سستا ترین ملک

Asif Anayat, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

22/23 کروڑ عوام میں سے 21 کروڑ عوام کے دکھوں کا کوئی نوحہ گر ہو تو شاید 22 کروڑ عوام ہی نوحہ گر چاہیں۔
حیراں ہوں دل کو روو¿ں کہ پیٹوں جگر کو میں
 مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
عوام کی حالت زار کو انتہاو¿ں سے آگے پہنچانے والے حکمران اگر یہ کہیں پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے تو پھر میرے خیال میں کوئی زبان، کوئی الفاظ ان کی ڈھٹائی، بے حسی، بے اعتناعی کے اظہار کے لیے نہیں بنے۔
موجودہ حکمران اتنے نااہل، بے حس، عوام دشمن اور کرپٹ ہیں کہ سابقہ حکمران معصوم لگنے لگے ہیں۔ ان کے چمچے چماٹ طلال چودھری جیسے تھے جن کی وجہ سے لوگ ان سے بھی متنفر ہوتے چلے گئے۔ یقین کریں کہ مجھے وزیراعظم کے اس بیان نے باقاعدہ ٹراما میں مبتلا کر دیا ہے ہم بحیثیت قوم کتنے بدنصیب ہیں کہ ہمیں ایسے حاکم ملے جو عوام کے دکھوں کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ کسی نے سچ کہا تھا کہ یہ دور لونڈے لپاڑوں کی حکمرانی کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔ کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ میں زرداری صاحب کی حمایت کرتا ہوں ان کو شاید معلوم نہیں کہ زرداری میرے بعد پیپلز پارٹی کے حامیوں میں شامل ہوئے لیکن لکھتے وقت پیپلز پارٹی ہو یا کوئی اور جماعت میرا قلم قوم کی امانت ہے اور رہے گا۔
پیپلز پارٹی، ن لیگ، اے این پی کے قریب میں صرف اس وجہ سے اپنے آپ کو محسوس کرتا ہوں کہ ان میں کوئی عسکری ونگ نہیں ہے۔ لاہور کے حلقہ نمبر 133 میں حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کا 33000 ہزار ووٹ لینا یار لوگوں کو ہضم نہیں ہو رہا۔ شاید انہیں یاد نہیں جب ملک کے عوام صرف 10/9 کروڑ تھے تو 90 فیصد محترمہ بے نظیر بھٹو کے حامی تھے۔ یہی حالت ان کے والد کی تھی مگر جو ایک تانگے کی سواری پارٹی والے ایک سیٹ والے کو وزیراعظم بنا گئے انہی کا کیا دھرا ہے کہ ہر گھر میں بسنے والی پارٹی کو محدود کر دیا گیا ہے۔ اگر سیاست میں نامعلوم کی اولاد راہنمائی کا دعویٰ کر سکتی ہے تو گریٹ بھٹو کا نواسہ اور محترمہ شہید بے نظیر کا بیٹا کیوں عوام میں مقبول نہیں ہو سکتا؟
پیسہ کوئی پہلی بار استعمال نہیں ہوا اور شرم آنی چاہیے اُن لوگوں کو یہ کہتے ہوئے جو سیاست میں آئے ہی پیسے کے زور پر تھے اور مفت بھری جن کا آج تک تعارف ہے۔ فارن فنڈنگ والے بھی ہمارے ملک کے سکینڈل ہیں۔ شاید کوئی مہذب ملک ہوتا تو کسی کو اس سیاسی صورت حال کے لکھنے کا خیال بھی نہ آتا مگر سیاق و سباق سے ہٹ کر لکھا نہیں جا سکتا۔ مگر کیا بات ہے یہاں کے تجزیہ کاروں اور سیاسی بولیاں بولنے والوں کی۔ ایک دن پہلے بتا رہے ہیں، پیپلز پارٹی 5/6 ہزار ووٹ لے گی اور ساتھ فرما رہے ہیں اپ سیٹ بھی ہو سکتا ہے۔ ایک رپورٹر نے پتہ نہیں کہاں بیٹھ کر رپورٹ بنائی کہ ٹی ایل پی، جماعت اسلامی، تحریک منہاج القران اور پی ٹی آئی کی ہدایت تھی کہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیں، ساتھ روپیہ بہت چلا ہے۔ پی ٹی آئی، جماعت اسلامی، ٹی ایل پی اگر ساتھ دیں تو پھر زرداری کو سیاسی پیر مان لینا چاہئے کہ یہ تمام جماعتیں ان کو ہمیشہ ہدف تنقید ہی نہیں ہدف نفرت بنائے رہیں۔ اور یہ بات کہ ووٹ یا نوازشریف کا ہے یا مخالف ہے، کیا یہ صورت حال سندھ، کے پی کے، بلوچستان میں بھی ہے؟۔
پیپلز پارٹی کے حلقہ نمبر 133 میں 33000 کے قریب ووٹوں پر بھٹو مخالفین کا کونے کھدروں سے باہر آ جانا تو ثابت کرتا ہے کہ ووٹ آج بھی یا تو جناب بھٹو کا ہے یا مخالفین کا ہے۔ ایک پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کے لیے تمام ادارے، ضابطے، قوانین برباد کر کے رکھ دیئے۔ پی ٹی آئی کا دورانیہ تو درمیان میں اللہ کی رحمت بن کر آیا کہ جس نے بتا دیا مریخ کی باتیں کرنے والے، خلا میں بسنے والے پاکستان کے عوام کے دکھوں سے بالکل واقف ہیں نہ مخلص! پاکستان سستا ترین ملک کا بیان سننے کے بعد کل یہ پڑھنے کو ملا کہ سرد جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے۔ سرد جنگ کا حصہ تو بن چکے اور بد نصیبی یہ ہے کہ یہ جنگ ہماری زمین پر لڑی جا رہی ہے، ہماری حماقتیں اس پر مزید تیل چھڑک رہی ہیں۔ اپنے ایوان، ملک، قوم، اداروں میں کشیدگی بڑھانے والے چلے ہیں چین امریکہ کشیدگی کم کرانے۔
شوکت ترین کہتا ہے کہ میرا وزیر اعظم کہتا ہے گھبرانا نہیں، میں کہتا ہوں گھبرانا نہیں۔ صحیح کہتا ہے کہ ”میرا وزیر اعظم“ کیونکہ وزیر اعظم صرف کابینہ کا وزیر اعظم ہے، پاکستانی قوم تو رہنما کے بغیر ہے۔ شوکت ترین کا اخبار میں جس جگہ پر یہ بیان چھپا، برابر میں خبر ہے کہ اکتوبر کے لیے بجلی 4.74 مہنگی کر رہے ہیں، بل اس ماہ آئے گا۔ پروردگار! یقیناً ہم گناہ گار ہیں لیکن ایسے حاکم بھی مقدر میں لکھے تھے جو انتقام، نفرت، جھوٹ، منافقت کے منشور کے ساتھ ہم پر مسلط ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کہتی ہے کہ شواہد نہیں تو زرداری کے خلاف ریفرنس کس کے کہنے پر بنایا، نیب کا اپنا احتساب ہونا چاہئے۔ کیا پھر اسلام آباد ہائیکورٹ بھی پیپلز پارٹی کی ہوگئی؟ اگر نوازشریف کو سزا دینے کا پس منظر اور وجوہات ویڈیوز، آڈیوز میں سامنے آ رہے ہیں تو پھر کٹہرے میں کس کو ہونا چاہیے؟
