کینیڈین بیوروکریسی اور دفاتر

Mohsin Goraya, Pakistan, Naibaat newspaper,e-paper, Lahore

بیوروکریسی کوافسر شاہی کا نام دیں،نوکر شاہی کہیں یا انتظامی مشینری مگر بیوروکریسی کسی بھی ملک کے نظام اور حکومت کا چہرہ ہوتی ہے،اسی لئے سرکاری مشینری کو انتظامیہ کا نام دیا جاتا ہے اور اس کی اہمیت کے باعث اسے ریاست کا تیسرا ستون قرار دیا گیا ہے،تا ہم جس جس ریاست کابیوروکریٹک نظام مضبوط اور مستحکم ہوتا ہے وہ ریاست اور حکومت مستحکم اور موثر ہوتی ہے،اس کی ایک مثال آج کی دنیا میں کینیڈا ہے،جہاں وفاق صرف صوبائی اکائیوں کو متحد اور یکجا رکھنے کا ذمہ دار ہے،دفاع،کرنسی،امور خارجہ، ٹیکس،کسٹمز،ایکسائز کی وصولی اور صوبوں سے محصولات میں سے مخصوص حصہ لیتا ہے مگر تعلیم،صحت کیساتھ بنیادی ضروریات کی فراہمی کیلئے فنڈنگ اور پالیسی سازی اس کی ذمہ داری ہے باقی تمام نظام و انصرام صوبے سنبھالتے ہیں،محکموں کی تعداد بھی حیرتناک حد تک کم ہے،جس کی وجہ سے شہریوں، صارفین، تاجروں،صنعتکاروں،زمینداروں اور عام لوگوں کے مسائل ایک ہی چھت تلے بر وقت بغیر رشوت سفارش کے ہو تے ہیں،شہریوں کے مسائل کا فوری حل ریاستی مشینری اپنا فرض اور شہریوں کا حق گردانتی ہے،اور شہری قانون کے مطابق ٹیکس ادائیگی اور قوانین کا احترام فرض جانتے ہیں اسی وجہ سے اس ملک کو جنت ارضی کہا جائے تو شائد غلط نہ ہو گا۔
اس کے مقابلے میں وطن عزیز کی صورتحال کا جائزہ لیں تو محکموں،قوانین اور قواعد و ضوابط کی بھر مار کے باوجود شہریوں کے مسائل مسئلہ لا ینحل ہیں،شہری ایک یوٹیلیٹی بل کی درستی کیلئے کئی کئی روز درجنوں دفاتر کے دھکے کھاتا وقت اور روپے ضائع کرتا ہے مگر اس کا مسئلہ جوں کا توں رہتا ہے،آخر کار اسے رشوت یا سفارش کا سہارا لینا پڑتا ہے،یہ بات بھی اب کھلا راز ہے کہ قواعد و ضوابط میں سقم اور ابہام قانون ساز دانستہ چھوڑ دیتے ہیں تاکہ عوام اپنے معمولی نوعیت کے کاموں کیلئے ان کے ڈیرے یا دفاتر کے چکر لگاتے رہیں اور محسوس کریں کہ یہی منتخب یا غیر منتخب شخصیت ہماری نا خدا ہے،اور پھر نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اس سیاسی شخصیت کے در کا چاکر بن جاتا ہے،یا پھر رشوت دیتا یا سفارش تلاش کرتا ہے،ہمارے ہاں حکومتوں کی ناکامی اورآئینی مدت پوری نہ کرنے کی ایک وجہ قوانین کے یہ سقم اور ابہام بھی ہیں۔
کینیڈا میں صرف تین اہم دفاتر ہیں جو ریاستی نظام کیساتھ عوامی مسائل کا حل بھی تلاش کرتے ہیں،جس کی وجہ سے عوام کے مسائل استحقاق کی بنیاد پر از خود حل ہو پاتے ہیں،رشوت یا سفارش کا اس ملک میں تصور نہیں،اپنے معمولی مسائل کے حل کیلئے شہری منتخب نمائندوں کے گھر دفتر ڈیرے پر جانے کا سوچ نہیں سکتے،کینیڈا میں ایک محکمہ کینیڈا ریونیو ایجنسی ہے جو ٹیکس او ر مالی معاملات کو دیکھتا ہے،مگر ٹیکس کولیکشن صوبوں کی ذمہ داری ہے جو وصولی کر کے دیانتداری سے وصول شدہ رقم وفاق کے حوالے کرتے ہیں،وفاق ان رقوم میں سے صحت تعلیم اور بنیادی انسانی ضروریات کیلئے صوبوں میں امیر غریب کا فرق کئے بغیر مساوی فنڈز تقسیم کرتا ہے،تعلیمی پالیسی وفاق بناتا ہے عمل درآمد صوبے کرتے ہیں،صحت کی پالیسی بھی وفاق تشکیل دیتا ہے صوبے صرف اس پالیسی پر عملدرآمد کے پابند ہیں،انسانی حقوق کے حوالے سے ایک بہت جامع، واضح،متفقہ پالیسی موجود ہے جس میں وفاق یا صوبوں کو ترمیم کا اختیار حاصل نہیں مگر صوبے اس قانون کو کچھ عرصہ کیلئے معطل کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
