پاکستان کی سیاست اور پرویز مشرف

پاکستان کی سیاست اور پرویز مشرف

پاکستان کی سینیٹ میں عجیب صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب چیئرمین صادق سنجرانی نے ایک قرارداد پیش کرنا چاہی۔ وہ چاہتے تھے کہ اجلاس میں سابق صدر اور آرمی چیف پرویز مشرف کے انتقال پر دعا ئے مغفرت کی جائے۔ جماعت اسلامی کے ایک رکن سینیٹ سمیت چند اور سینیٹرز نے اس کی مخالفت کی اور دعا نہیں کرائی جا سکی۔ ادھر سوشل میڈیا پر بھی جنرل پرویز مشرف کے خلاف تنقیدی بیانات کا سلسلہ جاری ہے حتی کہ پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی نے بھی سخت تنقید کی ہے۔ تنقید تو بہر حال سیاست میں عام رواج ہے اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں۔ مگر کسی کے خلاف غیر اخلاقی زبان استعمال کرنا نامناسب بات ہے۔ خاص کر جو کچھ آج کل سوشل میڈیا پر پوسٹنگز آ رہی ہیں وہ قابل مذمت ہیں۔ رہی بات جماعت اسلامی کے سینیٹر کے رویے کی تو اس پر حیرت ہوتی ہے۔ جب پرویز مشرف اقتدار میں آئے اور انہوں نے سیاسی جماعت پر مشتمل حکومت بنائی تو اس میں مسلم لیگ ق، پیپلز پارٹی کا فارورڈ بلاک کے علاوہ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام نے متحدہ مجلس عمل کے تحت شمولیت اختیار کی۔ جناب عمران خان نے بھی پرویز مشرف کا ساتھ دیا تھا۔ حتیٰ کہ بے نظیر بھٹو جو جلاوطنی کی زندگی گزار رہی تھیں نے بھی نواز شریف کی معزولی پر جنرل مشرف کی حمایت کی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ اس نئی حکومت میں وزیر اعظم بن جائیں اور بعد میں انہوں نے اسی پرویز مشرف سے مذاکرات کر کے معاہدہ بھی کر لیا۔ اس کے باوجود رضا ربانی اور جماعت اسلامی کے اتنے سخت رویے کی کوئی تک سمجھ نہیں آتی۔ 
جنرل مشرف نے اپنے دور اقتدار میں غلطیاں بھی کی ہیں اور ملک کے وقار کے لئے بہت کام بھی کئے۔ ان پر تنقید یہ بھی کی جاتی ہے کہ انہوں نے ۹/۱۱ کے بعد امریکہ کے مطالبات کو من و عن تسلیم کر لیا تھا۔ اس معاملے میں یہ بات بالکل طے ہے کہ اس وقت کوئی بھی حکومت ہوتی چاہے سول حکومت ہی کیوں نہیں وہ بھی ایسا ہی بلکہ اس سے زیادہ بڑھ کر کرتی۔ ایک پاکستانی شہری ایمل کانسی کو کس کے دور اقتدار میں امریکہ کے حوالے کیا گیا تھا؟ پھر اسامہ بن لادن کو امریکہ کس کے دور اقتدار میں فوجی آپریشن کے ذریعے ایبٹ آباد سے لے کر گیا تھا؟ کیا اس وقت کے پاکستانی صدر اور وزیر 
اعظم کو پیشگی اطلاع نہیں تھی؟ اگر نہیں تھی تو پھر سربراہ حکومت نے فون پر صدر امریکہ کو کس بات کی مبارکباد دی تھی؟ کیا جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی میں اتنی ہمت ہوئی کہ آج بھی ان کی مذمت کرتیں؟ اور آگے بڑھئے۔ ایک فوجی صدر جنرل یحییٰ خان نے نہ صرف یہ کہ اکثریتی پارٹی کے لیڈر کو وزیر اعظم بنانے کی بجائے اسے گرفتار کرایا بلکہ آپریشن کے نتیجے میں غیر بنگالیوں کا قتل ہوا اور اسی کی وجہ سے آج بھی تین لاکھ سے زیادہ پاکستانی بنگلہ دیش کے کیمپوں میں محصور ہیں جن کے گھر اور جائیدادیں اس بنا پر چھین لئے گئے کیونکہ انہوں نے متحدہ پاکستان قائم 
رکھنے کے لئیے پاک فوج کا ساتھ دیا تھا۔ یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ اس فوجی آمر کو نہ صرف پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا گیا بلکہ آخری ایک برس اس کا علاج سرکاری خرچ پر لندن میں کروایا گیا۔۔ کوئی ان لوگوں سے یہ پوچھے کہ کیا جنرل یحییٰ خان نے ایسے سارے اقدامات آئین کے تحت کئے تھے؟ اس آمر کے خلاف کوئی مقدمہ چلانے کا مطالبہ کسی نے کیوں نہیں کیا؟ ملک توڑنے کا مقدمہ بھی نہیں چلایا گیا۔ بلکہ اس جنرل ٹکا خان کو ملک کا وزیر بھی بنایا گیا جسے بنگالی آج بھی بنگالیوں کا قصائی کہتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر صاحب کو کوئی یہ تو بتائے کہ ایک اور فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق کی حکومت میں ان کی جماعت نے وزارت بھی لی تھی۔ کیا پرویز مشرف کے علاوہ تمام فوجی جنرل نے آئین کے مطابق جمہوری حکومتیں گرائی تھیں؟ جہاں تک تعلق ہے ایمرجنسی لگانے کا تو اس وقت وزیر اعظم شوکت عزیز تھے۔ کابینہ بھی سویلین جماعتوں پر مشتمل تھی۔ اس کی ذمہ داری تمام لوگوں پر عائد ہوتی تھی کسی ایک پر نہیں۔ جہاں تک اکبر بگٹی کی ہلاکت کا تعلق ہے تو جو بھی گْروہ ملک کی فوج کے سامنے اسلحے لے کر مقابلے میں آجائے تو اس کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہئے۔ اگر اکبر بگٹی کا یہ قدم جائز تھا تو پھر مشرقی پاکستان میں آرمی آپریشن شروع ہونے پر رضا ربانی کے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو نے کیوں یہ کہا تھا کہ خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا؟
لہٰذا صرف ایک جنرل کو اس بنیاد پر نشانہ بنا نا کہ اس نے آئین کے بر خلاف اقدام کیا غلط ہوگا۔ اس طرح تو آج تک بر سر اقتدار آئے تمام فوجی جنرلز پر بعد از موت بھی مقدمہ بنایا جا نا چاہئے۔ اور آئین شکنی کا ذکر کیا جائے تو آج کل کے حالات میں سول حکومتیں کیا آئین شکنی کی مرتکب نہیں ہو رہیں کہ اسمبلی ٹوٹنے کے بعد نوے دن میں انتخابات کروانے کو تیار نہیں اور صاف صاف کہہ رہی ہیں کہ ایسے حالات میں انتخابات نہیں کروائے جا سکتے۔ 
پرویز مشرف ایک ایسے سربراہ مملکت تھے جنہوں نے بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی اور کشمیر کے مسئلے کا ایسا بہترین حل دیا تھا کہ خود بھارتی وزیر اعظم نے حمایت کردی تھی اور معاہدے پر دستخط ہو جاتے اگر بھارتی فوجی جنرلوں نے عین وقت پر وہاں کی جمہوری حکومت کو ایسا کرنے سے روک نہ دیا ہوتا۔۔ پرویز مشرف کا یہ بھی ایک زبردست کارنامہ تھا کہ ملک میں مقامی حکومت کا ایک بہترین فلسفہ پیش کیا اور بلدیاتی حکومت کو متعارف کروایا۔ یہ جمہوری اور سیاسی جماعتوں کی بدقسمتی ہے کہ اس نظام کو قانونی تحفظ نہ دے سکیں۔ کاش پرویز مشرف ہی اپنی حمایت یافتہ جماعتوں کے ذریعے اس نظام کو قانون کی حفاظت میں لے آتے۔ 
پرویز مشرف نے ایک قدم اور بہت اچھا اٹھایا کہ ملک کو پی ٹی وی سے نکال کر ٹی وی چینلز کی شکل میں عام کر دیا۔ لاکھوں روزگار فراہم ہوئے امریکہ اور یورپ میں مغربی ذرائع ابلاغ کو انٹرویوز دیتے ہوئے وہ بے باک ہوتے تھے اور سوال کرنے والے اینکرز کو چپ کروا دیتے تھے۔ جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں ان کے خطاب کے دوران ایک گورے طالب علم نے جب ان سے سوال کیا کہ آپ کے ملک نے القاعدہ کو کیوں وہاں رہنے کی اجازت دی تو پرویزمشرف نے ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ القاعدہ کو کس نے مجاہد کا خطاب دیا تھا اور ان لوگوں کو کس نے ہمارے ملک پر مسلط کیا تھا؟ یہ امریکہ تھا۔ اور اب جبکہ وہ لوگ ہمارے ملک میں شادیاں کر کے رشتہ داریاں قائم کر چکے ہیں آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ ان کو بھگاتے کیوں نہیں؟ پرویز مشرف سے بحیثیت حکمراں غلطیاں بھی ہوئیں۔ انہیں چاہئے تھا کہ بے نظیر صاحبہ کو بغیر مذاکرات ملک میں آنے دیتے اور پھر نواز شریف کو بھی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دیتے۔ کالا باغ ڈیم بنانے کے لئے انہوں نے سختی اختیار نہیں کی، یہ ان کی سخت غلطی تھی۔ بنگلہ دیش سے محصور پاکستانیوں کی واپسی کے لئے انہوں نے کوئی قدم نہیں اٹھایا جبکہ انہوں نے بنگلہ دیش کے ایک دورے کے دوران محصورین کے ایک وفد سے بات کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایک برس کے اندر یہ کام کر دیں گے۔ آج پاکستان میں سیاسی حکمراں وہ حرکتیں کر رہے ہیں کہ عوام کا ایک بڑا طبقہ یہ کہنے پر مجبور ہے کہ اس سے اچھے تو فوجی حکمراں ہوتے ہیں کہ کم از کم ملک میں امن و امان تو قائم رہتا ہے۔ سیاسی جماعتیں ایسی حرکتیں اب نہ کریں کہ ان میں سے ہی کوئی آگے بڑھ کے فوج کو دعوت دے کہ سنبھال لیجئے ملک کی باگ ڈور۔