے نکالنے کے لئے کی گئی تھی پانامہ لیکس کے ذریعے نوازشریف کو ناہل کرانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ نے ہر حربہ استعمال کیا تھا پھر 2018 کے انتخابات میں ن لیگ کو ہروانے کے لئے اپنی ساکھ بھی دائو پر لگا 
دی تھی اس لئے 2022 میں ان کے لئے یوٹرن لینا بظاہر ممکن نظر نہیں آ رہا تھا۔ عمران خان ان حقائق سے واقف تھے اس لئے وہ اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کی پالیسی پر یکسوئی سے گامزن تھے۔ لیکن اپریل 9/10 کی رات انہونی ہو گئی۔
اس کے بعد سے عمران خان اور ان کی پارٹی پر ہذیانی کیفیت طاری ہے ایک عام تاثر تھا کہ پی ٹی آئی، تحریک عدم اعتماد کو آسانی سے قبول نہیں کرے گی شدید ری ایکشن ہو گا۔ عمران خان نے کاغذ کا ایک ٹکڑا لہرا کر اسے امریکی سازش قرار دیا، رجیم چینج کی باتیں اونچے سروں میں کی جانے لگیں، میر جعفروں و میرصادقوں کی باتیں ہونے لگیں۔ انہوں نے فوری انتخابات کا مطالبہ کر دیا اور اس مطالبے کو منوانے کے لئے دبائو بڑھانا شروع کر دیا۔ 25 مئی کو اسلام آباد پر ہلہ بولنے کا اعلان کر دیا لوگ سمجھنے لگے تھے کہ عمران خان چھا جائے گا لیکن ہم نے دیکھا کہ رانا ثناء اللہ نے کس انداز میں عمران خان کی احتجاجی کال کا بھرکس نکال دیا۔ اگر سپریم کورٹ بیچ میں نہ آتی تو جو تھوڑے بہت جیالے اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ہوئے، وہ بھی نہ ہو سکتے بہرحال رانا ثناء اللہ نے جرأت اور حکمت کے ساتھ عمران خان کی لانگ مارچ کال کو شٹ اپ کال میں بدلا۔
اس کے بعد سے عمران خان اور ان کے حواری حکومت کو دھمکا رہے ہیں گیدڑ بھبھکیاں دے رہے ہیں پریس کانفرنسیں کر رہے ہیں فوری انتخابات کا مطالبہ جاری ہے۔ مرکز میں استعفے دینے کے باوجود تنخواہیں وصول کر رہے ہیں، ڈھٹائی سے مراعات بھی لے رہے ہیں حیران کن بات یہ ہے کہ جن 9 استعفوں کی منظوری کے بعد الیکشن ہونے لگے ہیں ان پر دوبارہ الیکشن لڑنے کا بھی اعلان کر چکے ہیں۔ کیسی دوعملی ہے دوغلا پن ہے کہ ایک طرف شہباز شریف کی حکومت کو مانتے نہیں ہیں۔ اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان بھی کر چکے ہیں اس کے باوجود وہاں دوبارہ جانے کے لئے بے چین بھی ہو رہے ہیں۔ 9 سیٹوںپر اکیلے ہی الیکشن لڑنے کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔ یہ کیا حکمت عملی ہے۔ یہ کیا بوالعجبی ہے، حماقت ہے۔
دوسری طرف پنجاب اسمبلی میں اپنے 25 ممبران کو لوٹا بنوا کر ڈی سیٹ کرایا پھر انہی سیٹوں پر انتخابات لڑے اور ان میں سے پانچ نشستوں پر الیکشن ہارنے کے بعد ’’جشن فتح‘‘ منانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن نے 4 نشستیں جیت کر اپنی تعداد میں اضافہ کیا لیکن پی ٹی آئی کہہ رہی ہے کہ ن لیگ کی عوامی پذیرائی میں کمی ہوئی ہے۔ ایک آزاد امیدوار بھی ان ضمنی انتخابات میں جیتا جو ن لیگ میں شامل ہو گیا ہے اس طرح ضمنی انتخابات کے نتیجے میں ن لیگ کی پنجاب اسمبلی میں 5 ممبران کا اضافہ ہو چکا ہے۔
شہباز گل پر غداری کا مقدمہ رانا ثناء اللہ کے لئے ایک کڑا امتحان ہے ان کی سیاسی بصیرت کا کڑا امتحان ہے۔ معلوم نہیں کہ ایسا کچھ کرنے یعنی شہباز گل و ہمنوائوں کو کٹہرے تک لانے کے لئے انہیں بڑوں کی آشیرباد حاصل بھی ہے کہ نہیں۔ کیا رانا ثناء اللہ کو ملک دشمن ایسے عناصر کی سرکوبی کی اجازت دے دی گئی ہے،کیا عمران خان کو بدامنی پھیلانے سے روکنے کا فیصلہ ہو چکا ہے کہ نہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے بڑے کوئی اور ہی کھیل کھیل رہے ہوں۔ ان کے ارادے کچھ اور ہی کرنے کے ہوں اور یہاں رانا ثناء اللہ رابن ہڈ بن کر پی ٹی آئی کا بدمعاشی و دشنام طرازی کا زہر نکالنے کے لئے کاوشیں کر رہے ہوں۔ ہمارے ہاں ظاہراً اور عملاً غداری کا ارتکاب کرنے والوں کو اپنی ہی منطق اور ضرورت کے مطابق معاف بھی کر دیا جاتا ہے جیسا کہ شیریں مزاری کی بیٹی کے ساتھ کیا گیالیکن اپنی ضرورت اور چاہت کے مطابق منتخب رکن پارلیمنٹ کو غداری کے مقدمے میں گرفتار بھی کیا جاتا ہے جیسا کہ منظور پشین کے ساتھ کیا جا رہا ہے جسے چھوڑناہو ایک ہی پیشی پر اس کا فیصلہ ہو جاتا ہے لیکن جسے ذلیل کرنا ہو اس پر مقدمہ چلتا ہی رہتا ہے۔ بہرحال یہ ہماری تاریخ ہے اور حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے۔

مصنف کے بارے میں