’’بنت حوا کو مرنے نہ دو ‘‘

’’بنت حوا کو مرنے نہ دو ‘‘

مملکتِ خداداد میں حوا کی بیٹی کبھی کسی جرگے کے ہاتھوں پامال ہوتی ہے تو کبھی بدلے کی آگ میں جلا دی جاتی ہے ۔ کبھی رشتے سے انکار پر تیزاب سے اس کا چہرہ مسخ کردیا جاتا ہے تو کبھی جہیز نہ ملنے پر آگ کی نذر کر دی جاتی ہے ۔ غرض اس معاشرے میں عورت نے کسی نہ کسی صورت اپنی بقا ء کی جنگ اور قربانی دی ہے ۔ اب قصور میں انتہائی افسوس ناک واقعے میں ایک اور ننھی کلی کھلنے سے پہلے ہی مسل دی گئی ۔


کائنات میں وجہء رنگ کوبے رنگ کر دیا گیا ۔ معصوم سات سالہ زینب کو اغوا کیا ٗہوس پوری کی اور کچرے کے ڈھیر میں پھینک دیا ۔یہ حیوانیت اور درندگی کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے۔ یہ اس نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے جو اس ملک میں رونما ہو اہو ایسے بہت سے واقعات عموما ہوتے رہتے ہیں ۔ اور بات محض افسوس ، بڑے بڑے انصاف دلانے کے دعووں تک ہی رہ جاتی ہے ۔ چاہے قصور ہو ، کراچی ہو یا ملک کا کوئی اور کونہ ،اس قسم کے واقعات ملک کے طول و عرض میں رپورٹ ہوتے رہے ہیں ۔ آج ہر مکتبہء فکر کے لوگ اس واقعے پر احتجاج کر رہے ہیں ، سوشل میڈیا افسوس کے ساتھ ساتھ انصاف دلوانے کے لیئے پیش پیش ہے ۔خواتین کسی بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار اداکرتی ہیں ۔ پاکستان بھی ان ممالک کی صف میں شامل ہوگیا جہاں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کررہی ہیں ۔ گھر ہو یا سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری ، خواتین نے ہمیشہ اپنے فرائض احسن طریقے سے سرانجام دئیے ہیں ۔ لیکن اس جدوجہد کے باوجود پاکستان میں خواتین کو ان کا مناسب مقام نہیں دیا جاتا ۔

میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ کیا یہ پہلا واقعہ ہے جو اس ملک میں ہوا ہے؟ کیا یہ ایک ہی زینب ہے جو کچرے کے ڈھیر سے ملی ہے ؟ کیا پہلی بنتِ حوا ہے جس کی عزت اور تقدس کو پامال کیا ہے ؟ نہیں ،قصور شہر کی معصوم زینب ہی نہیں بلکہ ایک سا ل میں اس جیسی دس اور معصوم کلیاں حیوانیت کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ لیکن آئین ، قانون ، اور دیگر ادارے ہونے کے باوجود کبھی پیسے کی جیت ہوئی ہے تو کبھی سیاسی اثرورسوخ جیت گیا، توکبھی کوئی عزت کی خاطر خاموش رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔ اور یوں یہ ناسور دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے ۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت اس واقعے پر شفاف تحقیقات کرے اور اس میں ملوث درندوں کو آئین و قانون کے مطابق انجام تک پہنچائے ورنہ مستقبل ِ قریب میں کتنی اور زینب ایسی درندگی اور حوس کا نشانہ بنتی رہیں گی ۔ میری ارباب بست و کشاد سے بس اتنی التجا ہے کہ اس مملکت خداداد میں بنت ہوا کو مرنے نہ دو ۔ خدارا

مصنف کے بارے میں