میثاقِ معیشت میں میثاقِ پاکستان

میثاقِ معیشت میں میثاقِ پاکستان

معاشی حالات اچھے نہیں لیکن مزیدخرابی کی بات یہ ہے کہ دگرگوں معیشت بہترہونے کے بارے میں ماہرین مستقبل قریب میں پُراُمید کے بجائے مایوس ہیں اندرونی اور بیرونی قرضوں کابوجھ اِس قدر بڑھ گیاہے کہ تجارتی خسارے کی بناپر اب ادائیگی بھی مشکل ہونے لگی ہے پھر بھی حکومت کاآمدن بڑھانے کے بجائے مزید قرضوں پر انحصار ہے دوست ممالک کے ساتھ عالمی اِداروں سے بھی قرضے حاصل کرنے کی کوششیں جاری ہیں ورلڈ بینک اور جنوبی کوریا کے بعد جلد ہی آئی ایم ایف کی طرف سے مالی پیکیج لینے کے لیے بات چیت جاری ہے آئی ایم ایف کی ہدایت کے مطابق حکومت نے پیٹرول کے نرخ بڑھادیے ہےں لیکن پیٹرول کے نرخ بڑھانے سے ملک میں مہنگائی کا جن بے قابو ہو چکا ہے اِس فیصلے پرنوزائیدہ اتحادی حکومت کے خلاف احتجاج و مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے شاید احتجاج اور مظاہروں کی وجہ سے ہی شہباز شریف میثاق ِمعیشت کی بات کرتے ہوئے سیاسی استحکام کو ناگزیر قراردیتے ہیں سچی بات تو یہ ہے کہ میثاقِ معیشت ہی دراصل میثاقِ پاکستان ہے مگر محض باتیں نہیں اِس کے لیے سیاسی جماعتوں کو اپنے غیر ضروری اختلافات ترک کرنا ہوں گے اورمرکز کو مضبوط بنانا ہوگا لیکن اِس وقت ہر سیاستدان ملک دیوالیہ ہونے کی خبریں تو سنا رہا ہے لیکن کیا تمام سیاسی رہنمااپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں اُن کے قول وفعل سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاستدانوں کو ملک یا معیشت سے زیادہ اپنی سیاست چمکانا عزیز ہے جس کے لیے نسلی ،لسانی اور علاقائی تعصبات کو ہوادینے کو بھی غلط نہیں جائز تصور کرتے ہیں یہ رویہ یا سوچ کسی طور ملک کی وحدت و سلامتی کے لیے بہتر نہیں ۔
عمران خان حکومت کے خاتمے کی بڑی وجہ یہ قرار دی جاتی ہے کہ غلط فیصلوں سے معیشت کا کباڑہ کردیا گیا اسی پاداش میں عدمِ اعتماد لاکر نئی حکومت تشکیل دی گئی مگر اب اربابِ اختیار خود اعتراف کرنے لگے ہیں کہ سابق دور میں حکومتی دعووں سے شرح نمو زیادہ رہی اگر یہ بات درست ہے تو سابق حکومت کو نااہل یا ناکام کہنے کا جواز نہیں رہتابلکہ یہ کہنا بجا ہے کہ نااہلی یا ناکامی کی باتیں محض الزام تراشی تھیں اوراگراپوزیشن کی باتوں میں صداقت ہوتی تواب بجٹ سے پہلے کرائے حکومت کے معاشی سروے الزام تراشی کی تائید کرتے مگرسروے میں الزام تراشی کے برعکس صورتحال سامنے آئی ہے سروے کے مطابق نہ صرف زراعت و صنعت کی ترقی حکومتی دعوﺅں سے زائد رہی بلکہ مہنگائی بھی موجودہ حکومت سے کم رہی یہ سروے ثابت کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے ذمہ داران ماضی میں جو شرح نموکے منفی ہونے کی باتیں کرتے رہے ہیں وہ حقائق کے مطابق نہیں نیز اب معیشت کی بحالی کے دعو ے درست نہیںپہلی بار موڈیز جیسے عالمی اِداروں نے ملک کی معاشی ریٹنگ مثبت کے بجائے منفی کردی ہے اِس کا ذمہ دارکون ہے؟ اِس کا تعین کرنے کی ضرورت ہے ہر خرابی کا ذمہ دار سابق حکمرانوں کو قرار دینے کی روش درست نہیں جس نے جو کیا ہے اُس کے کھاتے میں شمار ہونا چاہیے باتوں سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی روش غلط ہے۔
