75 سال ہو گئے!

75 سال ہو گئے!

دو روز بعد ہمارا پیارا ملک پاکستان 75 برس کا ہو جائے گا۔ ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی ہم اپنا یوم آزادی روائتی جوش و جذبے سے منائیں گے۔ اس دن سرکاری عمارات پر پاکستانی پرچم لہرائے جائیں گے۔ گھروں ، گلیوں، محلوں اور بازاروں کو جھنڈوں، جھنڈیوں سے سجایا جائے گا۔ چراغاں ہوگا۔سرکاری اور نیم سرکاری ادارے اور تنظیمیں یوم آزادی کے ضمن میں مختلف تقریبات کا انعقاد کریں گی۔آزادی کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے تقاریر ہوں گی۔اہم شخصیات کی طرف سے مبارکبا دی پیغامات جاری کئے جائیں گے۔ تاریخ پاکستان سے آگاہی رکھنے والے جانتے ہیں کہ ہمیں یہ آزادی پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملی۔ ہمارے آبا و اجداد نے نہایت محنت اور جدوجہد کے بعد آزادی حاصل کی تھی۔ مسلمانان ہند کو علیحدہ ملک کے حصول کیلئے قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں باقاعدہ ایک تحریک چلانا پڑی۔ ہندو  اور انگریز سامراج کا مقابلہ کرنا پڑا۔لاکھوں لوگوں کو اپنے جان و مال کی قربانی دینا پڑی۔پھر کہیں جا کر پاکستان کا قیام ممکن ہو سکا۔ سوال یہ ہے کہ ان پچھتر برسوں میں ہم نے ترقی کی کتنی منازل طے کی؟ان برسوں میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟  یقینا قوموں کی زندگی میں پچھتر برس کوئی زیادہ عرصہ نہیں ہوتا۔ لیکن بہر حال یہ عرصہ اس قدر کم بھی نہیں ۔ پون صدی کے عرصہ میں کوئی قوم اپنی منزل تک نہ پہنچ سکے، تب بھی اپنی سمت کا تعین تو کر ہی سکتی ہے۔  
 اس میں کوئی شک نہیں کہ 1947 سے اب تک پاکستان بہت سے شعبوں میں آگے بڑھا ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے۔ اس کی فوج دنیا کی بہترین افواج میں شمار ہوتی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت یہاں ہائیرایجوکیشن کے فقط چند تعلیمی ادارے موجود تھے۔ آج یہاں سینکڑوں کالج اور یونیورسٹیاں قائم ہیں۔پاکستان میں ایک مضبوط میڈیا موجود ہے۔ درجنوں ریڈیو اسٹیشنز ہیں۔ بیسیوں اخبارات شائع ہوتے ہیں۔ بہت سے ٹیلی ویژن چینلز موجود ہیں۔ سنتے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد سرکاری دفاتر میں سادہ کاغذ، کاغذوں کو باندھنے کیلئے پن اور دیگر ضروری اشیاء دستیاب نہیں تھیں۔ آج پاکستان میں عالی شان سرکاری اور نجی دفاتر کی عمارات موجود ہیں۔ہزاروں، لاکھوں کارخانے اور فیکٹریاں قائم ہیں۔بڑے بڑے شاپنگ پلازے ہیں۔ہوٹلز ہیں۔تفریح گاہیں ہیں۔ پاکستانی خواتین بہت سے شعبوں میں اپنے قدم جما چکی ہیں۔ کھیل، صحافت، سیاست، دفاع، سائینس و ٹیکنالوجی، غرض ہر شعبے میں خواتین متحرک دکھائی دیتی ہیں۔مطلب یہ کہ 1947 میں ہم جہاں کھڑے تھے، اس مقام سے کہیں آگے بڑھے ہیں۔
لیکن تمام تر ترقی کے باوجود بہت سے شعبے اورمعاملات ایسے ہیں، جن میں ہم آگے نہیں بڑھ سکے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم بار باروہی غلطیاں دہراتے رہے اور اپنے ماضی سے کوئی سبق سیکھنے سے قاصر رہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا پاکستان ایک آیٹمی قوت ہونے کے باوجود مکمل طور پرخود مختار ملک نہیں ہے۔قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات اور قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ہماری قومی سیاست کی کشتی ہچکولے کھانے لگی۔ کچھ برس بعد جمہوریت رخصت ہو گئی اور اس کی جگہ آمریت نے لے لی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قائد کا پاکستان دو لخت ہو گیا۔ پاکستان سے جدا ہونے والا یہ حصہ بنگلہ دیش کہلاتا ہے۔ ملک ٹوٹنے کے بعد بھی ہمارے رویوں میں تبدیلی نہ آسکی۔یہی وجہ ہے کہ بار بار مارشل لاء لگتے رہے۔ منتخب وزرائے اعظم پھانسی کے پھندے پر لٹکائے اورحکومت سے ہٹائے جاتے رہے۔ یہ کھیل آج بھی جاری ہے۔ سیاست میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچے کا کام آج بھی جاری ہے۔مزید ظلم یہ ہے کہ کچھ سیاست دانوں نے سیاست میں بد کلامی، بد زبانی اور الزام تراشی کو رواج دیا ہے۔ 
