اپنے عمل کا حساب

Amira Ehsan, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

کہانی 11 ستمبر 2001ء سے شروع ہوئی۔ امریکا کی سونڈ پر داغ لگا۔ اس کی قوت وشوکت کی علامت ورلڈ ٹریڈ سینٹر زمین بوس ہوا۔ پے درپے ہوائی جہازوں کے حملوں نے واحد سپر طاقت کو حواس باختہ کردیا اور یہاں سے امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کا آغاز ہوا۔ کل 60 ممالک کسی نہ کسی درجے میں شریک ہوئے۔ پوری عسکری بارات افغانستان آن اتری۔ صرف زمینی آلاتِ حرب وضرب ہی نہ تھے۔ خلائی، ہوائی، بحری بیڑے، سیٹلائٹ اور کامیاب ترین ہدف پہچاننے والے جادوئی مشینی آلات بھی ہیلی کاپٹروں، ہوائی جہازوں میں فٹ تھے۔
اس جنگ کا مرکز کابل سے ایک گھنٹے کی مسافت پر بگرام کا ہوائی اڈا امریکی قوت وشوکت کا قلعہ تھا۔ انتقامی جذبے کی تسکین کے لیے بگرام میں نیویارک شہر کے فائر بریگیڈ کے عملے اور پولیس نے ’آنجہانی‘ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی منہدم عمارت کا ایک ٹکڑا 2001ء میں لاکر دفن کیا تھا۔ اور پھر چل سو چل۔ 20 سالوں میں امریکا کی فوجی، معاشی طاقت کا پورا قبرستان یہاں آباد ہوگیا۔ تاریخ کے آئینے میں ایسا ہی ایک واقعہ ملاحظہ کیجیے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا دور ہے۔ شاہانِ فارس کی سرزمین پر فتوحات کے لیے لشکرکشی ہے۔ شاہ فارس یزدگرد کے پاس نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کی قیادت میں وفد پہنچا، اسلام کی دعوت دینے، وہ منظور نہ ہوتو جزیہ دے کر مسلم حکمرانی قبول کی جائے، وہ بھی منظور نہ ہوتو جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ کا پیغام لیے۔ اپنے وقت کے بے مثل شان وشوکت بھرے دربار (وائٹ ہاؤس جس کے مقابل بے وقعت ہے۔) میں عرب بہادروں کا یہ وفد کندھوں پر پڑی چادریں، ہاتھوں میں کوڑے، سادہ ترین لباس خاک آلود دیکھ کر یزدگرد کا کبر ونخوت اور بڑھ گیا۔ ہتک آمیز گفتگو اور دھمکیوں کے بعد کہا کہ اگر قاصدوں کا قتل خلاف اصول نہ ہوتا تو تمہاری گردنیں اڑا دیتا۔ جاؤ تمہارے لیے میرے پاس کچھ نہیں۔ اس کے بعد مٹی کا ٹوکرا لانے کا حکم دیا اور کہا، ان میں سے جو سب سے زیادہ معزز ہو یہ ٹوکرا اس کے سر پر لاد کے، اسے ہانکتے ہانکتے مدائن سے باہر نکال دو۔ ’جاؤ اپنے سردار سے کہہ دو کہ میں تمہاری سرکوبی کے لیے رستم کو بھیج رہا ہوں۔ وہ اسے اورتمہیں قادسیہ کی خندق میں دفن کر دے گا۔‘ اس پر عاصم بن عمرو رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: میں ان میں سب سے زیادہ معزز ہوں اور اطمینان سے مٹی کا ٹوکرا اپنے کندھوں پر اٹھائے اپنی سواری سے قادسیہ پہنچے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو سارا قصہ سنایا اور کہا: انہوں نے اپنی زمین خود ہی ہمیں دے دی۔ حضرت سعدؓ نے فرمایا: ’مبارک ہو! اللہ کی قسم! اللہ نے ان کے ملک کی کنجیاں ہمیں عطا فرما دیں۔‘ اور پھر 15 ہجری میں قادسیہ کی فیصلہ کن جنگ میں رستم اور اس کی فوج ہی قادسیہ کی خندق میں دفن ہوئی۔ سوا لاکھ سے زائد فارسی فوج کے مقابل 30 ہزار مسلمان تھے جو بالآخر ان کی زمین کے وارث ہوئے۔
