آ خر آہی گئی …

آ خر آہی گئی …

جی ہا ں! جس کا غلغلہ تھا ایک عر صے سے آ نے کا، وہ آ خر آ ہی گئی۔ قا رئین کرا م، میں با ت کر رہا ہوں ، بلکہ اپنی اْس با ت کو آ گے بڑھا رہا ہو ں جو میں نے اپنے گذ شتہ کا لم میں شر وع کی تھی۔ اور اب آ پ بھی جا ن چکے ہو ں گے کہ متحدہ اپوزیشن نے اسمبلی سیکرٹریٹ میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن اور وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی، جس سے واضح ہوگیا کہ حزبِ اختلاف اس معاملے میں سنجیدہ ہے۔ اس ایشو پر عوام اب تک الجھائو کا شکار تھے اور وجہ اس کی یہ تھی کہ وزیراعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کا معاملہ خاصے عرصے سے اپوزیشن کے زیر غور تھا، لیکن کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا۔ کبھی ایک ایشو سامنے آجاتا تو کبھی کوئی دوسری اَڑچن پیدا ہوجاتی؛ چنانچہ لوگ اپوزیشن کی جانب سے تحریکِ عدم اعتماد لانے کے حالیہ دعووں کو بھی ماضی کے تجربے کی روشنی میں بس بیان بازی ہی سمجھ رہے تھے۔ تاہم اب یہ واضح ہوچکا ہے کہ یہ سلسلہ اگلے بلکہ عملی مرحلے میں داخل ہوگیا ہے اور اب اس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ ضرور نکلے گا۔ حکومت اور اپوزیشن، دونوں جانب سے کامیابی کے متضاد دعوے سامنے آرہے ہیں، جو ظاہر ہے ایسے مواقع پر آتے ہی ہیں۔ متحدہ اپوزیشن نے امید ظاہر کی ہے کہ تحریک کامیاب ہوگی اور اس کے حق میں 172 ارکان سے زیادہ ووٹ آئیں گے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق اپوزیشن کے آٹھ ارکان حکومت کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں اور یہ کہ اپوزیشن کو ناکامی کاسامنا کرنا پڑے گا۔ تحریک عدم اعتماد کامیابی ہوتی ہے یا ناکام، اس سے قطع نظر عوام کے لیے خوش آئند معاملہ یہ ہے کہ ملک کے سیاسی منظر نامے پر ایک عرصے سے جو غیریقینی صورت حال کی دھند چھائی ہوئی تھی وہ چھٹ جائے گی اور معاملات زیادہ واضح ہوکر سامنے آجائیں گے۔ دوسری خوش آئند بات یہ ہے کہ اس حوالے سے تمام تر اقدامات پارلیمان کے اندر آئینی پیرامیٹرز کے تحت کیے جارہے ہیں اور سپیکر قومی اسمبلی نے یقین دہانی کرائی ہے کہ آئینِ پاکستان سے ہٹ کر کوئی کام نہیں ہوگا۔ یہ باتیں بھی سننے میں آرہی ہیں کہ تحریکِ عدم اعتماد کے تناظر میں ارکانِ اسمبلی کی حمایت کی خرید وفروخت کا عمل شروع ہوگیا ہے، لیکن یہ کوئی بڑی فکر کی بات نہیں کہ اس حوالے سے واضح قواعد و ضوابط موجود ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور عدالتی فعال ہیں۔ مذکورہ اہم ادارے ظاہر ہے کہ اس سارے معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہوں گے اور اصولوں کی خلاف ورزی نہیں ہونے دیں گے۔ اہم معاملہ یہ ہے اس وقت ملک میں سیاسی ہلچل بلکہ ہیجان کی سی جو صورت حال ہے تحریک عدم اعتماد کا اونٹ کس کروٹ بیٹھنے سے اس کا خاتمہ ہوجائے گا اور پھر ملک کے سیاسی معاملات کو ہموار انداز میں آگے بڑھایا جاسکے گا۔ اس بارے میں دو آرا نہیں ہوسکتیں کہ ملک کو حقیقی ترقی کی منزل کی طرف لے جانے کے لیے سیاسی استحکام ضروری بلکہ ناگزیر ہے۔ تحریک عدم اعتماد کا جو آپشن اپوزیشن استعمال کرنے جارہی ہے چونکہ غیرآئینی اور قواعد و ضوابط سے ماورا نہیں اس لیے حکومت کو بھی اس معاملے میں تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ یہ کہنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ وزیراعظم صاحب حالیہ دنوں میں اپنے بیانات میں یہ اشارہ دے چکے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کی صورت میں وہ اپوزیشن کے بارے میں سخت رویہ اختیار کرسکتے ہیں۔ یہ لب و لہجہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے ہاں ابھی جمہوری رویے کتنے ناقص ہیں۔