پاکستان میں پٹرول کی قیمت 240 روپے ہونی چاہیے مگر ہم سبسڈی دے رہے ہیں: شوکت ترین 

پاکستان میں پٹرول کی قیمت 240 روپے ہونی چاہیے مگر ہم سبسڈی دے رہے ہیں: شوکت ترین 
سورس: File

لاہور: وفاقی وزیرخزانہ سینیٹر شوکت ترین نے کہاہے کہ ملکی معیشت کومضبوط کرنے کے لئے ایسا روڈ میپ بنا رہے ہیں جسے آنے والی کوئی حکومت بھی ختم نہیں کرسکتی غریب عوام کی محرومیاں ختم کرنے کے لیے انقلابی اقدامات کررہے ہیں ۔ خصوصی اقتصادی زونز میں سرمایہ کاری کیلئے بیرونی سرمایہ کاروں کو ترغیب دے رہے ہیں۔

ایوان کارکنان تحریک پاکستان میں ایک سیمینار سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے شوکت ترین نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات پر104ارب روپے ماہانہ کی سبسڈی دے رہے ہیں ۔ اس موقع پر صحافی مجیب الرحمن شامی ، جسٹس (ر) محبوب احمد فاروق الطاف مہناز رفیع شاہد رشید معروف صنعتکار افتخار علی ملک سمیت شہریوں کی کثیر تعداد موجود تھی۔ 

وفاقی وزیرخزانہ نے کہا کہ حکومت نے عوام کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریلیف دیا ہے، عالمی منڈی میں خام تیل کے حوالے سے پٹرول کی قیمت 240روپے لیٹرہونی چاہیے لیکن ہم 150روپے لیٹر میں عوام کو پٹرول دے رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہماری معیشت درست سمت میں جارہی تھی کہ بدقسمتی سے کورونا کے دوران دوسرے ممالک کی طرح ہمیں بھی معاشی طور پر نقصان اٹھاناپڑا لیکن اس کے باوجود حکومت کی مثبت پالیسیوں سے ہمیں بیرونی دنیاکے مقابلے میں زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا جس کا کریڈٹ موجودہ حکومت کوجاتاہے۔

انہوں نے کہا کہ اب معاشی اعشاریئے بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم تین شعبوں پرزیادہ توجہ دے رہے ہیں جن میں زراعت برآمدات اوردرآمدات میں توازن قائم کرنے اور بچت کی شرح شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہماری شرح نمو ہر 4 سے 5سال بعد گر جاتی ہے جس سے درآمدات اور برآمدات میں خلا بڑھ جاتاہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے 22کروڑ عوام میں سے صرف 30لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں جو کہ دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔انہوں نے کہا کہ ٹیکس ناہندگان کاخوف دور کرنے کے لئے ٹیکس نظام میں آسانیاں لا رہے ہیں جس کے لئے ٹیکس اصلاحات پر کام جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ 60کی دہائی میں پاکستان کی معیشت عالمی سطح پر چوتھے نمبر پر نشوونما پا رہی تھی اور پاکستانی کرنسی کی ویلیو بھارت کے مقابلے میں زیادہ تھی لیکن اغیارکی جنگ میں حصہ لینے سے ہماری معیشت گرناشروع ہو گئی ۔ انہوں نے کہا کہ سابق حکومت نے مصنوعی طور پر کرنسی ویلیو کو ایک ہی جگہ پر رکھا جس کے نتیجے میں ہماری ایکسپورٹس کم اور امپورٹس بڑھ گئیں ۔

شوکت ترین نے کہا کہ حکومت کو بیرونی قرضے اتارنے کے لئے مجبورا آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا ،بچت کی شرح کم ہونے سے ہمیں مجبورا ادھار لینا پڑتا ہے ،ماضی میں معیشت کومستحکم کرنے کے لئے طویل المدت پالیسیاں نہیں بنائی گئیں ۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ معیشت کی ترقی کیلئے ہمیں زرعی شعبے سے بہت سی توقعات ہیں، گندم سمیت دیگر اجناس کی پیداوار حوصلہ افزا ہے۔

انہوں نے کہا کہ زراعت کے علاوہ لائیو سٹاک انڈسٹریز اورملکی سطح پر تیار کی جانے والی مصنوعات کی برآمدات میں بھی حوصلہ افزا نتائج کی توقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے 14شعبوں پر پلاننگ کروائی ہے تاکہ معیشت کو اوپر لے جایا جا سکے۔ آئی ٹی سیکٹر کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس شعبہ میں گروتھ ریٹ 47فیصد تھی جورواں سال بڑھ کر 70فیصد جبکہ اگلے سال 100فیصد تک جانے کا امکان ہے۔

انہوں نے کہا کہ دورہ چین کے دوران ہم نے چینی حکام کوتجویز دی ہے کہ وہ پاکستان میں ہمارے صنعتی زونز میں صنعتیں لگائیں تاکہ ہمارے نوجوانوں کو بھی روزگار میسر آسکے،حکومت کے فلاحی کاموں کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ صحت کارڈ کے ذریعے فی خاندان کو 10لاکھ روپے سالانہ علاج کی سہولت فراہم کی گئی ہے جو حکومت کابہت بڑا فلاحی پروگرام ہے، کامیاب جوان پروگرام کے ذریعے نوجوانوں کو 50ارب روپے کے چھوٹے قرضے دیئے تاکہ وہ کاروبار کر کے اپنے پائوں پر کھڑا ہوسکیں۔

انہوں نے کہا کہ کاشتکاروں اورچھوٹے دکانداروں کو5لاکھ روپے بلاسود قرضے جبکہ گھر بنانے کے لئے 27لاکھ روپے کے قرضے دیئے جا رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد غریب آدمی کو اپنے پاؤں پر کھڑاکرناہے تا کہ انہیں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے چھٹکارا دلایا جا سکے۔

مصنف کے بارے میں