خبریں کیسے مینو فیکچر کی جاتی ہیں

Ch Farrukh Shahzad, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

آپ نے نیوز انڈسٹری کی اصطلاح سنی ہو گی جو میڈیا کے بارے میں اکثر استعمال ہوتی ہے حالانکہ نیوز یا خبر یا کسی واقعہ کا انڈسٹری سے کیا تعلق ہے۔ انڈسٹری تو ایک کارخانہ ہے جس میں گھڑی سائیکل گاڑی یا کپڑے اور جوتے بنائے جاتے ہیں۔ نیوز کو انڈسٹری ظاہر کرنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اشیائے ضروریہ کی طرح خبر بھی بنائی یا گھڑی جاتی ہے یا پھر آرڈر پر تیار کی جاتی ہے گویا پراپیگنڈا خبر کے بھیس میں عوام کے اندر گھس جاتا ہے۔ 
اکثر اوقات ریاست بقلم خود آرڈر پر خبر تیار کراتی ہے تا کہ عوام کی نظر میں یا عالمی سطح پر بناو¿ سنگھار کے ذریعے اپنے بھدے چہرے کو پرکشش بنا کر پیش کیا جا سکے اس کے لیے ایک پورا شعبہ وجود میں لایا جاتا ہے۔ اس کی حالیہ مثال سیالکوٹ واقعہ میں کس طرح ایک کیریکٹر ملک عدنان کو پکڑ کر اٹھا لیا گیا اور اسے قومی ایوارڈ دینے کا اعلان کر دیا گیا۔ اس کی وزیراعظم سے ملاقات کا اہتمام کیا گیا یہ ساری مشق کا مقصد اصل واقعہ کو گھناو¿نیت کو کم کرنا تھا اور لوگوں کی توجہ تشدد پسندی سے ہٹا کر یہ ظاہر کرنا تھا کہ یہاں اچھے لوگ بھی ہیں یہ کام کتنی ہی نیک نیتی سے کیا گیا ہو لیکن ابلاغیات کے شعبے میں اس کو ”توجہ ہٹاو¿“ ہتھکنڈے سے زیادہ اہمیت نہیں دی جا سکتی۔ 
یہاں پر ایک تاریخی موازنہ پیش کرنا خاصا مناسب ہوگا۔ اتفاق کی بات ہے کہ وہ بھی سری لنکا سے متعلق ہے آپ کو یاد ہو گا۔ 2009ءمیں سری لنکا کو قومی کرکٹ ٹیم پر لاہور لبرٹی راو¿نڈ اباو¿ٹ پر دہشت گرد حملہ ہوا تھا جس میں 6 پولیس والے شہید ہوئے مگر مہمان کرکٹ ٹیم محفوظ رہی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو اے ایس پی پولیس ٹیم کے ساتھ ساتھ Security Cover دے رہا تھا اس کے لیے حکومت نے خصوصی ایوارڈ اور انعام و اکرام اور تعریفی اسناد کا اعلان کر دیا اور وہ ہیرو بن گیا لیکن تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ مذکورہ پولیس افسر کے بزدلی دکھانے کی وجہ سے پولیس کا جانی نقصان ہوا کیونکہ وہ حملہ کے وقت جیپ میں موقع سے فرار ہو گیا تھا جب حقائق سامنے آئے تو اس سے ایوارڈ واپس لیا گیا بلکہ اسے گرفتار بھی کیا گیا۔ اس 
واقعہ کا اصل ہیرو کو سٹربس کا پاکستانی ڈرائیور خلیل احمد تھا جس نے کمال ہوشیاری اور بہادری سے گاڑی بھگا کر اور راستہ بدل کر ٹیم کو محفوظ مقام تک پہنچایا جب گاڑی سٹیڈیم پہنچی تو اس کے ساتھ کوئی ایک بھی پولیس اسکاٹ نہیں تھا کیونکہ پولیس والے کچھ شہید ہو گئے تھے کچھ ایس پی کے ساتھ بھاگ گئے تھے اور باقی موقع پر دہشت گردوں سے لڑ رہے تھے۔ گاڑی کی ونڈ سکرین میں گولیاں لگی ہوئی تھیں مجموعی طو رپر گاڑی کے مختلف حصوں پر 25 گولیوں کے نشانات تھے۔ اس دن کا مین آف دی میچ ڈرائیور خلیل احمد تھا جس نے مہمان ٹیم کے درجنوں کھلاڑیوں اور ٹیم افسران کی جانیں بچائیں اور گولیوں کی بوچھاڑ میں گاڑی چلاتا رہا۔خلیل احمد کو کسی نے قومی ایوارڈ کے لیے نامزد نہیں کیا البتہ حکومت سری لنکا نے بعد ازاں اسے اپنے ملک میں مدعو کیا اور سرکاری مہمان بنا کر رکھا اور سری لنکا کے قومی اعزاز سے نوازا کیونکہ اس نے یقینی طور سری لنکا کی قومی ٹیم کی جان بچائی تھی اور یہ کام اس نے اپنی جان پر کھیل کر کیا تھا۔ 
