جنیوا ڈونرز کانفرنس: شہباز شریف ویل ڈن پاکستان

 جنیوا ڈونرز کانفرنس: شہباز شریف ویل ڈن پاکستان

جنیوا میں پاکستانی سیلاب زدگان کی بحالی کے لئے منعقد کی جانے والی ڈونرز کانفرنس کامیاب نظر آ رہی ہے۔ یہ کانفرنس پاکستان کی کامیاب سفارتکاری کا نتیجہ ہے اور پاکستان کی عالمی برادری میں اہمیت کی عکاس ہے اتحادی حکومت گزرے 9 مہینوں سے قومی معاشی معاملات کو ٹریک پر لانے کے لئے کوشاں ہے شہباز شریف کی سربراہی میں اتحادی حکومت دن رات ان معاملات کو بھی سنوارنے میں مصروف ہے جنہیں بگاڑنے میں ان کا ہرگز ہاتھ نہیں ہے جبکہ اتحادی حکومت کی اپوزیشن ملک کو زبانی کلامی ڈیفالٹ میں گرا چکی ہے اور اس کی بھرپور کوشش بھی ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے تا کہ اتحادی حکومت ناکام ہو جائے اور پھر وہ دوبارہ اقتدار کے مزے لوٹ سکیں۔ حکمران اتحاد شہباز شریف کی قیادت میں ملک کو مخدوش معاشی و سفارتی صورتحال سے نکالنے کی کامیاب کاوشیں کر رہا ہے حکومت کی ایسی کاوشیں کامیاب ہوتی نظر آ رہی ہیں اولاً ڈونرز کانفرنس کا انعقاد اور وہ بھی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی آشیرباد کے ساتھ پاکستان کی سفارتی کامیابی ہے چھوٹی موٹی نہیں، بھارتی بھر کم کامیابی ہے پھر اس کانفرنس میں 10 ارب ڈالر کی امداد کے وعدے، اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ اقوام عالم پاکستان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہیں۔ شہباز شریف حکومت اس سے پہلے شرم الشیخ کانفرنس میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے حوالے سے اقوام عالم کو آگاہ بھی کر چکی تھی بلکہ انہیں اس بات پر آمادہ بھی کر چکی تھی کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کا شکار ہوا ہے اور اس سارے قضیے میں پاکستان کا کوئی حصہ یا کردار نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ پھر طے پایا کہ جنیوا میں پاکستان کی مدد کرنے کے لئے ڈونرز کانفرنس بلائی جائے۔ 
سفارتی کامیابی کے ساتھ ساتھ ڈونر کی طرف سے 10 ارب ڈالر کی امداد کے وعدے، پاکستان کی توقعات سے زیادہ ہیں۔ شہباز شریف کار سرکار بہترین انداز میں چلانے کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں انہوں نے شرم الشیخ میں بھی پاکستان کا کیس مہارت اور ذہانت سے پیش کیا۔ جس کے نتیجے میں جنیوا کانفرنس کا انعقاد ممکن ہوا اور پھر انہوں نے یہاں اس کانفرنس میں اپنا مقدمہ بھرپور تیاری کے ساتھ پیش کیا۔ جس کے نتیجے میں اقوام عالم کی طرف سے بھرپور ریسپانس ملا اور توقع سے زیادہ امداد کے وعدے مل گئے۔ 
وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے اقوام عالم کو پیش کی جانے والی پریزنٹیشن میں بتایا گیا کہ حالیہ سیلاب کے نتیجے میں پاکستان کو 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔ 3 کروڑ 30 لاکھ انسان اس قدرتی آفت سے متاثر ہوئے ایک تہائی پاکستان سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہوا۔ ہمارا انفراسٹرکچر بھی تباہ ہوا۔ مکانات اور ڈھور نگر بھی تباہ ہو گئے۔ کھڑی فصلیں بہہ گئیں۔ آئندہ کاشتکاری کے لئے درکار بیج و دیگر وسائل نہیں ہیں۔ خوراک کی کمی کا اندیشہ ہے سڑکیں اور ریلوے ٹریک بھی بری طرح 
متاثر ہیں۔ حکومت پاکستان کی طرف سے پیش کردہ منصوبے کی تفصیلات کے مطابق معاملات کو بیک ٹو ٹریک لانے کے لئے 16 ارب ڈالر سے زائد کے وسائل درکار ہیں جبکہ درکار وسائل کا نصف پاکستان اپنے داخلی ذرائع سے مہیا کرے گا۔ 
پاکستان ڈونرز کانفرنس سے 8 ارب ڈالر ملنے کی توقع کر رہا تھا جبکہ اسے 10 ارب ڈالر سے زائد حاصل ہونے کی توقع پیدا ہو گئی ہے بلا شبہ یہ پاکستان کی سفارتی و معاشی میدان میں بہت بڑی کامیابی ہے کیونکہ اقوام عالم کی طرف سے پاکستان کی بھرپور امداد سے پاکستان پر اعتماد کا اظہار ہوتا ہے جو پاکستان کی بہتر ساکھ کا آئینہ دار ہے اس بہتر ساکھ کے باعث پاکستان کو اپنے معاشی معاملات درست کرنے کے لئے درکار مالی وسائل کے حصول میں آسانیاں پیدا ہونگی بالخصوص آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات کرنے میں سہولتیں پیدا ہوں گی۔ پاکستان معاشی بدحالی کا شکار ہے بجٹ خسارہ ہو یا مالی خسارہ، توازن تجارت ہو یا زرمبادلہ کے ذخائر کی حالت کچھ بھی مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں بلکہ انتہائی خراب حالت میں ہے۔ قدر زر میں گراوٹ نے مہنگائی کا فلڈ گیٹ کھول دیا ہے جس کے باعث عوام شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ انتظامی بدانتظامی نے معاملات کی شدت میں اضافہ کر دیا ہے۔ 
سیاسی صورتحال بھی اتنی ہی خراب ہے مرکز میں اتحادی حکومت قائم ہے۔ صوبہ پنجاب، کے پی کے، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں عمران خان اتحادی حکومتیں قائم ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی ہے اور بلوچستان میں مخلوط حکومت ہے۔ گویا تمام چھوٹی بڑی قابل ذکر جماعتیں اقتدار میں ہیں اور اپوزیشن میں بھی ہیں۔ مرکز اور صوبے ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا ہیں سیاست چل نہیں رہی ہے۔ ڈیڈلاک کی صورتحال ہے عمران خان اور ان کے چند ہمنوا مسائل کے حل کے لئے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن جس حکومت اور الیکشن کمیشن نے یہ سب کچھ کرنا ہے اسے تسلیم نہیں کرتے ہیں پھر الیکشن کیسے ہوں گے اور کون کرائے گا، وہ یہ سب کچھ نہیں بتاتے گویا ان کا مطالبہ صرف مطالبہ برائے مطالبہ ہے فی الاصل سیاسی انتشار و افتراق کو ہوا دینا مقصود ہے تا کہ حکومت کی معاشی بہتری کے لئے کی جانے والی کاوشیں ناکام ہوتی نظر آئیں اور ملک ڈیفالٹ کر جائے لیکن عمران خان اور ہمنواؤں کی ایسی کاوشیں کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہی ہیں۔ بلوم برگ نے بھی کہہ دیا ہے کہ پاکستان کے معاشی معاملات جون 2023ء تک بہتری کی طرف جاتے نظر آ رہے ہیں۔ پاکستان کی ساکھ مستحکم ہے عالمی برادری نے اس پر صاد بھی کیا ہے اور ڈالروں کے ذریعے اپنے اعتماد کا عملی ثبوت بھی فراہم کر دیا ہے۔
معاملات، سیاسی ہوں یا اقتصادی کھل کر سامنے آنے لگے ہیں ایک فریق ملک کو اقتصادی ڈیفالٹ سے بچانے کے لئے سرگرم عمل ہے وہ ”سیاست نہیں ریاست“ کے بیانیے پر اپریل 2022ء  میں اقتدار میں آیا اور ملک کی بگڑی ہوئی معیشت کو سنبھالنے میں لگ گیا۔ جبکہ عمران خان نے اتحادی حکومت کو ناکام بنانے کی جدوجہد کا آغاز کیا۔ گزرے 9 ماہ کے دوران عمران خان اور ان کے ہمنوا مسلسل ایسی کاوشیں کر رہے ہیں۔ جس سے سیاسی افتراق و انتشار پڑھے اور حکومت کی ناکامی کا تاثر گہرا ہو اور وہ ناکام ہو جائے۔ ڈونرز کانفرنس کی کامیابی پر عمران خان اور ان کے ہمنواؤں نے انتہائی پست درجے کا بیان دے کر پاکستان کی سفارتی کامیابی کے تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی ہے۔ 10 ارب ڈالر کے وعدے ایسے وقت میں جب پاکستان ایک ایک ڈالر کے لئے ترس رہا ہے۔ کسی نعمت سے کم نہیں ہیں یہ پاکستان کی ڈوبتی معیشت کے لئے مژدہ جانفزا ہے لیکن عمران خان اپنی ہی دھن میں منفی سیاست کو پروان چڑھانے میں مصروف ہیں انہیں اس بات کی ہرگز پروا نہیں ہے کہ ان کی سیاست کے ملکی سالمیت پر منفی اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں اور غریب عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ پی ٹی آئی اپنی ہی دھن میں منفی سیاست کرنے میں مصروف ہے انہیں ملکی معیشت اور قومی سلامتی کے امور سے قطعاً کوئی تعلق نظر نہیں آ رہا ہے۔ اللہ عمران خان کو ہدایت دے۔ آمین