پاکستان تحریک انصاف کا دور اقتدار !

پاکستان تحریک انصاف کا دور اقتدار !

آخر کار وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ ایک بار پھر منتخب وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہ کر سکا۔ یعنی 75سال میں 29وزیر اعظم آئے لیکن ایک بھی اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ اسے سیاسی اداروں کے کمزور ہونے کا نتیجہ کہیں یا سیاسی جماعتوں کی کمزوریاں۔ مگر یہ بات طے ہے کہ تاریخ میں سیاسی جماعتوں کی باہمی چپقلش اور بیرونی عناصر کی چھیڑ چھاڑ کی وجہ سے یہ ادارہ آج بھی بری طرح پٹ رہا ہے۔ اگر تاریخ پر طائرانہ سی نظر ڈالیں تو ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا دورانیہ سب سے زیادہ رہا، وہ 4 سال 2 ماہ تک عہدے پر فائز رہے، لیاقت علی خان کو 16 اکتوبر 1951 میں جلسے کے دوران شہید کر دیا گیا،محمد علی بوگرہ 2 سال 3 ماہ اور 24 روز تک وزیر اعظم رہے، چودھری محمد علی 1 سال 1 ماہ وزارت عظمیٰ کی کرسی پر فائز رہے، حسین شہید سہروردی ایک سال ایک ماہ اور 6 دن تک وزیر اعظم رہے، ابراہیم اسماعیل المعروف آئی آئی چندریگر 1 ماہ 28 روز ملک کے سربراہ رہے، ملک فیروز خان نون 9 ماہ 21 روز، نورالامین 13 روز وزیر اعظم رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو 4 سال 21 روز تک وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھے، محمد خان جونیجو 1985 میں وزیر اعظم بنے، 3 سال 2 ماہ 6 روز تک عہدے پر رہے، بے نظیر بھٹو کی پہلی وزارت عظمیٰ کی مدت 1 سال 8 ماہ رہی، ان کے بعد غلام مصطفیٰ جتوئی 3 ماہ کے لیے نگران وزیر اعظم رہے، نواز شریف پہلی بار 2 سال 5 ماہ 12 روز وزیر اعظم رہے، میر بلخ شیر مزاری ایک ماہ 8 روز کے لیے نگران وزیر اعظم مقرر ہوئے، معین قریشی 3 ماہ 11 روز نگران وزیر اعظم رہے، بے نظیر بھٹو دوسری بار آئیں، 3 سال 6 روز وزارت عظمیٰ کے عہدے پر رہیں، اس کے بعد ملک معراج خالد 3 ماہ 11 روز کی لیے نگران وزیراعظم بنے۔ نواز شریف دوسری بار 2 سال 7 ماہ 25 روز وزیراعظم رہے، میر ظفر اللہ جمالی ایک سال 7 ماہ 3 روز وزیر اعظم رہے، چودھری شجاعت حسین کو بھی موقع ملا، وہ 1 ماہ 26 روز وزیر اعظم رہے، پرویز مشرف کے دور میں شوکت عزیز 2 سال 4 ماہ 17 دن وزیر اعظم رہے۔2008 کے الیکشن میں محمد میاں سومرو 4 ماہ 8 روز کے لیے نگران وزیر اعظم بنائے گئے، جس کے بعد پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی 4 سال ایک ماہ وزیر اعظم رہے، راجہ پرویز اشرف ایک سال 2 روز وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہے، میر ہزار خان کھوسو 2 ماہ 10 روز کے لیے نگران وزیر اعظم بنے۔2013 کے الیکشن کے بعد وزیراعظم محمد نواز شریف 4 سال ایک ماہ 23 روز 
اپنے عہدے پر رہ سکے، شاہد خاقان عباسی 9 ماہ 30 روز کی بقیہ مدت کیلئے وزیراعظم بنے، 2018 کے الیکشن کے دوران جسٹس (ر) ناصر الملک 2 ماہ 17 روز نگران وزیر عظم رہے، جس کے بعد بننے والے سابق وزیراعظم عمران خان 3 سال 7 ماہ اور 22 روز عہدے پر رہ سکے۔
بہرحال اسے کچھ بھی کہیں مگر یہ بات تو طے ہے کہ یہ ہماری اپنی کمزوری ہے کہ ہمیں کوئی ڈکٹیٹ کرے ورنہ دنیا بھر میں سیاسی ادارے اس قدر مضبوط ہوتے ہیں کہ آنکھیں بند کرکے پورے کا پورا ملک اْن کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ لیکن یہاں ایک وزیر اعظم منتخب ہوتا ہے تو دس ادارے اور دس بڑے ممالک اْس پر نظر رکھنا شروع کر دیتے ہیں کہ کہیں یہ اْن کے مفادات کے خلاف کام تو نہیں کر رہا۔ وغیرہ۔ میری ذاتی رائے میں عمران خان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ وہ کام کرنا چاہتے تھے مگر اْنہیں حد درجہ تک اس قدر تنگ کیا گیا یا کرایا گیا کہ اْنہیں منصب اعلیٰ سے الگ کرکے ہی سانس لیا گیا۔ 
