صنفی امتیاز۔ سات دن کی بیٹی گولیاں مار کر قتل

صنفی امتیاز۔ سات دن کی بیٹی گولیاں مار کر قتل

ریاست مدینہ کے داعی وزیراعظم عمران خان کے اپنے ضلع میانوالی میں 22 سالہ ملزم نے اپنی سات دن کی بیٹی کو فائرنگ کر کے 5 گولیاں مار کر ہلاک کر دیا، جسے پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔ ملزم بیٹی کی پیدائش پر خوش نہیں تھا،جس نے عینی شاہدین کے سامنے اپنی بیوی سے نومولود بیٹی کو چھین کر زمین پر پٹخااور پستول سے بچی پر فائر کر دئیے۔ بچی کی ماں اس واقعے کے بعد سے ہوش وحواس میں نہیں ہے۔ ملزم کی شادی صرف پونے دو سال پہلے ہی ہوئی تھی، میاں بیوی کے درمیان تعلقات خوشگوار تھے اور ملزم کی یہ پہلی بیٹی تھی اور اس سے پہلے انکی کوئی اولاد نہیں تھی۔پولیس کے مطابق ملزم کو بیٹے کی خواہش تھی اور بیٹی کی پیدائش پر وہ خوش نہیں تھا۔
پاکستان میں لڑکیوں کی پیدائش پر اس طرح کے واقعات پہلے بھی پیش آ چکے ہیں۔ پاکستان میں کئی ایسے علاقے ہیں جہاں بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دی جاتی ہے۔میانوالی کے ہی علاقے داؤد خیل میں گذشتہ سال مئی میں باپ نے اپنی تین معصوم بیٹیوں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ اولاد، اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ ارشادِباری تعالیٰ ہے ’’آسمانوں اور زمینوں میں اللہ ہی کی بادشاہی ہے، جو چاہتا ہے، پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے، لڑکیاں عطاء کرتا ہے اورجسے چاہتا ہے لڑکے بخشتا ہے‘‘۔اسکا مطلب ہے کہ چاہے بیٹا ہو یا بیٹی دونوں ہی عطیہ خداوندی ہیں اور کسی ایک کو محض جنس کی بنیاد پر زیادہ اہمیت نہیں دی جاسکتی۔سوال یہ ہے کہ کیا والدین اپنی بیٹیوں کو بیٹوں کے برابر اہمیت دیتے ہیں؟افسوس کہ اسکا عمومی جواب نفی ہی میں ملے گا۔حیرت ہے کہ اہلِ مغرب میں بھی بیٹیوں سے زیادہ بیٹوں کی خواہش کی جاتی ہے۔امریکا میں 1940ء سے 2011ء کے دوران تقریباً ستّربرس کے عرصے میں دس بار ایک ہی سروے کیا گیا، جس میں نئے شادی شدہ جوڑوں سے پوچھا کہ اْنھیں بیٹے کی خواہش ہے یا بیٹی کی ہے، تو 28فی صد نے بیٹی اور 40فی صد نے بیٹوں کی خواہش ظاہر کی۔ یورپ اور امریکا میں کئی فلاحی ادارہ قائم ہیں، جووالدین کو اولاد کے معاملے میں صنفی امتیاز سے مبرا ہونے کی طرف راغب کر رہے ہیں، اسکے باوجود والدین بیٹوں کی زیادہ خواہش رکھتے ہیں ۔ ہمارے یہاں بھی زیادہ تر گھرانوں میں بیٹوں کو فوقیت دی جاتی ہے اور دلیل کے طور پرکہا جاتا ہے کہ بیٹا بڑا ہو کر باپ کا بازو بنے گا، بیٹی نے تو پرائے گھر چلے جانا ہے۔دوسری اہم وجہ اْن سے خاندان کی نسل کاچلناہے، جبکہ بیٹیاں شادی کے بعد باپ کے نام کی جگہ شوہر کا نام لگا کر دوسرے خاندان میں شامل ہوجاتی ہیں۔ البتہ باپ کا نام بیٹے کے ساتھ اور پھر نرینہ اولاد کے ذریعے یہ سلسلہ یوں ہی آگے بڑھتا رہتا ہے۔ یہ ایک ایسی سوچ ہے، جسکا بدلا جانا بہت ضروری ہے۔ اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ مرنے کے بعد بھی اسکا نام زندہ رہے، تو اسکابہترین طریقہ اعلی کردار و عمل اورصدق جاریہ کا اجراء ہے، نہ کہ بیٹے بیٹی میں تخصیص برتی جائے۔