برسوں کی کھینچا تانی او ر جمہوریت کے عدم تسلسل کا نتیجہ ہے کہ ہم آج تک معاشی طور پر اپنے پاوں پر کھڑے نہیں ہو سکے۔ ہمارا ملک قرضو ں میں جکڑا ہوا ہے۔ ہر نئی حکومت کو کاروبار مملکت چلانے کیلئے دوست ممالک سے ڈالر اور ریال مانگنے پڑتے ہیں۔ یعنی آج تک ہم مانگے تانگے کے پیسوں پر گزر بسر کرتے رہے ہیں۔ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا بھارت کہاں سے کہاں پہنچ چکا ہے۔ دنیا بھر میں اپنا نام اور مقام بنا چکا ہے۔ ہمارے بعد آزاد ہونے والا چین عالمی طاقت بننے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔ پاکستا ن کے وجود سے جنم لینے والا بنگلہ دیش بھی بہت سے شعبوں میں ہم سے آ گے نکل چکا ہے۔ جبکہ ہم باہمی اختلافات اور لایعنی جھگڑوں میں الجھے ہیں۔ پاکستان کی کرنسی بنگلہ دیش سمیت خطے کے تمام ممالک کی کرنسی کے مقابلے میں کم قدر کی حامل ہے۔ ہمارا سبز پاسپورٹ بدترین پاسپورٹوں کی فہرست میں شامل ہے۔ ہماری تعلیمی ڈگریاں دنیا بھر میں کم ہی کہیں تسلیم کی جاتی ہیں۔ ایک وقت تھا کہ پاکستانی ڈاکٹروں اور انجینئروں کی دنیا بھر اور خاص طور پر عرب ممالک میں بہت مانگ تھی۔ سنتے ہیں کہ اب ان کی جگہ بھارتی ڈاکٹروں اور انجینئروں نے لے لی ہے۔ ایک ایک کر کے ہم نے اپنے قومی ادارے بھی برباد کر دئیے ہیں۔ایک وقت تھا کہ ہمارے سرکاری ٹیلی ویژن کے ڈراموں کا بھارت تک میں ڈنکا بجا کرتا تھا۔ آج اس پی۔ٹی۔وی کی حالت بے حد ابتر ہو چکی ہے۔ ہماری قومی ائیر لائن پی۔آئی۔اے دنیا بھر میں ایک خاص مقام رکھتی تھی۔ اندازہ کیجئے کہ پی۔آئی۔اے سے دو طیارے لیز پر لے کر ایمریٹس ائیر لائن نے اپنی سروس کا آغاز کیا تھا۔ ہمارے پائیلٹوں نے ایمریٹس کے پائیلٹوں کو تربیت دی تھی۔ آج امارات کی یہ ائیر لائن کئی سو طیاروں کی مالک ہے۔ جبکہ پی۔آئی۔اے چند خستہ حال طیاروں کیساتھ کئی برس سے خسارے میں چل رہی ہے۔ ہماری اسٹیل ملز۔ ہماری ریلوے۔ ہمارا ریڈیو پاکستان۔ سب کی حالت زار ابتر ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم نے ڈھلوان کا سفر شروع کر رکھا ہے۔
بد قسمتی سے ہمیں اپنے مستقبل کی بھی کوئی خاص فکر نہیں ہے۔ اسکول جانے کی عمر کے حامل ہمارے تین کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ لیکن ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے پاس بہت بڑی تعداد میں نوجوان افرادی قوت موجود ہے۔ لیکن ہم انہیں اچھی تعلیم اور عمدہ روزگار دینے سے قاصر ہیں۔ نوجوانوں کو مثبت سمت میں راہنمائی کرنے کے بجائے ہمارے اہل سیاست نے انہیں لایعنی معاملات میں الجھا رکھاہے۔ کا ش پاکستان کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر ہمارے اہل دانش اور اہل اقتدار سر جوڑ کر بیٹھیں اور پوری ایمانداری سے جائزہ لیں کہ کن وجوہات اور رویوں کی وجہ سے ہم دیگر اقوام سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ نہایت ضروری ہے کہ ہم اپنی قومی تاریخ کا جائزہ لیں۔ ماضی میں ہم سے جو غلطیا ں سر زد ہوئی ہیں۔ ان پر غور کریں۔ انہیں نہ دہرانے کا عزم کریں۔یقین جانئے اپنے ماضی سے سبق سیکھے بغیر ہمارے قومی حالات کار تبدیل نہیں ہو سکتے۔

مصنف کے بارے میں