جمہوریت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ عوامی نمائندگان کی رائے کا احترام کریں۔ اگر وزیراعظم کو ارکان پارلیمان کی مطلوبہ تعداد کا اعتماد حاصل ہے تو ان کے لیے پریشانی کی کوئی وجہ نہیں؛ تاہم اپوزیشن کی جماعتیں تو رہیں اپنی جگہ اگر حکمران جماعت کے اپنے ارکان کی ایک خاطر خواہ تعداد حکومت کے خلاف اٹھ کھڑی ہو تو اس پر کیا کہا جائے؟ حکومت کے خلاف چارج شیٹ میں سرفہرست مہنگائی ہے اور اس کے بعد تقریباً وہ سبھی مسائل ہیں جو ماضی کی حکومتوںمیں بھی تھے۔ مہنگائی چونکہ ماضی کی نسبت زیادہ ہے اور ان برسوں میں عوام کی آمدنی میں بھی کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا، اس لیے عوام کے لیے یہ مسئلہ سب سے زیادہ تشویشناک ہے۔ جہاں تک دیگر مسائل کی بات ہے تو بدعنوانی، سرکاری اداروں کی حالت زار، امن و امان کی ناقص صورت حال، بے روزگاری، معاشی بحران، یہ سبھی مسائل حکومت کی ناکامی کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ یہی وہ نکات تھے جن پر پیش رفت سے نیا پاکستان تخلیق کیا جانا تھا اور حکمران جماعت نے صرف عوام کی حمایت حاصل کرنے کی خاطر ان کی امیدوں کو اس حد تک بڑھاوا دے دیا تھا کہ لوگ کھلی آنکھوں سے یہ خواب دیکھنا شروع ہوگئے تھے کہ عمران خان کی حکومت آئے گی تو سب کچھ کرشماتی اند از سے بدل جائے گا۔ اس میں عوام کا کیا قصور ہے؟ ان کے سامنے منظر کشی ہی اتنی پُرکشش ہوتی تھی کہ وہ اس سحر میں گرفتار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ مگر حکومت بننے کے بعد جو دیکھا گیا وہ ناقابلِ یقین تھا۔ معاملات سنبھالے نہیں سنبھل رہے؛ چنانچہ عوام کی مایوسی دن بدن بڑھتی گئی۔ معاشی میدان میں بہتری کی جو امیدیں دلائی گئی تھیں وہ برعکس ثابت ہوئیں۔ قرضے بھی لیے گئے، روپے کی قدر بھی تاریخی حد تک پست کی گئی مگر نہ آئی ایم ایف کے قرض ملنے کے بعد حسب توقع ملکی معیشت پر عالمی اداروں اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوانہ ملک میں سرکاری اور صنعت کاری میں اضافہ ہوا۔ ایک ایسا ملک جس کی درآمدات برآمدات سے تقریباً دو گنا ہیں، وہ اپنی کرنسی کی قدر گراتا چلا گیا جس سے مہنگائی عود کر آئی اور کھانے کے تیل، بناسپتی گھی اور دالوں جیسی بنیادی ضرورت کی چیزوں کے نرخوں میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔ بدعنوانی کے خاتمے کا حکومت کا بنیادی نعرہ بھی کھوکھلا ثابت ہوا۔ مائیکر وسے میکرو لیول تک بدعنوانی میں اضافہ ہی ہوا۔ اشیائے ضروریہ پر ٹیکس بڑھا کر مہنگائی میں اضافہ کیا گیا مگر ٹیکس کی مد میں جمع ہونے والی رقوم قومی اداروں اور انسانی فلاح کے کاموں پر خرچ ہوتی نظر نہیں آئیں۔ بے شک تین، ساڑھے تین سال کا عرصہ کچھ ایسا طویل بھی نہیں مگر حکومتیں اگر درست اور دانشمندانہ فیصلے کریں تو اس دورانیے میں عوامی زندگی پر مثبت اثرات ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں پہیہ آگے کے بجائے پیچھے کو گھوما ہے۔ حکومت اپنی ناکامیوں اور کمزوریوں کو تسلیم کرنے سے بدستور کتراتی رہی ہے۔ حسب سابق ماضی کی حکومتوں کو ہر خرابی کا ذمہ دار قرار دیا یا پھر کورونا کی عالمگیر وبا کو، جس نے اگرچہ وطن عزیز کو اس طرح متاثر نہیں کیا تھا مگر حکومت کی ناکامی کے اسباب کہیں اور تھے۔ آج حکومت کے چوتھے برس میں اپوزیشن کی بنائی ہوئی گرائونڈ پر حکمران جماعت کے اپنے ارکان انہی ناقص فیصلوں کا مقدمہ لے کر کھڑے ہیں۔ ان حالات میں اگر وزیراعظم اپنے ماضی کے فیصلوں پر نظر ثانی کرتے ہیں اور اپنی جماعت کے رہنمائوں اور اتحادیوں کی رائے کو تسلیم کرلیتے ہیں تو اس سے ممکن ہے حکومت ایک وقتی دبائو سے نکل آئے مگرملکی اور عوامی مفاد کو دیکھیں تو اس کے باوجود کوئی بڑی تبدیلی، استحکام یا بہتری ممکن نظر نہیں آتی۔ وزیراعظم صاحب کی حکومت انہی فیصلوں کی پکڑ میں ہے۔

مصنف کے بارے میں