بگرام کا مہیب قلعہ وہ مرکز تھا جہاں امریکی صدور آکر تقریریں فرماتے تھے۔ مشہور ومعروف شخصیات آکر دلجوئی کے لیے لطیفہ گوئی، بذلہ سنجی کا مظاہرہ کرتیں۔ یہاں بڑے فاسٹ فوڈ سلسلے (برگر کنگ، پیزاہٹ)، جم، کیفے بھی موجود تھے۔ مشہور ’مدر آف آل Coffees‘ بھی تھی جو باہر افغانوں پر پھینکے جانے والے سب سے بڑے تباہ کن بم کے نام پر تھی ’مدر آف آل Bombs‘۔ اب یہ اپنی شکست خوردہ کیفیت میں ڈوبا قلعہ، ویرانی اور ٹیکنالوجی کے کاٹھ کباڑ (Scrap) کا منظر لیے ہے۔ مدینہ کے بنوقینقاع، بنو نظیر کے یہودی قلعوں کی سی کہانی ہے۔ بگرام بدنام زمانہ عقوبت خانہ لیے ہوئی تھا، جس میں ہزاروں طالبان اور عرب قیدی بدترین تشدد کا نشانہ بنائے گئے۔ اس کا اعتراف خود صدر اوباما نے کیا تھا۔ یہ ابوغریب جیل اور گوانتامو کی مانند انسانی حقوق کی پامالی کا مرکز تھا۔ اس کے در ودیوار ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی اذیت بھری چیخوں کے گواہ ہیں۔ یہیں قرآن کریم کی بے حرمتی کے واقعات ہوئے۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں ایک مجاہد قیدی سخت ترین سردی میں پڑا خواب دیکھ رہا تھا۔ مبشرات، سچے خواب، کی تایید وتصدیق سورۃ یوسف میں 4 خوابوں کے تذکرے اور ان کی تعبیرات سے ہوتی ہے۔ حدیث کے مطابق: ’مبشرات کے سوا نبوت کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ صحابہؓ نے دریافت کیا، مبشرات سے کیا مراد ہے؟ 
آپؐ نے فرمایا، سچا خواب۔‘ (بخاری) فرائڈ اپنی مکمل بے دینی کے باوجود اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ بعض خواب یقینا پیش گوئی کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ قیدی دیکھتا ہے کہ ایک شخص ہے جس کے دائیں ہاتھ میں قرآن پاک اور بائیں ہاتھ میں انجیل پکڑی ہے۔ ان کا تعارف حضرت عیسیٰؑ کی حیثیت سے کروایا جاتا ہے۔ قیدی کا تعارف ان سے بگرام میں امریکیوں کے قیدی کے طور پر کروایا گیا تو حضرت عیسیٰؑ نے دونوں ہاتھ پھیلاکر استقبال کیا اور قیدی کی پیشانی چومی۔ یقین دہانی کروائی کہ آپ کامیاب ہیں فکر مند نہ ہوں۔ قیدی کی رہائی اور اپنے آنے کی بشارت دی۔ حضرت عیسیٰؑ نے قیدی کے دائیں ہاتھ پر اپنا لعاب لگایا جس سے قیدی کی آنکھ کھل گئی۔ ہاتھ سے خوشبو پھیل رہی تھی اور یوں قید خانے میں خوشبو اور خواب کی خبر پھیل گئی۔ امریکی اس کے بعد تفتیش کے دوران قیدیوں سے خوابوں بارے پوچھا کرتے تھے۔
بگرام سے امریکا کا رخصت ہونا اس کی شکست پر مہر ثبت کرگیا۔ توقع کے برخلاف اڈا افغانوں کے حوالے کسی تقریب کے بغیر خاموشی سے کردیا گیا۔ گھن گرج سے آمد دبے پاؤں رخصت ہونے پر منتج ہوئی۔ امریکی اہلکار نے اخفا کی شرط پر تصدیق کی کہ تمام امریکی نیٹو فوجیں بگرام سے نکل گئی۔ جس کے باہر موجود مقامی افغان ٹھنڈی آہ بھر کر کہہ رہا تھا۔ ’طالبان کی حکومت بم مار کر ختم کردی تھی۔ کیا ملا؟ لاحاصل 20 سالہ جنگ! اب طالبان کو اتنا مضبوط چھوڑکر جا رہے ہیں کہ وہ کسی بھی وقت سب کچھ لے لیں گے۔ کاش یہ کبھی نہ آتے۔ ہمیں کیا دیا؟ تباہی بربادی، قتل وغارت، غم واندوہ ہم پر ڈالے۔‘ یہ جو امریکا کے نکلنے پر سبھی سیکولر درخواست گزار رہے کہ افغانستان کو امن دے کر جائیں! امریکا کی پٹاری میں امن کہاں! فلسطینیوں سے بھی پوچھ لیں، اسرائیل کے پشت پناہ امریکا بارے!
