"اے دھرتی ماں کے باسیو! ذرا خود سے پوچھو تو سہی !"

کل سے دھرتی ماں کے باسی متلاشی ہیں ۔ کرب میں ہیں ٗ سکتے میں ہیں ٗ معاشرے کے معصوم والدین خوف و ہراس میں ہیں ۔ننھی کلیاں اور جگر کے ٹکڑے شش و پنج میں مبتلا ہیں ۔ دنیا ہمارا تماشا دیکھ رہی ہے ٗ مختاراں مائی جیسے سلگتے واقعات یاد دلا رہی ہے ۔ ملکی ذرائع ابلاغ قصور کی زنیب کا قصور بار بار پوچھ رہا ہے ۔ دل خراش شہ سرخیاں اور بلا عنوان کہانیاں تحریر ہورہی ہیں۔حزب اختلاف ہمدردی و سیاست دونوں محاذوں پر طنزو نشتر کے تیر برسا رہا ہے ۔ ایوان اقتدار کے وہی مذمتی بیان ، کیفرِ کردار تک پہنچانے کے فرسودہ دعوے انصاف کے منہ پر طما چہ مار رہے ہیں ۔سوشل میڈیاJusticeForZainab # کا علم بلند کیے ہوئے ہے ۔ ہر جگہ سوالات کی بوچھاڑ ہے کہ قانون کی لاٹھی ہے کہاں ؟ درندے چھپے ہیں کہاں ؟ یہ سب کب تک جاری رہے گا ؟ انتہا کہاں ہو گی ؟ نئے معاشرے کا جنم کب ہو گا ؟ درندوں کا محاسبہ کون کر ے گا ؟ زبانِ خلق کی سرعام پھانسی کی فریاد کب نقارہ خدا بنے گی ؟ دھرتی ماں کی فضائیں کب محفوظ ہوں گی؟امن کا سورج کب طلوع ہو گا ؟

دوسری جانب یہ بحث بھی شدت اختیار کر چکی ہے اخلاقی گراوٹ اور جسمانی ہوس کی انتہائی پستہ حالت میں وقت تقاضا کر رہا ہے کہ کہ بچوں سے بیٹھ کر اب تفصیل سے بات کی جائے ۔ گڈ ٹچ ااور بیڈ ٹچ کا فرق سمجھایا جائے ۔اخلاقیات اور نامعقول حرکات کے بارے میں کھل کر بتایا جائے ۔ محبت و شفقت کی ایک ایک حد گن کر بتائی جائے ۔جان کے ساتھ جسم کی حفاظت کرنی سکھائی جائے ۔ خونی رشتوں سے بھی محتاط ہونا سکھایا جائے ۔ نظروں کے دیکھنے کا بھی بتایا جائے۔خوف و ڈر کے بجائے خود اعتمادی پیدا کی جائے ۔اور اسکے ساتھ والدین بھی بچوں کے چہروں کو پڑھنا سکھ لیں ۔ دوستی کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیں ۔

ایسے تشویش ناک دوراہے پرمیری آج دھرتی ماں کے باسیوں سے فریاد ہے ۔ گذارش ہے کہ آج ہر شخص اپنے گریبان میں ذرا جھانکے تو سہی ۔کہیں اسکے اندر کوئی حیوانیت تو نہیں چھپی ہو ئی؟ زیادتی اور پسندیدگی خاص فرق کے ساتھ قابلِ قبول تو نہیں ہو چکی ؟اے دھرتی ماں کے باسیو! ذرا خود سے یہ پوچھو تو سہی !
پھر ذرا اشرافیہ اور اربابِ اختیار سے بھی پوچھو تو سہی!
کیا غلاظت اور تسکین کے پیمانے بد ل چکے ہیں ؟
کیا واقعی درندہ فعل طاقتور ایوانوں کی نظر میں قابلِ نفرت ہے ؟
کیا وہ بد بو دار اور دغدار یوں سے واقعی گھن کھاتے ہیں ؟
نوچتے ،چھیرتے آوارہ وحشیوں کے آگے کیا واقعی قانون بے بس ہے ؟

دھرتی کی فضائیں گواہ تو ہیں ۔ لیکن وہ خاموش تماشائی ہیں کیونکہ انٹر ٹینمنٹ کے طبقے، معاشرے کی اشرافیہ اور مملکت کے ارباب اختیار کا طرزِ زندگی جس قدر جسمانی لذت کی خواہشات کی دلدل میں دھس چکا ہےکیاحیوانیت اور غلا ظت کا فعل عیاش طبقے کے لئے باعثِ تسکین نہیں ؟
ماڈرن اور جدید یافتہ زمانے کے درجنوں ناموں نے کیا گندگی کی بد بو ختم کر دی ؟
وحشی بربریت اور پسندیدگی کی غلاظت نےا حساسات کےکیا معنی بدل دیے ؟
غور کرو تو سہی یہ تو وہی معاشرہ ہے جو پھر پرائیویسی کے اصول سمجھاتا ہے ۔موت کی سختی ،قبرکے عذاب خوفِ خدا کے احکامات کو رب اور بندے کا معاملہ قرار دیتا ہے
ایسی صورت حال میں کیا معاشرہ واقعی زینب سے شرمندہ ہے ؟ ذرا یہ خود سے پوچھو تو سہی !

مصنف کے بارے میں

فائزہ یٰسین بلاگر ہیں اور صحافت کا سفر نیو نیٹ ورک سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