سیاحت۔۔مگر احتیاط سے

سیاحت۔۔مگر احتیاط سے

مری میں پیش آنے والے المناک حادثے پر ہمارے سیاستدان طرح طرح کی بولیاں بول رہے ہیں . افسوس اس بات کا ہے کہ یہ لوگ اپنی سیاست کے لیے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ہمیں حقائق پر بات کرتے ہوئے نہ جانے کیوں ڈر لگتا ہے۔ ہم اپنی کوتاہیوں کو کسی کی جھولی میں ڈال کر خوش ہوتے ہیں۔ ہمارا عجیب مزاج بن گیا ہے کہ ہر وقت نقطہ چینی ہماری عادت بن گئی ہے۔ہم  دوسروں میں غلطیاں تلاش کرتے ہیں لیکن اصلاح نہیں کرتے۔ مری کے المناک حادثے پر افسوس کے بعد چند باتوں کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ جو لوگ مری کو  جانتے ہیں انہیں اچھی طرح علم ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا پہاڑی شہر ہے۔اس شہر میں دو تین تو سڑکیں ہیں۔اس شہر میں عام دنوں میں بھی پارکنگ کا مسئلہ رہتا ہے۔ اور جب یہاں تھوڑا سا بھی رش ہو جائے تو ٹریفک جام ہو جاتی ہے۔ مری سے نکلنا عذاب بن جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی اس وقت ہوا ہے جو شہر چند ہزار گاڑیاں برداشت نہیں کر سکتا تھا وہاں ایک لاکھ گاڑیاں آگئیں، ظاہر ہے ان ایک لاکھ گاڑیوں میں سوار افراد کی تعداد لاکھوں میں ہوگی۔ اسی لیے جن لوگوں نے مال روڈ مری کی ویڈیو دیکھی ہیں بخوبی جانتے ہیں کہ وہاں ایک میلے کا سماں تھا وہاں تو تل دھرنے کی جگہ نہ تھی کہ ایسے میں ایک برفانی طوفان آگیا۔ماضی قریب  میں مری میں کبھی اتنی برف باری نہیں ہوئی مگر سات جنوری کو بہت بھاری برف باری ہوئی۔ مری اور گلیات میں چھ سے لے کر دس فٹ تک برف پڑی جس سے گاڑیاں برف میں دھنس گئی۔ ٹریفک جام ہو گئی۔ گاڑیوں کے سلنسرز برف کی وجہ سے بند ہو گئے۔ لوگوں نے گاڑیوں میں ہیٹر چلائے مگر آکسیجن کے سارے راستے بند کردیئے۔ سلنسرز بند ہونے کے باعث کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج نہ ہو سکی اور شیشہ بند ہونے کی وجہ سے گاڑیوں میں آکسیجن نہ آسکی۔ یہی موت کا سبب بنا۔اب بات کرتے ہیں یہ قصور کس کا تھا۔ میں اس سلسلے میں انتظامیہ اور لوگ دونوں کو قصوروار سمجھتی ہوں۔ انتظامیہ کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے اتنی بڑی تعداد میں گاڑیاں چھوٹے سے شہر میں کیوں داخل ہونے دیں۔ انتظامیہ کو خیال کرنا چاہیے تھا۔ آپ یقین کریں کہ اگر ایک لاکھ گاڑیاں اسلام آباد میں داخل ہوجائیں تو اسلام آباد بلاک ہو  جائے گا اور اگر یہی ایک لاکھ گاڑیاں ایک ہی وقت میں کسی اور شہر میں داخل ہو جائیں تو اچھی بھلی مصیبت کھڑی ہو جائے گی۔ میں جب لاہور سے اسلام آباد جاتی ہوں اکثر کافی پینے مری چلی جاتی ہوں۔ مری واقعی ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ اس شہر میں داخلے کے لیے پانچ راستے  استعمال ہوتے  ہیں۔
ایک پنڈی سے مری جانے والی پرانی سڑک جس پر چھتر پارک بھی ہے۔ دوسرا راستہ اسلام آباد مری ایکسپریس وے ہے۔ ایک راستہ مظفر آباد سے مری میں داخل ہوتا ہے۔ چوتھا راستہ ایبٹ آباد سے گلیات میں سے ہوتا ہوا مری میں داخل ہوتا ہے۔ جبکہ پانچواں راستہ کوٹلی ستیاں کی جانب سے آتا ہے۔ یوں یہ پانچ راستے مری میں داخل ہوتے ہیں۔ انتظامی صورتحال کا جائزہ لے تو پتہ چلتا ہے کہ جو راستے مظفرآباد کوٹلی ستیاں اور ایبٹ آباد سے آتے ہیں وہاں تو کوئی رکاوٹ ہی نظر نہیں آتی۔ راولپنڈی اسلام آباد سے جانے والے دونوں راستوں پر ٹول پلازہ بارہ کہو کے قریب ہیں۔  جو مری سے کافی دور ہیں۔ ان ٹول پلازوں سے گزرنے والے انتظامیہ سے جھوٹ بول کر گذر جاتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے میں باغ ،مظفرآباد، ہٹیاں بالا جا رہا ہوں تو کوئی کہتا ہے میں نے نتھیاگلی جانا ہے۔ گویا ہر زبان پر ایک ہی بہانہ ہوتا ہے۔ یہ باتیں بتانے کا مقصد یہ ہے کہ انتظامیہ اگر چاہے بھی تو مری آنے والے بہت سے لوگوں کو نہیں روک سکتی۔ یہاں ایک بات ہو سکتی تھی کہ مری میں رش بڑھ رہا تھا تو انتظامیہ ٹول پلازہ بند کر دیتی۔ اس طرح مری جانے والے لوگ راستے ہی سے واپس لوٹ آتے۔ اب بات کرتے ہیں لوگ کیوں قصور وار ہیں۔ محکمہ موسمیات کی جانب سے ایک الرٹ 31 دسمبر کو جاری کیا گیا کہ چھ اور سات جنوری کو زیادہ برف باری کا امکان ہے لہٰذا لوگ مری اور گلیات کے علاقے کا رخ نہ کریں مگر ہمارے لوگوں کو کون سمجھائے کہ جس کام سے روکا جائے گا یہ وہی کام کرنا  فرض سمجھتے ہیں۔ انتظامیہ پورا ہفتہ کہتی رہی کہ مری نہ جانا  وفاقی وزیر داخلہ تین روز پہلے سے کہہ رہے تھے عوام مری کا رخ نہ کریں۔ سرکاری اداروں کی طرف سے متنبع کرنے کے باوجود لوگ باز نہ آئے۔ یہ لوگوں کا پہلا قصور ہے۔ دنیا بھر میں لوگ  سیاحت کے لیے جاتے ہیں، لوگ وہاں کیا کرتے ہیں؟ وہ لوگ سب سے پہلے موسم کی صورتحال چیک کرتے ہیں کہ کہیں کوئی برفانی سمندری طوفان تو نہیں آرہا؟ یا کہیں تیز آندھیوں کا امکان تو نہیں؟ اگر موسم کی صورت حال ٹھیک ہو تو وہ جانے کا قصد کرتے ہیں۔ ورنہ سفر چھوڑ دیتے ہیں۔ دوسری بات جس کا باہر کے لوگ بہت خیال رکھتے ہیں۔ اگر انہوں نے برفباری والے علاقوں میں جانا ہو تو اپنی گاڑیوں میں کمبل اور اسی طرح کے گرم کپڑے رکھتے ہیں۔ تیسرے نمبر پر وہ لوگ ایسے سفر کے لیے عمدہ گاڑیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ چوتھی اور اہم بات یہ ہے کہ ان لوگوں کو برف والی سڑکوں پر گاڑیاں چلانے کی پریکٹس ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں جو لوگ مری گئے کیا ان سب لوگوں کو برف میں گاڑی چلانے کی عادت تھی؟  بالکل نہیں۔ کیا ان لوگوں نے موسم کو چیک کیا؟ یہ بھی نہیں کیا۔ بلکہ موسمیات الرٹ کو بھی نظر انداز کر دیا۔ کیا مری جانے والوں نے گاڑیوں میں کمبل رکھے؟ انہوں نے گاڑیوں میں کھانے پینے کی اشیا رکھی؟ جیسا بیرونی دنیا کے لوگ کرتے ہیں۔ اس سوال کا جواب بھی نفی میں ہے۔ بیرونی دنیا میں لوگ ایسے سفر پر نکلتے وقت گاڑی کا ٹینک فل رکھتے ہیں کیا یہاں ایسا ہوا؟ بالکل نہیں۔ جب سب سوالوں کے جواب نفی میں ہیں۔ تو پھر ہم لوگوں کو قصوروار کیوں نہ کہیں۔
پاکستانی قوم بھیڑچال سے باز نہیں آتی  کیا سب لوگوں کا مری کا رخ کرنا درست تھا؟  بالکل نہیں۔ خیبر پختونخوا کے لوگ کالام اور سوات کا رخ کیوں نہ کر سکے کیا خیبر پختو نخوا کے لوگ ناران کاغان اور شوگراں کا رخ نہیں کر سکتے تھے ؟ کیا ہمارے سیاحت کے شوقین گلگت ہنزہ اور سکردو کا رخ نہیں کر سکتے تھے؟ کیا ہمارے سیاح آزاد کشمیر کے مختلف مقامات جیسے وادی نیلم ، پیر چناسی یا پنجوسہ کا رخ نہیں کر سکتے تھے؟ آخر انتظامیہ کے منع کرنے کے باوجود مری کارخ کیوں کیا گیا؟ اب ہمیں آئندہ کی حکمت عملی پر غور کرنا چاہیے کہ ایسا کیا ہو کہ آئندہ اس طرح کے حادثات پیش نہ آئیں۔ مری جیسے چھوٹے شہر کے پانچوں داخلی راستوں پر دروازے بنانے چاہیے اور دروازے پر گاڑیوں کی انٹری ہو اور پانچوں دروازے جدید نظام کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوں تاکہ شہر میں داخل ہونے والی گاڑیوں کا اندازہ ہو سکے۔ ہمیں برف ہٹانے والے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانا ہوگا۔ برفانی علاقوں کی سڑکوں پر نمک کا چھڑکاؤ یقینی بننا ہوگا۔ اگر کبھی موسمیات کا الرٹ آجائے تو راستوں کو بند کرنا ہوگا۔ بچت کا یہی راستہ ہے  سیاحت ضرور کریں مگر احتیاط ضروری ہے۔