دراصل میں ہر اس سیاسی پارٹی کی پذیرائی قوم کی خوش قسمتی سمجھتا ہوں جس میں عسکری ونگ نہ ہو۔ رہی بات انتخابات میں پیسہ چلنے کی، یہ 2018 کے انتخابات سے زیادہ کبھی نہیں چلا اور پیسہ تو ہمیشہ پیپلز پارٹی کے خلاف چلا۔ بڑی خوشی کی بات ہے کہ پیپلز پارٹی نے بھی کسی کو پیسے دیئے، بزدار کو چاہیے کہ ان لوگوں پر مقدمات قائم کرے جو اس کیس میں شامل تھے۔ سندھ کی حالت زار کی باتیں کرنے والے برباد ہوتا پنجاب، خیبر پختونخوا بھی دیکھ لیں۔ پیپلز پارٹی کو ختم سمجھنے والے یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں شخصیات کی مرہون منت رہی ہیں یا پھر ان کی اولادوں کی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ہی پیپلز پارٹی کا 90 فیصد تھیں۔ زرداری صاحب تو کبھی مقبول نہیں رہے، انہوں نے جوڑ توڑ کے ساتھ اپنی پارٹی کو قائم رکھا۔ اللہ کریم عمران خان کو زندگی دے اگر خدا نخواستہ ان کو کچھ ہو جائے تو اگلے دن پی ٹی آئی پورے ملک میں نظر نہیں آئے گی۔
آج چار دہائیاں بھٹو صاحب اور دوسری دہائی بی بی کو شہید ہوئے ہو گئیں مگر پارٹی موجود ہے۔ اُس کی قیادت کو محدود رکھا جن لوگوں نے رکھا سب جانتے ہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب پیپلز پارٹی ن لیگ دوبارہ صرف اس لیے قابل قبول ہوں گی کہ یہ عسکری جماعتیں نہیں ہیں۔ آئندہ انتخابات صرف اور صرف لبرل ، جمہوریت اور سول سپرامیسی پر یقین رکھنے والی جماعتوں کے مابین ہوں گے کہ عوام کسی عسکری ونگ رکھنے والی بنیاد پرست جماعت کو ووٹ نہیں دینگے ، وہ تشدد کی سیاست اور رویوں سے تنگ آ چکے ہیں۔ وطن عزیز کے عوام عسکریت پسندی، تشدد اور بنیاد پرستی کے خلاف ہیں اور کسی قوت کو ان کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کرنی چاہیے ورنہ ملک کی تقدیر سے کھیلنے کے ذمہ دار ہوں گے۔ پی ٹی آئی کو زرداری صاحب تو سیاسی جماعت ہی نہیں مانتے اور حقیقت بھی یہ ہے کہ جس کے 67 ایم این اے دوسری جماعتوں سے مستعار لیے ہوں حکومت بھی مانگے تانگے کی ہو حکومت ختم ہونے پر ان کی کارکردگی کی وجہ سے کوئی ان کا ٹکٹ لینے کو تیار نہ ہو گا۔ صورتحال یہ ہے کہ ان کے اپنے اراکین کی 20 کے قریب لسٹ نوازشریف کو پیش کی گئی کہ ٹکٹ کا وعدہ کریں تو یہ عدم اعتماد میں حکومت کی قلابازی لگوانے کو تیار ہیں۔ بلاول بھٹو تو پہلے دن ہی ان ہاو¿س تبدیلی کے حق میں تھے اب صرف نوازشریف ہیں کہ اگر خورشید شاہ کے فارمولا پر یقین کر لیں تو حکومت کا فیصلہ ہو جائے گا۔ اللہ کی شان دیکھیں صادق اور امین کا فیصلہ دینے والے خود اپنے ہی ادارے سے رجوع کرنا بے وقوفی سمجھتے ہیں اور ”صادق اور امین“ کوئی ایک سچ نہ بول سکے۔ جن لوگوں کو صبح شام گالیاں دیں کورس کی صرت میں دشنام طرازی کی، آج ان کا مستقبل قدرت نے ان کے ہاتھ میں دے دیا۔ یہ صرف اس وجہ سے کہ عوام کی زندگی اور موت کا فرق مٹانے والے کہتے ہیں پاکستان سستا ترین ملک ہے۔ اپنے ملک میں سرد جنگ چھڑوا کر کہتے ہیں ہم حصہ نہیں بنیں گے۔ حکومت ہر لمحہ انجام کے قریب جا رہی ہے کیونکہ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے۔