حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بچپن مبارک

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بچپن مبارک

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والد محترم حضرت عبداللہ ابن عبدالمطلب آپ کی ولادت سے چھ ماہ قبل وفات پا چکے تھے اور آپ کی پرورش آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے کی۔ اس دوران  آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کچھ مدت ایک بدوی قبیلہ کے ساتھ بسر کی جیسا عرب کا رواج تھا۔ اس کا مقصد بچوں کو فصیح عربی زبان سکھانا اور کھلی آب و ہوا میں صحت مند طریقے سے پرورش کرنا تھا۔پیدائش کے بعد چار روز تک والدہ نے بیٹے کو دودھ پلایا اور پھر چھ دن ابو لہب کی لونڈی ثوبیہ نے دودھ پلایا۔ طائف اور دیگر صحت افزاء مقام سے دودھ پلانے والی مائیں ان آبادیوں میں بچے لینے آتی تھیں۔ یتیم دیکھ کر کئی عورتوں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گود نہ لیا۔ حلیمہ سعدیہ ہر اعتبار سے کمزور تھیں اور انہیں کوئی بچہ بھی نہیں ملا تھا لہذا انہوں نے گھر بغیر بچے جانے کے یتیم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گود لینا پسند کیا اور قافلے کے ساتھ واپس روانہ ہو گئیں۔حلیمہ نے سوچا میں بچے کو غسل کرا دوں۔ مشکیزہ میں پانی بھرنے لگیں تو وہ گویا ستاروں سے بھر گیا۔ بڑی حیران ہوئیں۔ جب غسل دیا تو پھر مشکیزے سے ستارے نکل رہے تھے۔ غسل کے بعد حضرت حلیمہ کے خاوند حارث نے کہا حلیمہ بکریوں کے تھن دودھ سے بھر گئے ہیں۔ حلیمہ نے کہا کہ میں بھی ایسا ہی محسوس کر رہی ہوں۔ بچے سیر ہو کر دودھ پیئں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ قافلے اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔

حلیمہ کے جو جانور آتے ہوئے چل نہیں رہے تھے وہ اب دوڑ رہے تھے۔

دو سال کے بعد حلیمہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے کر ان کی والدہ کے پاس آئیں مگر والدہ نے یہ کہہ کر انہیں واپس کر دیا کہ ابھی اپنے پاس ہی رکھیں۔ اچھی آب و ہوا میں صحت اور اچھی ہو جائے گی۔مزید دو سال بعد حلیمہ نے دیکھا کہ آپ گھر کے باہر کھیل رہے تھے ایک فرشتے نے آپ کا سینہ مبارک چاک کر کے قلب اطہر نکالا، اس کو آب زم زم سے دھویا اور پھر واپس سینہ مبارک میں جوڑ دیا۔ اس واقع سے حلیمہ خائف ہو گئیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واپس والدہ کے پاس لے آئیں اور سارا ماجرہ بھی سنایا۔

 چار سال کی عمر مبارک میں طائف سے واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو سال اپنی والدہ ماجدہ کے پاس رہے۔ چھ سال کے ہوئے تو والدہ محترمہ یسرب اپنے عزیز و اقارب سے ملانے لے گئیں۔ شوہر کی بھی قبر کی زیارت کی۔ ایک ماہ قیام فرمایا واپس پر ابواء کے مقام پر جو بدر شریف کے قریب ہی ہے، وہاں طبیعت خراب ہوئی اور ابواء کے مقام پر رحلت فرما گئیں۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھ سال کی عمر میں والدہ کی شفقت سے بھی محروم ہوگئے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خادمہ ام ایمن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے کر دادا کے پاس آئیں اور ان کی امانت ان کے حوالے کر دی ۔ دادا کو پوتے سے انتہا کا پیار تھا۔ ان کو کھیلتا کودتا دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔ دو سال دادا کے پاس رہے تو وہ بھی 83 سال کی عمر میں پوتے کو خیر بعد کہہ گئے۔ اب آپ کی ذمے داری آپ کے چچا ابو طالب پر آپڑی جو چالیس سال تک اپنے پیارے بھتیجے کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہے اور ہر طرح ان کا خیال رکھا۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابو طالب کے ساتھ شام کا تجارتی سفر بھی اختیار کیا اور تجارت کے امور سے واقفیت حاصل کی۔ اس سفر کے دوران میں ایک بحیرا نامی عیسائی راہب نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں کچھ ایسی نشانیاں دیکھیں جو ایک آنے والے پیغمبر کے بارے میں قدیم آسمانی کتب میں لکھی تھیں۔ اس نے حضرت ابوطالب کو بتایا کہ اگر شام کے یہود یا نصاریٰ نے یہ نشانیاں پا لیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوطالب نے یہ سفر ملتوی کر دیا اور واپس مکہ آ گئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بچپن عام بچوں کی طرح کھیل کود میں نہیں گذرا ہوگا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں نبوت کی نشانیاں شروع سے موجود تھیں۔ اس قسم کا ایک واقعہ اس وقت بھی پیش آیا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بدوی قبیلہ میں اپنی دایہ کے پاس تھے۔ وہاں حبشہ کے کچھ عیسائیوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بغور دیکھا اور کچھ سوالات کیے یہاں تک کہ نبوت کی نشانیاں پائیں اور پھر کہنے لگے کہ ہم اس بچے کو پکڑ کر اپنی سرزمین میں لے جائیں گے۔ اس واقعہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مکہ لوٹا دیا گیا۔

 نوٹ: تمام واقعات تاریخ کی مستندکتابوں سے لیئے گے  ہیں

مصنف کے بارے میں

شہبازسعیدآسی نیوٹی وی کےویب اور بلاگ ایڈیٹر ہیں،روزنامہ نئی بات میں کالم بھی لکھتے ہیں