جسمانی طور پر مَرد کوعورت سے زیادہ طاقتوَر ہونے کیوجہ سے کچھ فوقیت ہے، وہ ایسے کام زیادہ بہتر طریقے سے انجام دے سکتا ہے، جن میں زیادہ جسمانی مشقّت کی ضرورت ہوتی ہے، مگر جب مرد و عورت کے دماغ پر تحقیق کی گئی تو نتائج کے مطابق خواتین ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ کام کرنے کی صلاحیت زیادہ رکھتی ہیں۔وہ لطیف جذبات کا اظہار مرد کی نسبت زیادہ بہتر الفاظ میں کرسکتی ہیں اور اپنی اِسی خصوصیت کے باعث متعدّد رشتے بڑی عمدگی سے نبھاتی ہیں۔ اگرچہ مرد کا دماغ عورت کے دماغ سے دس گْنا بڑاہوتا ہے، لیکن عْمر بڑھنے کے ساتھ جلد سکڑنا شروع ہوجاتا ہے۔خواتین میں کوئی بات یاواقعہ زیادہ تفصیل سے یاد رکھنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ مرد کا دماغ سائنسی، جبکہ عورت کا دماغ سماجی علوم سمجھنے کی زیادی اہلیت رکھتا ہے۔تحقیق کے مطابق یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ دماغی طور پر بیٹیاں کسی بھی طور بیٹوں سے کم نہیں ہوتیں۔اس ساری بحث کا مقصد کسی کی اہمیت کم یا زیادہ کرنا ہرگز نہیں، بلکہ یہ واضح کرنا ہے کہ چاہے بیٹا ہو یا بیٹی دونوں ہی کی اپنی اپنی جگہ اہمیت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء میں واضح طور پر فرمایا ہے،’’اے لوگو! اپنے ربّ سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اْسی جان سے اْسکا جوڑا بنایا اوراْن دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں۔‘‘ سرکارِ دوعالمؐ کو یہ بات سخت ناپسند تھی کہ بیٹیوں کے مقابلے میں بیٹوں کے ساتھ ترجیحی سلوک کیا جائے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا ’’اے لوگو! اپنی اولاد کے ساتھ انصاف کرو۔‘‘ آپؐ نے اولاد کے درمیان عدم مساوات کو سخت ناپسند کیا اور اسکی حوصلہ شکنی فرمائی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘‘ جس نے دو بچّیوں کی جوان ہونے تک پرورش کی ،قیامت کے روزمَیں اور وہ اِن دو انگلیوں کی طرح اکٹھے ہوں گے اور آپ نے انگلیوں کوباہم ملایا۔‘‘( صحیح مسلم )۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹی کو ’’رحمت‘‘ کہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی تلقین فرمائی کہ ’’جب باپ کوئی چیز لے کرگھرجائے، تو بچّوں میں سے پہلے بیٹی کو دے۔‘‘ لہٰذا بیٹیوں سے صنفی امتیاز روا رکھنا اللہ تعالیٰ کے احکام اور سرکارِ دوعالمؐ کی تعلیمات کا انحراف ہے، بیٹیوں کوبھی اْتنا ہی پیار دیں جتنا بیٹوں کو دیتے ہیں۔اْن میں خود اعتمادی پیدا کریں اورانہیں یہ احساس دلائیں کو وہ آپ کیلئے رحمتِ ہیں، بوجھ ہرگزنہیں ہیں۔
خواتین پرتشدد سے بچاؤ، تعلیم، وومن ایمپاورمنٹ،مساوی حقوق و مواقع یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ اسلام خواتین کی عزت ، احترام اور حفاظت کا درس دیتا ہے، خواتین کے حقوق اسلام کی بنیادی اقداراور سیرت رسول اکرمؐ سے رہنمائی حاصل کرکے عملی بنانا ہوگا۔ خواتین کے حقوق کے قوانین پر حقیقی معنوں میں عملدرآمد کرنا ہوگا جبکہ خواتین کے حقوق اور وراثت میں حصہ بھی یقینی بنانا ہوگا۔ ماں جنت، بہن عزت، بیٹی رحمت ہے۔ بیٹی کی تعلیم ایک نسل کی تعلیم ہے۔ ہماری خواتین قومی اورعالمی سطح پر ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کوثابت کررہی ہیں،مختلف شعبوں میں پاکستانی خواتین کی جدوجہد مشعل راہ ہے ۔ خواتین کو مساوی حقوق، مواقع اور سازگار ماحول فراہم کیاجانا ضروری ہے۔خواتین کو حاصل آزادیوں کا تحفظ کرتے ہوئے انکے معاشی ، قانونی، سماجی اور معاشرتی حقوق کے حصول اور تحفظ کی جدوجہد جاری رکھی جائے اور پائیدار سماجی و معاشی ترقی کیلئے خواتین کومحفوظ اورخوشحال زندگی فراہم کرنا ہوگی۔

مصنف کے بارے میں