اب اگر ہم عمران خان کے کم وبیش ساڑھے تین سالہ دور کی بات کریں تو وہ ایک مقبول لیڈر کے طور پر پاکستانی سیاست میں اپنا نقش جما چکے ہیں۔ گزشتہ ربع صدی پر پھیلی ہوئی ان کی سیاسی جدوجہد اپنی مثال آپ ہے۔ کرکٹ کے میدان میں جھنڈے گاڑنے کے بعد انہوں نے سماجی خدمت کے شعبے میں اپنے آپ کو منوایا، شوکت خانم کینسر ہسپتال بنا کر اور چلا کر اپنی محبوبیت میں اضافہ کیا۔ اس کے بعد کوچہ سیاست کا رخ کیا، تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔ اسے ایک سیاسی جماعت کے طور پر انتخابی اکھاڑے میں اتارا، اور طویل فاصلہ طے کرکے وزارتِ عظمیٰ کا منصب حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ 2002ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی ایک نشست کے حصول سے شروع ہونے والا پارلیمانی سفر 2018ء میں وزارتِ عظمیٰ تک پہنچا، اور لوگوں نے اس تبدیلی کا انتظار کرنا شروع کر دیا جس کے خواب انہیں دکھائے گئے تھے، جس کا وعدہ ان سے بار بار، بلکہ ہزاروں بار کیا گیا تھا۔ 
اور پھر جب وہ اقتدار میں آئے تو اْنہیں خراب معیشت تحفے میں ملی۔ اْنہیں اقتدار میں آکر علم ہوا کہ یہاں توسب کچھ گروی رکھ کر قرضے اْٹھائے گئے ہیں۔ پھر پچھلے قرضے اْتارنے کی ڈیڈلائنز بھی سر پر تھیں، ایسے میں مرتا کیا نہ کرتا۔ نظام چلانے کے لیے مزید قرضے لیے گئے۔ اس کے بعد نہلے پر دہلا یہ کہ کورونا وائرس آگیا۔ جس نے دنیا بھر کی طرح پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا تو یہ سوال اٹھا کہ اس وبا سے نمٹنے کا بہترین طریقہ کیا ہو سکتا ہے؟ آغاز میں پاکستان نے لاک ڈائون کا راستہ اپنایا لیکن وزیر اعظم عمران خان نے معیشت کو درپیش چیلنجز کے باعث طویل لاک ڈائون کے بجائے رفتہ رفتہ مختلف سیکٹرز کو احتیاطی تدابیر کے ساتھ کھولنے کی حکمت عملی اپنائی۔سمارٹ لاک ڈائون کی حکمت عملی کس حد تک موثر رہی اور پاکستان میں کورونا کی وبا کے نسبتاً کم کیسز کی کیا وجوہات تھیں؟ ایک جانب جب انڈیا اور بنگلہ دیش میں لاک ڈائون کی وجہ سے ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کی سپلائی چین میں تعطل پیدا ہوا توبیرون ملک خریداروں نے پاکستان کا رخ کر لیا۔
پھر تحریک انصاف کی جانب سے گذشتہ دور حکومت کے دوران خیبر پختونخوا میں صحت کارڈ کا آغاز 2016 میں کیا تھا جس کے تحت ایسے شہریوں کو صحت کی مفت سہولیات فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا جو مالی صورت حال کی وجہ سے اکثر ہسپتالوں کا رخ نہیں کر پاتے ہیں۔وزیراعظم پاکستان بن جانے کے بعد اس منصوبے کو مزید پھیلایا گیا اور عمران خان نے آٹھ کروڑ شہریوں کے لیے صحت کارڈ فراہم کرنے کا اعلان کیا۔پھر حکمران جماعت تحریک انصاف کے سربراہ اور وزیراعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے کم آمدن والے طبقے کے لیے سستے مکانات کا وعدہ کیا تھا۔اس منصوبے کے لیے الگ سے ’’نیا پاکستان ہائوسنگ اتھارٹی‘‘ قائم کی گئی اور ابتدائی مرحلے میں سات شہروں میں مکانات کی تعمیر کا آغاز کیا گیا۔
حکومت نے آسان گھر سکیم کے تحت بینکوں کو آسان شرائط پر قرضہ فراہم کرنے کی بھی ترغیب دی جس میں 20 لاکھ سے لے کر ایک کروڑ تک قرضے مختلف مدت کے لیے فراہم کرنا شامل ہیں۔اسی کے ساتھ حکومت نے تعمیراتی شعبے کے لیے دو ایمنسٹی سکیمیں متعارف کرائیں تاکہ اس کے ذریعے تعمیراتی شعبے کو فروغ دیکر ملک میں مکانوں کی تعمیرکیساتھ نوکریاں بھی پیدا کی جا سکیں۔اس کے علاوہ بلین ٹری نامی منصوبہ بھی بنایا گیا۔ جس کی عالمی سطح پر بھی تعریف ہوئی۔ پھر غربت کے خاتمے کے لیے اقدامات کے سلسلے میں وزیراعظم نے ’’احساس پروگرام‘‘ کے تحت 31 نکاتی ایجنڈاکے ذریعے 115 پالیسی منصوبوں کا اعلان کیا۔جس کا خاطر خواہ فائدہ بھی ہوا۔ اس کے علاوہ دیگر محکموں میں بھی اچھا کام ہوا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اب نئی بننے والی حکومت کو سابقہ حکومت کے اچھے کاموں کو آگے لے کر چلنا چاہیے۔ اور یہ روایت ختم ہونی چاہیے کہ اس پر تختیاں فلاں سیاستدان کی لگی ہیں۔ اس لیے اسے بند کردیا جائے۔ ایسا کرنے سے یقینا ملک ترقی بھی کرے گا اور سیاسی اختلافات میں کمی بھی آئے گا اور انتقامی سیاست کا خاتمہ بھی ہو گا!

مصنف کے بارے میں