چلیں ایک لمحے کے لیے تصور کر لیتے ہیں کہ عمران خان ایک نااہل اور ناکام حکمران تھا مگر وہ کیسا نااہل اور ناکام حکمران تھا کہ سفید پوش طبقے کوصحت کارڈ بھی دے رہا تھا پناہ گاہیں بنانے کے ساتھ لنگر خانے بھی چلا رہاتھا کامیاب جوان پروگرام بھی شروع کر رکھا تھا ہر ملک اعتبار کرتے ہوئے قرض دینے کے ساتھ تعلقات بڑھا رہا تھاکرونا کے ایام میں بھی تعمیراتی سرگرمیاں عروج پر تھیں اقوامِ متحدہ میں ناموسِ رسالت کا مقدمہ بھی لڑ رہا تھا پیٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے روک رکھی تھیں زرِ مبادلہ کے ذخائر بائیس ارب ڈالر سے زائد تھے ایسا کیونکر ممکن تھا کسی معاشی ماہر کے پاس کوئی دلیل ہو تو عوام کوبھی بتادے اب اچانک کیا ہوگیاہے کہ دوماہ سے جو کامیاب اور اہل لو گ اقتدار میں آئے ہیں پہلی بار پیٹرول کی قیمت دوسو دس روپے ہوچکی ہے ڈالر کا ریٹ دوسو سے بڑھ گیا ہے جواب تک کی ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے عالمی اِدارے اور خوشحال ممالک ہماری پتلی معاشی حالت دیکھ کر ہمیں قرضے دینے سے ہچکچانے لگے ہیں ملک میں توانائی کا بحران اِس قدر شدت اختیار کر چکا ہے کہ بارہ سے چودہ گھنٹے تک بجلی کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے حالانکہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ساٹھ فیصد تک اضافہ کیا جا چکا ہے پھر بھی بجلی نہیں مل رہی بلکہ ملک میں اندھیرے بڑھ رہے ہیں اِس کی وجہ کیا ہے ؟اہل اور باصلاحیت حکمران ہی خرابی کی وجوہات کے بارے بتاسکتے ہیں ۔
اقتدار کسے عزیز نہیں؟سب کو عزیز ہے لیکن اقتدار کا مطلب عوامی مسائل حل کرنا ہے جب مہنگائی اور بے روزگار ی ہوگی برآمدات کی بجائے حکومت کاانحصار درآمدات پر ہوگا اور ملکی پیداوار بڑھاکر زرِ مبادلہ کے ذخائر بڑھانے کی بجائے قرض لیکر امورِ مملکت چلائے جائیں گے تو عوامی حلقوں سے حمایت نہیں ملے گی بلکہ بے چینی میں اضافہ ہو گاکیا یہ حیران کُن نہیں کہ پنجاب اسمبلی کے ڈی سیٹ ہونے والے ممبران کومسلم لیگ ن نے ٹکٹوں کی آفر کی ہے تو کچھ نے مہنگائی سے عوام میں بڑھتے غم و غصے کے پیشِ نظر ٹکٹیں لینے سے معذرت کر لی ہے حالانکہ پنجاب میں آج بھی مسلم لیگ ن ایک مقبول جماعت ہے ٹکٹ سے انکار کی نوبت کیوں آئی صاف ظاہرہے مہنگائی سے عوامی حلقے بدظن ہوئے ہیں جس سے عوامی نمائندے لاعلم نہیں وہ بھی بڑی حد تک عوام کے نبض شناس ہوتے ہیں شہباز شریف گرینڈ ڈائیلاگ کی بات کرتے ہیں لیکن یہاں سوا ل یہ ہے کہ گرینڈ ڈائیلاگ کی بات تووہ کرتے ہیں لیکن حریف جماعت سے ہاتھ ملانے یا بات کرنے پر آمادہ نہیں علاوہ ازیں جب عمران خان نے حکومت میں ہوتے ہوئے اپوزیشن سے بات چیت نہیں کی اب تو وہ اقتدار سے بے دخل کیے جانے پر زخمی اور مشتعل ہیں تو کیونکر شہبازشریف سے ہاتھ ملا کر حکومت کو مضبوط بنائیں گے یہاں ایک اور بتانے والی اہم بات یہ ہے کہ عمران خان حکومت ختم ہوئی تو فواد چودھری ،شہباز گل اور شہزاد اکبر جیسے لوگوں کو کچھ خاص فرق نہیں ہواوہ چرب زبانی سے اپنی نالائقیاں حریف کے سر تھوپنے میںمہارت رکھتے ہیں کل کو اگر موجودہ حکومت بھی رخصت ہوتی ہے تو رانا ثنااللہ یا مریم اورنگزیب جیسے لوگ کچھ خاص متاثر نہیں ہو ں گے اِس لیے اپنے، پرائے اور مفاد پرست میں تمیز رکھیں حالات کچھ زیادہ خوشگوار نہیں پیٹرول ،بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے نہ صرف مہنگائی میں ہوشُربا اضافہ ہو گیا ہے بلکہ بجلی کی عدم دستیابی سے صنعتوں کو رواں رکھنا بھی ممکن نہیں رہا کیونکہ پیداواری لاگت بڑھنے سے ہمارا سامان عالمی منڈی میں خریداروں کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام ہے اسی لیے برآمدات کم ہوتی جارہی ہے جب تک حکومت مہنگائی اور بے روزگاری میں کمی نہیں لائے گی اور صنعت کے فروغ پر کام نہیں ہوگا میثاقِ معیشت کا خواب پورا نہیں ہو سکتا میثاقِ پاکستان کی بنیادمیثاقِ معیشت ہے کیونکہ عوامی خوشحالی سے ہی سازشی عناصر کو بھی ناکام بنایا جا سکتا ہے لیکن معاشی ماہرین آمدہ بجٹ سے مہنگائی کا طوفان آنے کا خدشہ ظاہر کرنے لگے ہیں ایسے حالات میں کون حکومت کی تعریف و توصیف کی ہمت کر سکے گا۔

مصنف کے بارے میں