بیس سال کے دوران پہلے افغانستان میں تابوتوں کا کاروبار پھلا پھولا۔ اب امریکی جنگی مشینری، ناکارہ گاڑیاں، پرانا فرنیچر۔ اسکریپ ڈیلروں کی چاندی ہے۔ دوسری جانب پاسپورٹ ویزے بنوانے والوں کے ٹھٹھ لگے ہیں۔ 50 ہزار افغان جو امریکی مخبر وخادم رہے۔ امریکا انہیں تین وسط ایشیائی ریاستوں میں آباد کرنے کی بات چیت کر رہا ہے۔ اندر موسم یہ ہے کہ یا افغان فوج کا صفایا ہو رہا ہے یا وہ رضاکارانہ ہتھیار ڈال کر جنگی ساز وسامان طالبان کے حوالے کر رہی ہے۔ جنوری 2018ء میں طالبان 14 ڈسٹرکٹ کنٹرول کر رہے تھے اب 150 ڈسٹرکٹ اور طوفانی رفتار سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اشرف غنی نے جاتی بہار میں کابل ایئرپورٹ پر اپنی بہت بڑی تصویر لگائی ہے۔ اس کی حیثیت کابل میئر کی سی رہ گئی ہے۔
جرمن فوج شمالی افغانستان میں اپنا بڑا مرکز (بگرام کے طرز پر) خالی کر گئی ہے۔ 800 کنٹینروں میں سارا جنگی ساز وسامان اسلحہ بارود لاد بھیجا۔ حتیٰ کہ 27 ٹن کی ایک جنگی یادگار بھی بھیجنی پڑی۔ افغانستان میں چھوڑکر شرمساری اٹھاتے۔ صدر بائیڈن جھنجلائے نظر آتے ہیں۔ امریکا کے یوم آزادی، 4 جولائی پر بگرام خالی کرکے جنگی بارات بے نیل مرام لوٹ آنے کا غم۔ اب8جولائی کوامریکی انخلا پرمزیدوضاحتیں دینی پڑیں۔تاہم صحافیوں کے سوالوں کی بوچھاڑکا سامنارہا۔ کینیڈا 2014ء میں 12 سال لگاکر 158 فوجی مروا کر واپس چلا گیا تھا۔ سفید فام برتری کا عفریت اب اسلاموفوبیا (جس میں افغانستان میں شکست کا حصہ بھی ہے) بن کر آئے دن وحشت ناک خبریں وہاں نہتے پرامن شہریوں پر ٹوٹ پڑنے کی سامنے لا رہا ہے۔ امریکا نے 650 فوجی سفارت کاروں کی سیکورٹی کے لیے چھوڑنے کی بات کی تو طالبان نے فوراً نوٹس لیا۔ امریکی فوج کو حملوں کا انتباہ دیا۔ ’ایک بھی فوجی رکا رہا تو ردعمل کا حق رکھتے ہیں۔‘ (یاد رہے کہ طالبان جنگی حالات سے نبرد آزما ہوتے ہوئے 6 سال حکومت کرنے، نفاذ قانون اور امن قائم کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔) 
امریکا کے اندرونی حالات یہ ہیں کہ حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجیوں میں خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ 11/9 سے اب تک 30 ہزار فوجیوں نے خودکشی کی ہے۔ افغانستان، عراق جنگ میں ہلاک ہونے والے فوجیوں سے زیادہ تعداد ان کی ہے۔ یہ فوجی افغان جنگ کا حصہ تھے وہاں سے نفسیاتی اور سماجی مسائل کا شکار ہوکر لوٹتے رہے۔ ادھر صدر بائیڈن کی افغان مددگاروں سے ہمدردی بلاسبب نہیں۔ یہ آڑے وقت میں مخبر اور کارندے بن کر دوبارہ کام آئیں گے۔ کافر منافق گٹھ جوڑ فطری ہے۔ ان پر اللہ کا غضب بلاوجہ تو نہیں۔ حدیث میں تنبیہہ: ’میرے بعد مجھے تم لوگوں کے لیے سب سے زیادہ اندیشہ چرب زبان منافقین سے ہے۔‘ (طبرانی)
ہمسائیگی میں تمام حالات پر سنجیدگی، وحدت فکر اور تلافیئ مافات ضروری ہے۔ گزشتہ پالیسی پر اسٹاک ٹیکنگ کرنی اور آئے دن بدلتے بیانات کی غیرذمہ دارانہ روش سے بچنا ہوگا۔
صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب