پنجاب کا ساتواں آئی جی!

پنجاب کا ساتواں آئی جی!

پنجاب میں ایک بار پھر آئی جی اور چیف سیکرٹری کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ موجودہ حکمرانوں نے خصوصاً پنجاب میں مختلف اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کا جو عرصہ یا ’’ٹینور‘‘ فکس کر رکھا ہے اس کے مطابق آئی جی انعام غنی اور چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک نے میرے حساب سے ’’تین ٹینور‘‘ مکمل کئے۔ بے شمار اہم عہدوں پر موجودہ حکمرانوں نے تعیناتی کا عرصہ اب زیادہ سے زیادہ تین ماہ کا کردیا ہے۔ اللہ جانے آئی جی انعام غنی اور چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک کے پاس کیا گیڈر سنگھی تھی ایک سال تک حکمرانوں نے انہیں تبدیل کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ جس اعتماد کے ساتھ وہ کام کر رہے تھے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا اچانک ان کے تبادلے کی خبریں گرم ہوں گی اور پھر درست ثابت ہوں گی۔ ایک آئی جی صاحب اپنے عہدے پر قائم رہنے کے حوالے سے اتنے پراعتماد تھے میں نے جب انہیں اطلاع دی ان کے خلاف کوئی کھچڑی پک رہی تو انہوں نے فرمایا ’’یہ سب افواہیں اور بکواس ہے‘‘ ۔ میں چپ ہو گیا اور وہ اگلے ہی روز تبدیل ہو گئے۔ پہلے میں نے سوچا ان کے تبادلے پر انہیں یہ میسج کروں’’ہور سنائو سجنو کی حال چال اے‘‘… پر ہمت نہیں پڑی غم کی اس گھڑی میں کوئی طنز ان پرمیں کروں۔ ایک روز پہلے آئی جی انعام غنی نے گوجرانوالہ کا دورہ کیا۔ وہاں ایک دربار سے خطاب کرتے ہوئے اعلیٰ افسران کو ان کی کارکردگی کے حوالے سے جو وارننگ انہوں نے دی ، کارکردگی بہتر بنانے کی ہدایات جس انداز میں وہ دے رہے تھے جس لب و لہجے میں وہ بات کر رہے تھے یوں محسوس ہو رہا تھا موجودہ حکمرانی روایت کے برعکس وہ اپنا تین سالہ ٹینور پورا کریں گے۔ وہ شاید اپنی سیٹ بہت پکی سمجھ رہے تھے۔ ہر شخص یا افسر میں اچھائیاں برائیاں ہوتی ہیں ، محکمے کی اصلاح کے لئے کچھ قابل ذکر کوششیں انہوں نے ضرور کیں۔ ممکن ہے کچھ عرصہ انہیں مزید کام کرنے کا موقع دیا جاتا کچھ اور اچھے کام بھی وہ کرتے۔ شاید اسی خدشے کے تحت ان کا تبادلہ کر دیا گیا کہ کہیں وہ مزید اچھے کام کر کے انہیں اپنے ہی کھاتے میں نہ ڈالتے رہیں۔ پچھلے حکمرانوں کے دور میں کچھ ایسے ایسے خوشامد پسند آئی جی پنجاب میں تعینات رہے کسی تھانے میں رنگ و روغن کا کام بھی ہوتا وہ اسے ’’خادم پنجاب‘‘ کے کھاتے میں ڈالتے ہوئے فرماتے ’’یہ کام وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر کیا گیا ہے‘‘۔ آئی جی انعام غنی کا اور تو کوئی قصور ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔ سوائے اس کے ، محکمے کی اصلاح کے لئے جو کام انہوں نے کئے ان میں ایک بھی وزیر اعلیٰ کے کھاتے میں نہیں ڈالا۔ البتہ آئی جی انعام غنی اس حوالے سے خوش قسمت ہیں تبدیل ہونے کے بعد حکمرانوں نے اپنی عمومی روایت کے مطابق انہیں او ایس ڈی نہیں بنایا۔ انہیں آئی جی ریلویز لگا دیا گیا۔ جہاں سے ایک ایسے آئی جی (عارف نواز) چند روز پہلے ریٹائر ہوئے جن کی عاجزی ، غیر منافقانہ روئیے اوراہلیت کا ہر کوئی مداح ہے۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جنہیں کوئی اہم عہدہ ، اختیار یا طاقت مل جائے اللہ اس کے ساتھ ساتھ انہیں اس ایک رحمت سے بھی نواز دے وہ مزید عاجز ہو جاتے ہیں۔ عارف نواز ایسے ہی ایک پولیس افسر تھے۔ کسی ماتحت کے ساتھ منافقت نہیں کی۔ کسی کا دل نہیں دکھایا ، کسی کو اذیت نہیں دی ، بطور آئی جی پنجاب بے پناہ مصروفیت کے باوجود دوستوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے، کچھ ایسے ہی حالات امجد جاوید سلیمی کے بھی تھے۔ انہیں آئی جی پنجاب بنے ابھی تھوڑا عرصہ ہی ہوا تھا، میں نے محض سیاسی بنیادوں پر پنجاب سے مرکز تبدیل ہونے والے ایک بہت ہی اہل اور نفیس ایس ایس پی کی ان سے سفارش کی انہیں واپس پنجاب میں لا کر ان کی اہلیت سے فائدہ اٹھایا جائے۔ انہوں نے مجھ سے کہا ’’اس سے کہو مجھ سے آ کر ملے‘‘۔ وہ ایس ایس پی مجھ سے کہنے لگے ’’اب وہ آئی جی بن گئے ہیں ، پتہ نہیں اب ان کا رویہ میرے ساتھ کیسا ہوتا ہے؟ لہٰذا میرا ان سے نہ ملنا ہی بہتر ہے‘‘۔ میں نے جب یہ بات امجد جاوید سلیمی کو بتائی۔ انہوں نے ایک قہقہہ اپنے مخصوص انداز میں لگایا ، کہنے لگے ’’اس سے کہو میں نے اگلے ہفتے اسلام آباد آنا ہے میں خود اس سے مل لوں گا‘‘…اس کے بعد کیا ہوا؟ یہ الگ ایک کہانی ہے۔ یہ دلچسپ کہانی میں اگلے کسی کالم میں عرض کروں گا۔اصل میں ، میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں تکبر انسان کو برباد کر دیتا ہے۔ کچھ اعلیٰ افسران کا رویہ کسی اہم عہدے پر تعینات ہونے کے بعد اس قدر بدل جاتا ہے جیسے حکمرانوں یا اصلی حکمرانوں نے انہیں ’’اسٹام‘‘ لکھ کر دیا ہو ’’تم اس عہدے پر تاحیات رہو گے‘‘… تاحیات تو وہ رہتے نہیں ’’واہیات‘‘ فوراً ہو جاتے ہیں… میں نے اکثر یہ محسوس کیا ہے ، اور اپنی ذات کو سامنے رکھتے ہوئے محسوس کیا ہے کسی شخص میں بے شمار عیب ہوں ، وہ عاجزی اختیار کرے ، انکساری کرے ، اپنی اوقات نہ بھولے۔ خصوصاً اللہ کے اس کرم کو نہ بھولے کہ اسے اس کی اوقات سے بڑھ کر نوازا گیا ہے ، پھر اس کا شکر بھی ادا کرتا رہے، تو ایسی صورت میں اللہ اس کے بے شمار عیبوں پر پردے ڈالے رکھتا ہے ۔ اس کی ترقی کے راستے بھی کھلے رکھتا ہے۔ مگر جس انسان میں تکبر آ جائے ، رعونت آ جائے۔ اسے رسوا ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا… یقین کریں میں تو اس پر بھی خوفزدہ رہتا ہوں کہیں میں ’’عاجزی‘‘ کے ’’تکبر‘‘ میں مبتلا نہ ہو جائوں… ایک ڈی پی او کے بارے میں اس وقت کے آئی جی امجد جاوید سلیمی سے میں نے کہا وہ اپنے بدمزاج آ رپی او سے بڑا تنگ ہے ، اس کی خواہش ہے اسے نکمی سے نکمی ترین کسی سیٹ پر لگا دیا جائے ، پر اس بدمزاج آر پی او کے ساتھ اب اس کا مزید گزارا نہیں ہو سکتا…’’میں نے اس کی یہ خواہش جب آئی جی امجد جاوید سلیمی کو بتائی انہوں نے میری موجودگی میں اس ڈی پی او کو فون کیا اور بہت ہی خوبصورت الفاظ کے ساتھ اس کی ڈھارس بندھائی ، خصوصاً یہ بات کوئی بڑے دل والا آئی جی ہی کہہ سکتا ہے کہ ’’تم اپنا آر پی او بھی مجھے ہی سمجھ لو‘‘… ممکن ہے اپنے عہد میں کچھ ماتحتوں کی امیدوں پر وہ پورے نہ اترے ہوں ، مگر مجموعی طور پر انہوں نے بڑے پن کا مظاہرہ ہی کیا… ایسے افسران یا پولیس افسران عہدوں پر رہیں، تبدیل ہو جائیں ، یا ریٹائرڈ ہو جائیں ان کی عزت آبرو میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کے برعکس بے شمار افسران یا پولیس افسران کی اپنے ماتحتوں کے دلوں میں عزت باامر مجبوری اتنی دیر تک بحال رہتی ہے جب تک وہ ان کی اے سی آر نہیں لکھ دیتے۔سو کسی ماتحت کی دیر تک اے سی آر نہ لکھنے کا ایک مقصد اس کی نظروں میں اپنی عزت کو بحال رکھنا بھی ہوتا ہے… یہ کالم تو کچھ سابقہ آئی جی صاحبان کی خوبیاں گنواتے ہوئے گزر گیا۔ اب اگلے کالم میں موجودہ آئی جی رائو سردار کے بارے میں کچھ عرض کروں گا ، اور ساتھ ہی ساتھ حکمرانوں کی اس ’’بیمار ذہنیت‘‘ بارے میں بھی کچھ عرض کروں گا جس کے مطابق کوئی افسر چاہے کتنا ہی اہل یا اچھاکیوں نہ ہو ، انہیں پسند نہیں آتا !! 
(جاری ہے )