ہوئے تم دوست جس کے

ہوئے تم دوست جس کے

ملک میں جمہوریت ہے اِس میں کوئی شک  ہیں، مگر اِس میں بھی کوئی شک  ہیں کہ یہ صرف  ام کی حد تک ہے اگر صحیح مع وں میں ملک میں جمہوریت ہوتی تو ملکی وسائل میں سے عوام کوبھی کچھ  ہ کچھ حصہ ضرور ملتاکیو کہ چ د سو کہہ لیں یا پھر چ د ہزارخا دا، وہی اِس وقت  ہ صرف اقتدار و اختیار کے مالک ہیں بلکہ ملک کے وسائل بھی ا ھی کے لیے وقف ہیں وسائل کی یہ غیر م صفا ہ تقسیم آج ملک کو اِس  ہج پر لے آئی ہے کہ غریب لوگ آٹے کے حصول کے لیے سرگرداں ہیں مگر چ د کلو آٹا حاصل  ہیں کر پاتے عزت دار خواتی  بھی آٹے کے لیے مردوں کی قطاروں پر لگ ے پر مجبور ہیں حکومتی  رخوں پر آٹا مل ے کی خبر س  کر ہر جگہ عوام کا جمِ غفیر اکٹھا ہو جاتا ہے اور پھر چھی ا جھپٹی شروع ہو جاتی ہے اِس دورا  کچلے جا ے کے واقعات ہی زرعی ملک کی بد امی کا باعث تھے کہ اب تو س دھ کے میرپورخاص میں ایک مزدور کی ہلاکت کی خبر ذرائع ابلاغ میں ہے جو آٹے کے حصول کی جدوجہد کے دورا  جا  سے ہاتھ دھو بیٹھا ایسے واقعات ملک میں بڑھتی غربت کی طرف اشارہ کرتے ہیں حاکما ِ وقت کوبھی  ازک صورتحال کا ادراک ہے بظاہر ایسا کوئی اشارہ محسوس  ہیں ہوتا سبھی سیاسی فوائد کی تاک میں ہیں مگر عام آدمی کے مسائل کاجلد سدِباب  ہ کیاگیا تو سیاسی استحکام قصہ پاری ہ ب  سکتا ہے۔
ایک مزدور کی اولیں ترجیح مزدوری ہوتی ہے جب و ہ مزدوری چھوڑ کر آٹے کے لیے لاء  میں لگتان
ہے تو اِس کا ایک ہی مطلب ہے کہ گھر میں کھا ے کے لیے کچھ بھی  ہیں رہا اسی لیے مزدوری چھوڑ کرمزدور آٹے کا حصول یقی ی ب ا ے کی کوشش کرتاہے تاکہ شام کو بچے بچیوں کو پیٹ بھر کر روٹی مل جائے مگر جسے دس کلو آٹا خرید ے کے دورا  موت آ جائے اُس کے گھرا ے کے دیگر  فوس کے مصائب کا ا دازہ لگا ا مشکل  ہیں حیرا گی کی بات تو یہ ہے کہ جس صوبے میں کئی دہائیاں گزر ے کے باوجودآج تک بھٹو ز دہ ہے بلکہ اب تو بی بی بھی ز دہ ہے وہاں عوام جا ے کیوں مررہے ہیں؟ ایسے حکمرا وں کو عوام دوست تو ہر گز  ہیں کہہ سکتے صاحبا ِ اقتدار کو کبھی فرصت ملے تواِس بارے بھی سوچیں کیو کہ جہاں مرحوم رہ ماؤں کو ز دہ کہ ے اور ز دہ عوام سے ز دگی چھی  ے کو جمہوریت کہا جائے وہ سیاست تو سکتی ہے جمہوریت،  ہیں ہرگز  ہیں  ہ ہی عوام  گل ے والے اِس  ظام کو جمہوریت بہتری  ا تقام کہہ سکتے ہیں۔
وط ِ عزیز میں د یا سے م فرد قسم کی جمہوریت رائج ہے یہاں چ د خا دا  تو امیر سے امیر تر جبکہ کروڑوں لوگ غریب سے غریب تر ہوتے جارہے ہیں یہاں وسائل کی تقسیم کا مطلب دراصل وسائل کا زیاں ہے ایک طرف تو ہمارے حکمرا  د یا کو یقی  دلا ے میں مصروف ہیں کہ سیلاب کی تباہ کاریاں کم کر ے اور متاثری  کی بحالی کے لیے ہمارے پاس پیسے تک  ہیں قرضوں کی اقساط کی ادائیگی بھی محال ہو چکی ملک میں زرِ مبادلہ کے ذخائر خطر اک حد تک کم ہو چکے اِس کے باوجود حکومتی اخراجات میں کوئی کمین
دیکھ ے میں  ظر  ہیں آتی بلکہ مسلسل اضافے کا رجحا  ہے وفاقی حکومت کے گزشتہ مالی سال کے دورا  جو اخراجات 2171 ارب روپے تھے وہ بڑھ کر2800 ارب تک جا پہ چے ہیں اِس کا ایک ہی مطلب ہے کہ ملک کی معاشی حالت خراب ہو ے کے باوجودحکمرا وں  ے اپ ے شاہا ہ اطوار  ہیں بدلے اگر بدلے ہوتے تو اخراجات میں ایسا ہوش ربا اضافہ دیکھ ے میں  ہ آتا خرابی کی بات یہاں تک ہی محدود  ہیں ایک طرف تو یہ حالت ہے کہ بی ک روزمرہ کی اشیادرآمد کر ے کے لیے ایل سیز کھول ے سے محتاط ہیں مگر وفاقی حکومت  ے 165لگژری مرسیڈیز گاڑیاں خرید ے کے لیے ایل سیز کھول ے کا فیصلہ کر لیا ہے  ئی ہر ایک لگژری گاڑی کی قیمت پا چ کروڑ سے زائد ہے مزے کی بات یہ کہ سب کی خریداری کی ادائیگی ڈالر میں ہو گی ایسے فیصلے جمہوری لوگوں کے  ہیں ہو سکتے بلکہ ایسے فیصلے تو شاہا ہ مزاج حکمرا وں کے ہوتے ہیں ج ہیں کسی قسم کے محاسبے کا کوئی ڈرخوف  ہیں ہوتا۔
ملک میں مہ گائی عروج پر ہے جبکہ معیشت بھی  زع میں، خام مال دستیاب  ہ ہو ے کی وجہ سے کارخا ے اور ملیں ب د اور برآمدات کم ہوتی جارہی ہیں خراب معاشی حالات کی ب اپر حکومت اپ ے عوام سے کفایت شعاری کا مطالبہ کر رہی ہے لیک  خود قومی خزا ہ شاہ خرچیوں پر اُڑایا جا رہا ہے مہ گے تری  غیر ملکی دورے کیے جا رہے ہیں بلاول بھٹو وزیرِ خارجہ ب  کرچ د ماہ میں تی  ارب روپے دوروں پر لُٹا چکے ہیں د یا کے کسی اور غریب ملک کو آج تک ات ا مہ گا وزیرخارجہ ملا جت ا پاکستا  کے حصے میں آیا ہے ضرورت اِس امر کی ہے کہ ملک میں بڑھتی بھوک و افلاس پر قابوپا ے کے لیے حکومت اپ ے شاہا ہ اخراجات کم کر ے پر توجہ دے جب امورِ مملکت کی بطریقِ احس  سرا جام دہی میں کوئی رخ ہ  ہیں تو پا چ پا چ کروڑ کی  ئی مہ گی گاڑیاں کیوں خریدی جا رہی ہیں؟ ظاہر ہے  مود مائش کے لیے۔ جب مل مالکا  خام مال کے لیے ایل سیز کھول ے کی دہائیاں دے رہے ہیں تاکہ برآمدی مال میں اضافہ ہو لیک  حکمرا  ٹس سے مس  ہیں ہو تے مخدوش معاشی صورتحال کے دورا  سوا آٹھ ارب روپے کی مہ گی گاڑیوں کی خریداری  اقابلِ فہم ہے ایسے ا طوارکو جمہوریت کا پیراہ  پہ ا ا درست  ہیں بلکہ دشم ی کہہ سکتے ہیں۔
ملک کودرپیش بدتری  معاشی مسائل کی وجہ سے حکمرا  امداد کے حصول کے لیے عالمی سطح پر دربدر پھررہے ہیں مگر درخواست کر ے جا ے والے ہمارے وفود کے لباس امیرتری  ممالک کے سربراہا  سے بھی بہتر دکھائی دیتے ہیں اسی ب اپرشاید د یا پیسے دی ے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے حال ہی میں ج یوا میں ہو ے والی کا فر س میں بھی آٹھ سے دس ارب ڈالر کے وعدے ہوئے لیک  کیا اِ  وعدوں پرکبھی عملدرآمد بھی ہوگا؟ اِس بارے میں کوئی بھی یقی  سے کچھ کہ ے کی پوزیش  میں  ہیں کیو کہ ساکھ سے محروم یہ خوش لباس لوگ جہاں جاتے ہیں د یا مشکوک  ظروں سے دیکھتی ہے اور سمجھتی ہے کہ ا ھیں کسی امداد کی بھلا کیا ضرورت؟ جو دیا گیا شاید اُس کا مُصرف بھی درست  ہ ہو اِس میں کوئی شائبہ  ہیں ملک معاشی مسائل کا شکار ہے لیک  اِس حقیقت کا حکمرا وں کو بھی پتہ ہے؟ اُ  کے رہ  سہ، لباس اور بھاری بھرکم اخراجات سے تو ایسا کوئی اشارہ  ہیں ملتا۔
حکمرا  کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف قرض کی اگلی قسط دی ے سے قبل سبسڈی ختم کر ے اور بجلی و گیس کی قیمت بڑھا ے کا مطالبہ کر رہا ہے مطالبہ پورا  ہ ہو ے کی ب ا پر ہی اگلی قسط  ہیں دی جا رہی لیک  یہ مکمل سچ  ہیں سچ کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف  ے غیر ضروری حکومتی اخراجات ختم کر ے کا بھی مطالبہ کیا ہے لیک  جواب میں ایسا کر ے سے معذوری دکھائی گئی ہے حالا کہ ایک ایسا ملک جہاں صحت و تعلیم کی سہولتیں مثالی  ہیں زرعی ترقی کے م صوبوں پر بھی بہت سارا کام کر ا ہ وز باقی ہے تو حکومت اخراجات جاری رکھ ے کے بجائے بچت پر توجہ دے کیو کہ اگر اشیائے ضروریہ پر سبسڈی ختم کر دی گئی بجلی وگیس کی قیمت بھی بڑھا دی گئی تو ملک میں مہ گائی کا طوفا  آ ے کا خدشہ ہے مگر شاید ہی ایسا ہو جب خراب معاشی حالات کے باوجود سوا آٹھ ارب روپیہ  ئی گاڑیوں پر اُڑا دیاجائے ہے تو کہہ سکتے ہیں کہ
ہوئے تم دوست جس کے دشم  آسماں کیوں ہو