قتیل شفائی کو اپنے مداحوں سے بچھڑے 19 برس بیت گئے

قتیل شفائی کو اپنے مداحوں سے بچھڑے 19 برس بیت گئے

اسلام آباد: منفرد لب و لہجے کے شاعر قتیل شفائی کو اپنے مداحوں سے بچھڑے 19 برس بیت گئے۔ 

سادہ اسلوب مگر انداز ایسا کہ دلوں کو چھو جائے۔ قتیل شفائی کا کلام آج بھی موسیقی کے آسمان پر جگمگا رہا ہے۔قتیل شفائی 1919 کو خیبر پختونخوا کے علاقے ہری پور میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے فنی سفر کا آغاز پاکستان کی پہلی فلم “تیری یاد” کی شاعری سے کیا۔قتیل شفائی عمر بھر محبتوں کے سفیر رہے اور جذبات کی خوبصورت ترجمانی ہی ان کی پہچان بنی۔ فلمی نغمہ نگاری میں قتیل شفائی کا بڑا نام ہے۔

فنی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس اور نقوش ایوارڈ سمیت کئی اعزازات سے دیے گئے۔قتیل شفائی نے 13 برس کی عمر میں ہی شعر کہنا شروع کر دیے تھے اور ان کا پہلا مجموعہ کلام ہریالی 1942 میں شائع ہو گیا تھا۔ انہوں نے فلم نائلہ، نوکر، انتطار اور عشق لیلیٰ جیسی شہرہ آفاق فلموں کے گیت بھی لکھے جو پاکستان کے علاوہ بھارت میں آج بھی گونجتے ہیں۔

قتیل شفائی نے 201 فلموں میں سے 9 سو سے زائد گیت تحریر کیے۔ وہ پاکستان کے پہلے فلمی نغمہ نگار تھے جنہیں بھارتی فلموں کے لیے نغمہ نگاری کا اعزاز بھی حاصل ہوا تھا۔قتیل شفائی کے شعری مجموعہ جات میں ہریالی، جل ترنگ، روزن، جھومر، پیراہن، برگد، آوازوں کے سائے، گفتگو اور دیگر شامل ہیں۔

مرحوم ادبی میگزین “ادب لطیف” کے نائب مدیر بھی رہے۔ ہریالی، جلترنگ، پیراہن، ابابیل اور پھوار ان کی مشہور تصانیف ہیں۔ان کی شاعری کا چینی، روسی، انگلش، ہندی اور گجراتی زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا۔ قتیل شفائی 2001 میں بزمِ یاراں چھوڑ کر جہان فانی سے کوچ کر گئے تھے۔