اس کے برعکس سیالکوٹ میں پریانتھا کمارا کو بچانے کا سہرا باندھنے والے ملک عدنان کا معاملہ کافی مشکوک ہے حیرت کی بات ہے کہ ہجوم نے پریانتھا کو مار مار کر جان سے مار ڈالا اور جو بندہ کہتا ہے کہ وہ اس کو بچانے کے لیے اس کے اوپر گرا ہوا تھا اسے اس سارے عمل میں خراش تک نہیں آئی۔ اگر وہ سری لنکن شہری کو بچانے کی کوشش میں مارا جاتا تو ایوارڈ کا حقدار تھا اگر زخمی ہو کر ہسپتال منتقل ہوتا تو بھی کوئی بات تھی اس کی تو شرٹ کا لالر بھی نہیں پٹھا۔ اس موقع پر وہاں بنائی گئی ایک ویڈیو ملاحظہ کریں جس میں ملک عدنان کی فرنچ کٹ داڑھی نظر آ رہی ہے مگر جب وہ وزیراعظم سے ملتا ہے تو وہ کلین شیو ہے۔ مذکورہ ویڈیو میں ملک عدنان کا مو¿قف یہ تھا کہ پریانتھا کو گرفتار کر کے پولیس کے حوالے کیا جائے اور توہین رسالت کا مقدمہ درج کرایا جائے۔ حالانکہ توہین رسالت تو ہوئی ہی نہیں جس پوسٹر کی بات ہو رہی ہے اس پر صرف سلام یا حسین ؑ لکھا تھا اور سری لنکن اردو نہیں جانتا تھا۔ اس وجہ سے ملک عدنان دراصل ان کا ہی ساتھی تھا البتہ ہجوم اور اس کے طریقہ کار میں فرق تھا۔ 
مقتول سری لنکن شہری کے بارے میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ وہ سیالکوٹ کی اس کمپنی کا ملازم نہیں تھا بلکہ امریکی گارمنٹس انٹرنیشنل برانڈ NIKE کا ملازم تھا جو کہ سیالکوٹ والی کمپنی کی Client تھی اور معاہدے کے مطابق امریکی کمپنی نے سیالکوٹ کمپنی کو پابند کر رکھا تھا کہ پراڈکٹ کی کوالٹی کو یقینی بنانے کے لیے ہمارا کوالٹی کنٹرولر فیکٹری میں ساری پروڈکشن کی نگرانی کیا کرے گا کمپنی کے مالکان اور ملازمین سارے اس سے تنگ تھے کیونکہ وہ معاہدے کے مطابق کوالٹی اور Finishing چاہتا تھا اور میرٹ پر زور دیتا تھا۔ 
یہاں پر سوال یہ ہے کہ ملک عدنان اگر واقعی پریانتھا کو بچانا چاہتا تھا تو اس نے کمپنی کی سکیورٹی کو کیونکہ استعمال نہیں کیا یا پھر پولیس کو اطلاع کیوں نہیں دی گئی۔ فیکٹری کی سکیورٹی کے ذریعے پریانتھا کو زندہ ریسکیو کیا جا سکتا تھا۔ 
اصل بات یہ ہے کہ جب حکمران جماعت کو احساس ہوا کہ اس واقعے سے پاکستان کا بین الاقوامی امیج کس بری طرح سے مجروح ہوا ہے تو فوری طور پر Damage Control کے لیے انہوں نے ایک کیریکٹر وضع کر لیا جو ملک عدنان تھا اور اصل خبر سے توجہ ہٹانے کے لیے میڈیا میں ہر جگہ اسے آگے آگے پیش کیا جا رہا ہے تا کہ اصل خبر نیچے دب جائے یہ سیاسی و سفارتی حربہ صرف کاسمیٹک حد تک چل سکتا ہے۔ 
آپ نے دیکھا ہو گا کہ ملک عدنان کی نہ تو پاکستان میں سری لنکن سفیر نے خدمات کا اعتراف کیا ہے نہ ہی مقتول کی فیملی کی طرف سے کچھ کہا گیا ہے اور نہ ہی حکومت سری لنکا نے اس کے اقدام کی تائید یا تعریف کی ہے۔ حالانکہ سری لنکا نے کرکٹ ٹیم پر حملہ میں حقیقی مدد کرنے والے ڈرائیور خلیل احمد کو اپنے سر اور آنکھوں پر بٹھایا تھا۔ اگر سری لنکن حکومت عدنان کے لیے کسی قومی ایوارڈ کا اعلان نہیں کرتی تو سمجھ لیں کہ یہ من گھڑت ہیرو ہے۔ خبریں اور ہوتی ہیں پس پردہ حقائق اور ہوتے ہیں مگر خبر کے پیچھے چھپے حقائق تک پہنچنا عام قاری کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ آج کا میڈیا بہت پیچیدہ ہو چکا ہے ففتھ جنریشن وار کی طرح قومی سیاست میں بھی حکومت اور اپوزیشن میڈیا کو بطور میدان جنگ استعمال کرتی ہے۔