جوبائیڈن :”بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے“

جوبائیڈن :”بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے“

بین الاقوامی تعلقات بننے اور ٹوٹنے میں اصولوں اور نظریات کی بجائے ریاستی مفادات زیادہ اہم کردار ادا کرتے ہیں امریکی صدر بائیڈن نے اپنی صدارتی مہم کے دوران واشگاف الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ وہ اگر برسراقتدار آگئے تو سعودی عرب کو ”A paria state“ یعنی ایک اچھوت ریاست بنا دیں گے گویا باالفاظ دگر سعودی عرب کا حقہ پانی بند کر دیں گے ۔ بر سر اقتدار آنے کے بعد بائیڈن نے دو ممالک کے خلاف بڑا سخت بائیکاٹ اختیار کیا جن میں ایک سعودی عرب اور دوسر ا پاکستان تھا۔ ان دونوں ممالک سے سفارتی کشیدگی کے metrics یا پیمانے الگ الگ تھے۔ بائیڈن کا پاکستانی وزیراعظم کو فون نہ کرنا حالیہ سیاست میں ایک Thesis بن چکا ہے لیکن ہمارا آج کا موضوع سعودی عرب ہے۔ 
 بائیڈن کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان جو کہ عملاً سعودی فرمانروا کے مکمل اختیارات حاصل کر چکے ہیں۔ انہوں نے 2018ءمیں ایک امریکی شہری جمال خشوگی کا منصوبہ بندی کے تحت استنبول میں سعودی سفارت خانے میں قتل کروایا اور ان کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ثبوت غائب کیے گئے۔ جمال خشوگی امریکی روزنامہ واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار تھے اور شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی عرب کے خلاف کالم لکھتے تھے۔امریکی سرکاری مو¿قف یہ تھا کہ امریکہ اپنے شہری کے قتل پر خاموش نہیں رہے گا۔ یہ جمہوریت اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے دور میں بھی اس قتل پر بڑا شور اٹھا تھا مگر ٹرمپ کے داماد جیمز کشنر اور محمد بن سلمان کے درمیان پائی جانے والی گہری دوستی کی وجہ میں یہ معاملہ ٹل گیا البتہ 2021ءمیں امریکی تحقیقاتی رپورٹ نے ثابت کر دیا کہ جمال خشوگی کے قتل کی سازش میں محمد بن سلمان کا مرکزی کردار تھا۔ سعودی عرب نے یہ رپورٹ مسترد کر دی مگر امریکی صدر اس پر قائم رہے کہ وہ محمد بن سلمان کے ساتھ ہاتھ نہیں ملائیں گے کیونکہ ان کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ 
اس سال کے اوائل میں جب روس نے تمام بین الاقوامی قوانین اور معاشروں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے یوکرائن پر فوج کشی کا فیصلہ کیا تو امریکہ اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ وہ یوکرائن میں اپنی فوج بھیج سکے اس جنگ کی وجہ سے دنیا بھر میں بالخصوص یورپ اور امریکہ میں گیس اور تیل کا سنگین بحران پیدا ہوا جس نے دنیا بھر کی معیشت اور منڈیوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ ایک طرف روسی تیل اور گیس کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف امریکہ یہ چاہتا ہے کہ روسی تیل کی کمی کو پورا کرنے کے لیے متبادل ذرائع تلاش کیے جائیں جن میں سعودی عرب سر فہرست ہے امریکہ کا خیال ہے کہ اگر سعودی عرب اور دیگر اوپیک ممالک اپنی تیل کی یومیہ پیداوار میں اضافہ کر دیں تو روسی تیل بند ہونے سے جو سپلائی میں کمی آئی ہے جس کی وجہ سے قیمتیں آسمان پر ہیں تو ایسی صورت میں سعودی وافر سپلائی سے قیمتوں کو کم کیا جا سکتاہے۔ 
بائیڈن کی سیاسی مشکلات میں امریکی پٹرول پمپوں پر مہنگے تیل کی وجہ سے مزید اضافہ ہو گیا ہے اور بائیڈن اور اس کی پارٹی کی سیاسی مقبولیت میں کمی آگئی ہے اور انہیں امریکہ میں مہنگائی کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے یہ معاملات ایسے وقت پر سامنے آرہے ہیں جب امریکہ میں مڈ ٹرم انتخابات ہونے جا رہے ہیں جس سے امریکی کانگریس اور سینیٹ میں پارٹی پوزیشن تبدیل ہو سکتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر اس کا حل تلاش نہ کیا گیا تو بائیڈن اور ان کی ڈیموکریٹ پارٹی کو اگلے صدارتی انتخابات میں شکست ہو سکتی ہے جبکہ بائیڈن ہر قیمت پر دوسری بار امریکی صدر بننے کے خواہاں ہیں چاہے اس کے لیے انہیں کچھ بھی کرنا پڑے۔ 
یہ وہ پس منظر ہے جس میں بائیڈن نے ”کچھ بھی کرنا پڑے“ والا نظریہ¿ ضرورت کو کار آمد بناتے ہوئے شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ ہاتھ ملانے کا فیصلہ کر لیا یہ ملاقات اس ماہ ہونا تھی مگر اب کہا جا رہا ہے کہ یہ اگلے ماہ تک مو¿خر ہو گئی ہے اس میں گرمجوشی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بائیڈن کا سعودی عرب کو اچھوت ریاست بنانے والا بیان ہے۔ امریکی صدر اس سلسلے میں اسرائیل اور سعودی عرب دونوں ممالک کا دورہ کریں گے جس پر ایران میں سفارتی الرٹ جاری ہو چکا ہے۔ 
اس متوقع دورے میں شہزادہ محمد بن سلمان کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں ایک تو اس دورے کا مطلب یہ ہو گا کہ امریکہ نے محمد بن سلمان پر سے جمال خشوگی کے قتل کا الزام واپس لے لیا ہے دوسرا سعودی پٹرول کی یومیہ پیداوار سے سعودی عرب کی یومیہ آمدنی اور منافع میں اضافہ ہو گا۔ اس موقع پر بائیڈن چاہتے ہیں کہ سعودی عرب اور یمن کے درمیان جنگ بندی میں مزید توسیع کی جائے اور اس کا غالب امکان یہی ہے کہ یہ سیز فائر جاری رہے گا۔ 
اسرائیلی میڈیا اس دورے کو بڑی اہمیت دے رہا ہے اور ان کے اخبارات میں امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان معاملات میں جو تجزیہ کاری کی جا رہی ہے اس میں ہمدردی کا جھکاو¿ امریکہ کی بجائے سعودی عرب کی جانب ہے کیونکہ اس وقت سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان مثالی تعلقات قائم ہو چکے ہیں جن کے پیچھے دونوں کا مشترکہ دشمن ایران ایک اہم Factor ہے۔ 
اس سارے بحث مباحثے میں پاکستان جیسے ملک کے لیے ایک diplomatic lesson موجود ہے کہ جب امریکہ جیسا سپرپاور ملک اپنے سفارتی تعلقات یا سیاسی مو¿قف سے ہٹ کر حالات کے مطابق ایڈجسٹمنٹ کر سکتا ہے تو پاکستان ایسا کیوں نہیں کر سکتا۔ روس یوکرائن جنگ کے حوالے سے ہمارے ہاں یہ مو¿قف اپنایا گیا کہ گزشتہ حکومت روس سے سستے تیل کے معاہدے کے لیے تگ و دو کر رہی تھی اس میں انڈیا کی مثال دی جاتی ہے کہ وہاں تیل سستا کیا گیا ہے کیونکہ اندیا کو روس سے سستا تیل ملتا ہے ہے معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے انڈیا کے روس کے ساتھ تعلقات 1952ءسے قائم ہیں۔ انڈیا ایسا ملک ہے جو ایران پر عالمی پابندیوں کے باوجود کھلم کھلا ایران سے تیل خریدتا رہا ہے۔ انڈیا اپنے سفارتی اتحادیوں سے امداد یا اسلحہ نہیں مانگتا وہ تجارت کی بات کرتا ہے جبکہ پاکستان کی ساری سفارتکاری Economic Aid کے لیے ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا اب کیا ہو گیا ہے کہ روس گزشتہ حکومت میں ہمیں سستا پٹرول دینے کے لیے بے قرار و بے چین تھا مگر اب مکر گیا ہے۔ ایسا کچھ نہ تھا اور نہ ہی ہے کیونکہ پاکستان کے روس کے ساتھ تعلقات استوار ہونے کی صورت میں امریکہ اور باقی دنیا کے سا تھ تعلقات میں 180 ڈگری کا فرق آجائے گا جو ناممکن ہے۔ 
البتہ موجودہ حالات میں پاکستان کو جس ملک سے سب سے زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے وہ وہی ملک ہے جس کی جانب امریکہ نے بھی اپنی سمت تبدیل کر لی ہے اور وہ ہے سعودی عرب جو درحقیقت اس عالمی بحران کا سب سے بڑا beneficiary یا مستفید کنندہ ہے۔ اس وقت سعودی عرب پر تیل کی فروخت کے عوض ڈالروں کی بارش ہو رہی ہے جبکہ روس جنگی اخراجات اور امریکہ مہنگے تیل کی وجہ سے پریشان ہے ۔ ان حالات میں پاکستان کو چاہیے کہ سعودی عرب کے سرکاری عمرے یا سعودی زکوٰة کے لیے قطار بنانے یا منت ترلا کی بجائے سعودی عرب سے جامع تعلقات بنائیں اور پائیدار سفارتکاری کے ذریعے جس سستے تیل کے لیے روس کے خواب دیکھتے ہیں اس سے بہتر ڈیل آپ کو سعودی عرب سے مل سکتی ہے اور یہ سعودی کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے۔ نوازشریف دور میں پاکستان نے یمن جنگ میں سعودی عرب کا ساتھ دینے سے جو انکار کیا تھا اور جس کے نتیجے میں پاک سعودی تعلقات مجروح ہوئے تھے اس سفارتی دراڑ پر مرمت کرنے کی ضرورت ہے تا کہ سعودی سے ہمارے پرانے تعلقات بحال ہو سکیں کیونکہ اس دراڑ کا فائدہ انڈیا نے اٹھایا اور سعودی عرب کے ساتھ فوجی تعاون کا معاہدہ کر لیا تھا ۔ یہ ہماری سفارتکاری کے لیے Wake-upکال ہے۔ 

مصنف کے بارے میں