باری خادم اعلیٰ کی

 باری خادم اعلیٰ کی

عوام اب تبدیلی چاہتے ہیں یہ وہ تبدیلی نہیں جس کا ذکر عمران خان کنٹینر پرچڑھ کر ہر جلسے میں کیا کرتے تھے بلکہ زمینی حقائق پر مبنی، حقیقت پر منحصر اور ووٹر فرینڈلی تبدیلی چاہتے ہیںسودن کا چیلنج پورا نہ ہو سکا، فیس ٹو بھی ایک خواب بن کر رہ گیا،وہ نوکریاں جن کا وعدہ کیا تھا وفا نہ ہوسکا بلکہ کرونا کی وبا نے بیساکھیوں پر چلتی معیشت کی کمر توڑ دی۔ موجودہ سیاسی صورتحال خاصی پیچیدہ ہے کیونکہ سیاسی جوڑ توڑ اپنے عروج پر ہے۔کبھی لگتا ہے اتحاد سب پر بازی لے گیا ہے تو اگلے ہی دن علیم خان اور جہانگیر ترین کی ملاقات سیاسی منظر نامے پر ایک نئی کروٹ لیتی ہے۔ وہ تمام لوگ جو سیاسی بصیرت رکھتے ہیں ایک بار پھر سوالی بن جاتے ہیں کہ اب کیا ہونے جا رہا ہے؟؟ خیر یہ معاملہ زیادہ طول نہیں پکڑتا اور جہانگیر ترین کا ایک وفد چوہدری برادران سے ملنے کے لیے پہنچ جاتا ہے۔ اگر اس صورتحال سے یہ اخذ کر لیا جائے کے اگلے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی ہوں گے تو اس کے قوی امکانات ہیں،کیونکہ لگتا ہے حکومت کے فارورڈ بلاک نے بھی چودھری پرویز الٰہی کو منتخب کر لیا ہے۔ ایسے موقع پر سیاسی فیورٹ ازم بھی سامنے آ رہا ہے اور ہر پارٹی اپنی پسند کا وزیراعلیٰ پیش کر رہی ہے۔ اگر ہم ماضی کے ورک پلٹ کر دیکھیں تو حقائق کچھ یوں ہیں:آئی پی او آر سروے کے مطابق موجودہ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کو ان کی کارکردگی پر عوام نے 51 فیصد اطمینان بخش قرار دیا ہے جبکہ 49 فیصد نے عدم اعتماد کا اظہار کیا۔
دوسری جانب پاکستان میں2013 سے 2018 میں شاید ہی کوئی سیاسی شعور رکھنے والا شخص ایسا ہو جو شہباز شریف کو نہ جانتا ہو۔ ان کا مغربی انداز میڈیا کی زینت بنا رہتا تھا وہ ٹوپی اور بوٹ پہن کر لوگوں کی مدد کے لیے سیلابی علاقوں میں نکل جاتے تھے۔ انہوں نے ترقیاتی پروگرام امن اور نظم و نسق، بجلی یار اورانتظامی ماحولیاتی استحکام، شفافیت، پانی کے ذرائع کی دیکھ بھال، قبرستانوں کی چاردیواری جیسے کئی کام کیے جس کی وجہ سے آئی آر آئی اور آئی پی او آر اور پھر  پلڈاٹ کے سالانہ جائزے 2015 تا 2016 نے ان کے طرز حکومت کو اعلی قرار دیا۔اگر محنت کی ہو کام کیا ہو تو کارکردگی چھپ نہیںسکتی۔سن 2002 سے 2007 میں پنجاب کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے چودھری پرویزالٰہی کو ان کے لبرل ازم، جدیدیت کے فلسفے، دہشت گردی کے خاتمے اور صوبے میں امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے سختی کے لیے قومی اور بین الاقوامی شہرت اور پذیرائی ملی۔ان کے انقلابی اقدامات جیسے پڑھا لکھا پنجاب، ریسکیو 1122، ٹریفک وارڈن سسٹم، انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی اینڈ چلڈرن کمپلیکس کا قیام، آبپاشی کا نظام اور لاہور رنگ روڈ منصوبہ ان کے نمایاں کارنامے تھے۔ ان اقدامات کو ورلڈ بینک اور دیگر ڈونر ایجنسیوں کی جانب سے سراہا گیا۔
کوئی بھی ملک جمہوریت میں خوب ترقی پاتا ہے اور دیکھا جائے تو اب حکومت کا وقت پورا ہونے میں بھی ایک سال اور کچھ ماہ ہی باقی ہیں۔ پارٹی کو متحد رکھنا قیادت کی ذمہ داری ہے ہارس ٹریڈنگ جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہے۔ جوڑ توڑ کرنے میں فائدہ تو ہو سکتا ہے لیکن ملکی فائدہ کسی طور نہیں ہو سکتا۔ حالات حاضرہ میں عمران خان کے لیئے مفید ترین مشورہ یہی ہے کہ جہانگیر ترین اور علیم خان سے بات چیت کریں حکومت کی اس ڈولتی کشتی کو کسی پار لگایا جا سکے۔ جب تک عثمان بزدار کو پارٹی اراکین اور اتحادیوں کی حمایت حاصل رہے گی تو وہ وزیراعلی رہیں گے۔ ویسے عوام کو عثمان بزدار، علیم خان، شہباز شریف یا کسی اور میں دلچسپی نہیں ہے اور انہیں فکر ستا رہی ہے کہ اگر کوئی تبدیلی آتی ہے تو کیا اس سے کوئی بہتری بھی آئے گی یا صرف تبدیلی کے نام پر تنگی۔

مصنف کے بارے میں