خزاں کی پشت پہ لکھے بہار کا قصہ

خزاں کی پشت پہ لکھے بہار کا قصہ

مہنگائی کی دن بہ دن بڑھتی ہوئی لہر نے پاکستان کی غریب عوام سے روٹی کا نوالہ تک چھین لیا ہے۔شہروں سے لے کر قصبوں تک بے روزگار نوجوانوں کے غول کے غول پھر رہے ہیں۔۔ پاکستان میں آج تقریباً ہر تیسرا چوتھا فرد ڈپریشن، مایوسی اور افسردگی یا ذہنی عدم توازن کا شکار ہے۔ معاشرے میں ڈپریشن کا مرض حد سے زیادہ عام ہوتا جا رہا ہے۔ تنگ دست، خوش حال، ان پڑھ، تعلیم یافتہ حتیٰ کہ دینی فہم اور مزاج رکھنے والے بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ڈپریشن کی وجہ سے دنیا میں روزانہ کئی افراد خودکشی اور خود سوزی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ ایک مطالعے کے مطابق 2026 تک ڈپریشن دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بن جائے گا۔درحقیقت مایوسی ہماری خواہشات کا سائیڈ ایفیکٹ ہے۔ بے بسی و لاچاری کی ایک کیفیت کا نام مایوسی ہے۔ڈپریشن دراصل اس بات کی علامت ہے کہ ہر فرد داخلی طور پر شدید بحران کا شکار ہے اس کا شعور، لاشعور سے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے شدید اذیت میں مبتلا ہے۔یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے حقیقی مسلمان کبھی ڈپریشن کا شکار نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ ایک مسلمان کا ایمان ہے کہ اس کی زندگی اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہے،اس کا مقصدِ حیات اللہ کی عبادت اور اطاعت ہے اور اس کی زندگی میں پریشانیاں اس کی آزمائش کے لیے آتی ہیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:”اور ہم تمھیں دکھ اور سکھ سے آزما رہے ہیں، پرکھنے کے لیے اور تم ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے۔“(الانبیا۱۲: ۵۳) یہ بات ایک اٹل حقیقت ہے کہ رب ذوالجلال کی طرف سے آنے والے تمام مصائب کی شدت کبھی انسان کے تحمل کی حد سے باہر نہیں ہوتی۔ فرمانِ الہٰی ہے:”ہم کسی جان پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے۔“ (الانعام ۶: ۲۵۱)چنانچہ، مسلمان مصائب کو زندگی کا لازمی حصہ سمجھتا ہے اور مصائب سے گھبرا کر زندگی سے بیزار ہونے کے بجائے ان سے نجات پانے کے لیے پوری اور مسلسل کوشش کرتا ہے مسلمان کا معاملہ تو  بقول شاعر ایسا ہے کہ:
خزاں کی پشت پہ لکھے بہار کا قصہ
وہ غم زدہ ہے،مگر خوش قیاس کتنا ہے
ایک مومن کو یہ بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ اس کی دنیاوی زندگی کی پریشانیاں عارضی ہیں اگر وہ ناساز گار حالات میں بھی اپنے ایمان اور اعمالِ صالح پر قائم رہے گا تو مرنے کے بعد ہر غم سے پاک انتہائی پرمسرت، ابدی زندگی کا حق دار ہو گا جس کی بشارت دو جہاں کے پروردگار نے دی ہے:بے شک ہم تمھارا امتحان کریں گے کسی قدر، خوف، بھوک، مال اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور ان ثابت قدموں کو خوش خبری سنا دو جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ بے شک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی عنایتیں ہیں اور رحمت، اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔“ (البقرۃ: ۵۵۱ تا ۷۵۱)حضرت ایوب علیہ السلام مال، اولاد اور خدام سے محروم ہونے کے علاوہ ایک بہت تکلیف دہ جسمانی آزار میں بھی مبتلا ہوگئے۔ ایوب علیہ السلام کے تلوے سے سر تک سارے جسم میں جلتے ہوئے پھوڑے نکل آئے۔ وہ ایک ٹھیکرا لے کر اپنا جسم کھجاتے اور راکھ پر بیٹھے رہتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود آپؑ ایمان کی چٹان ثابت ہوئے۔ خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کو مشرکینِ مکہ نے آگ کے انگاروں پر لٹایا، یہاں تک ان کی چربی پگھلنے سے آگ بجھ گئی، لیکن وہ ایمان پر جمے رہے۔ بلال رضی اللہ عنہ کو لوہے کی زرہ پہنا کر چلچلاتی دھوپ میں کھڑا کر دیا گیا، پھر تپتی ریت پر لٹا کر گھسیٹا گیا،مگر وہ احد احد ہی کرتے رہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو سخت ایام کو عبادتِ الہٰی کا ذریعہ بنا لیتے تھے۔مسلمان کی زندگی میں کیسی ہی ناکامیاں کیوں نہ آئیں اور ظاہری اسباب کیسے ہی نامساعد کیوں نہ ہوں، وہ کبھی ناامید نہیں ہوتا۔ وہ اجاڑ موسم میں بہار دیکھتا ہے،تپتے صحرا میں آبشار دیکھتا ہے،سوکھی ہوئی شاخ میں شجرِ سایہ دار دیکھتا ہے، اس لیے کہ اس کا ایمان ہے کہ:”اللہ کی رحمت سے مایوس تو بس کافر ہی ہوتے ہیں۔“ (یوسف ۲۱: ۷۸)مسلمان اس رمز سے آشنا ہوتا ہے کہ اس دنیا میں سب کچھ اللہ ہی کے اذن اور ارادے سے ہوتا ہے اور اللہ کا کوئی ارادہ خیر اور حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ اس لیے مسلمان ہر زحمت میں رحمت دیکھتا ہے اور ہر زخم میں مرہم پالیتا ہے۔
بقول شاعر:
مٹی کی مورتوں کا ہے میلہ لگا ہوا 
آنکھیں تلاش کرتی ہیں انسان کبھی کبھی
آزمائشیں تو ہر ذی روح کی زندگی میں آتی ہیں۔ہم زندگی کے بیشتر مقام میں آزمائے جاتے ہیں۔ہماری زندگی میں جاری غموں اور خوشیوں کا انحصار ہماری سوچ اور حکمت عملی پر ہے ہم کیسے ان کا سامنا کرتے ہیں۔ وہ پروردگار اگر موسیٰ علیہ السلام کے لیے سمندر کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتا ہے تو ہماری زندگی میں موجود پریشانیاں اور تکالیف بھی دور کرنے پر قادر ہے۔ وہ ذات جو ابراہیم علیہ السلام کو آگِ نمرود سے زندہ نکال لیتی ہے تو کیا وہی ذات ہماری زندگی کے مسائل حل کرنے پر قادر نہیں ہے۔وہ جو یونس علیہ السلام کو چالیس دن تک مچھلی کے پیٹ میں  رکھنے کے بعد سے زندہ نکال لائی اس کے لیے یہ چھوٹی چھوٹی باتیں کیا معنی رکھتی ہیں۔ ہمارا یقینِ کامل ہی ہمیں بچاتا ہے، توکل ہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے آگ ٹھنڈی کرا لی گئی۔ یہ توکل ہی کا صلہ تھا کہ ایک شیر خوار کے ایڑیاں رگڑنے پر آبِ زم زم جاری کر دیا گیا،یوسف علیہ السلام کا یعقوب علیہ السلام سے ملنا، شدید طوفان میں کشتیِ نوح کا پار ہونا کیا توکل ہی کی وجہ سے ممکن نہیں ہوا۔جو ذات یوسف علیہ السلام کے لیے بند در وا کر دیتی ہے، جو ذات یوسف علیہ السلام کو اندھیرے کنویں سے نکالتی ہے،وہی پھر ان کو مصر کا بادشاہ بنا دیتی ہے۔ لیکن کنویں میں گرنے سے لے کر شاہِ مصر بننے تک کا سفر انہوں نے بھی شدید آزمائشوں اور مشکلات میں گزارا۔ غلام بنا کر بیچ دیے گئے تو کبھی بے گناہ قید میں ڈال دیے گئے مگر ان کا توکل کسی مقام پر نہی ڈگمگایا اور وہی توکل ہی انہیں شاہِ مصر کے مقام تک لایا۔مشکلیں اور آزمائشیں ہمیشہ ہی کچھ وقت بعد ختم ہو جایا کرتی ہیں،راستے بھی کھل جایا کرتے ہیں،جس طرح سونا آگ میں تپ کر کندن بن جاتا ہے اسی طرح مشکلات اور آزمائشیں بھی انسان کو مضبوطی اور استقامت بخشتی ہیں۔ایک سچے مسلمان کو یہ بھروسہ اور اعتماد ہونا چاہئے کہ اللّٰہ ہے اور ہر پل اس کے ساتھ ہے ساری مشکلیں ساری پریشانیاں وہی حل کرے گا۔

مصنف کے بارے میں