وفاقی معاملات کو سروس کینیڈا اور صوبائی معاملات کو اس محکمے کا صوبائی دفتر دیکھتا ہے،میں کینیڈا کے صوبے اونٹاریو میں ہوں یہاں صوبائی دفتر سروس اونٹاریو کہلاتا ہے، آپ چاہیں تو آن لائن اپنا کام کرا لیں یا ان دفاتر کا وزٹ کر لیں آپ کا کام بآسانی منٹوں میں ہو جاتا ہے۔میری فیملی نے نئی گاڑی لی تو آپ کو چند منٹوں میں گاڑی کی رجسٹریشن اور نمبر پلیٹ مل جاتی ہے۔ بلدیاتی،شہری اور دیہی ترقی کیلئے میونسپل کا ایک مضبوط نظام موجود ہے جو حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود خدمات انجام دیتا رہتا ہے،یہ کارپوریشنز اور کمیٹیاں چھوٹی ہوں یا بڑی اپنے اپنے دائرہ کار میں با اختیارہوتی ہیں،وفاق یا صوبے ان کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتے،فنڈز اگر چہ وفاق دیتا ہے مگر تقسیم صوبے کرتے ہیں،اس حوالے سے کبھی کسی کو شکایت کا موقع نہیں ملاہر کاپوریشن کو ضرورت کے مطابق ترجیحی طور پر فنڈز فراہم کئے جاتے ہیں تاکہ شہریوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی تسلسل سے جاری رہے اور اس میں کسی بھی صورت خلل نہ آئے،دلچسپ بات یہ کہ مقامی حکومتوں کے معاملات میں منتخب قومی و صوبائی نمائندے مداخلت نہیں کر سکتے،سب اپنے اپنے دائرہ اختیار میں آزاد ہیں یہی اس نظام کی خوبصورتی اور کامیابی ہے،اسی وجہ سے شہریوں کو ہر قسم کی سہولت بلا تاخیر اور از خود سسٹم کیساتھ فراہم ہوتی ہے،بغیر رشوت اور سفارش کے۔میرا ایک کزن عابد علی سندھو بھی یہاں رہتا ہے وہ پاکستان میں اپنے چھوٹے سے علاقے کا ناظم تھا اور ہر وقت اس کے پیچھے لوگوں کی اپنے کام کرانے کے لئے لائنیں لگی رہتی تھیں،یہاں کوئی کسی ممبر پارلیمنٹ کو بھی نہیں پوچھتا،عابد سندھو نے ہنستے ہوئے بتایا کہ میاں چنوں میں کام کرانے کے لئے لوگ منتخب لوگوں کے پیچھے پیچھے ہوتے تھے یہاں منتخب نمائندے کام کرنے کے لئے آپ کے پیچھے پیچھے ہوتے ہیں۔
کینیڈا کی آزادی کی تحریک1867ء میں شروع ہوئی اور 1982ء میں اسے برطانوی راج سے مکمل آزادی ملی،تاہم ملکہ برطانیہ آج بھی ریاست کی آئینی سربراہ ہیں،مگر یہاں پارلیمانی جمہوریت رائج ہے،برطانوی اور فرانسیسی کلچر مروج ہے،انگلش اور فرنچ دو قومی زبانیں ہیں،مختلف خطوں کے تارکین وطن کی آماجگاہ یہ ملک کثیرالثقافتی ملک ہے،معیشت کا زیادہ انحصار قدرتی وسائل،تجارت اور صنعت پر ہے،دس صوبوں اور تین ریاستوں پر مشتمل اس ملک میں صوبوں کو بہت زیادہ اختیارات حاصل ہیں،تاہم ریاستوں کی آزادی محدود ہے،سماجی نوعیت کے تمام پروگرام صوبوں کی ذمہ داری ہے،تاہم پالیسی سازی وفاق کی ذمہ داری ہے مگر صوبے اس پالیسی سے اپنی مرضی کی پالیسی منتخب کر سکتے ہیں،پالیسی میں لچک کیساتھ جامعیت بھی ہوتی ہے جس کی وجہ سے پسند نا پسند ممکن ہو تی ہے،کینیڈا کی اصل خوبصورتی تحمل برداشت رواداری احترام اور مسکراہٹ کا تبادلہ ہے،ہمیں اسلام نے حکم دیا کہ کہ سلام کو رواج دو جب ایک دوسرے سے ملو تو جان پہچان ہو یا نہ ہو ایک دوسرے پر سلامتی بھیجو مگر ہم نے اس بھائی چارے کو فروغ دینے والی روائت کو فراموش کر دیا مگر کینیڈا کے معاشرہ میں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانا اور ہیلو کہنا ایک مستقل روایت ہے،اس روایت نے مختلف رنگ نسل مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے۔
کینیڈا کی سرکاری یا انتظامی مشینری کے ہر کارکن اور افسر کیلئے صارفین اور شہریوں کیلئے خوش اخلاقی کا مظاہرہ بھی ایک امتیازی خصوصیت ہے، دفاتر میں آنے والے کسی شہری کیساتھ تلخی سے بات کرنا نہ صرف معیوب بلکہ غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