وزیراعلیٰ نے گورنر کے کہنے پر اعتماد کا ووٹ لے لیا، معاملہ حل ہوگیا: جسٹس عابد عزیز شیخ 

وزیراعلیٰ نے گورنر کے کہنے پر اعتماد کا ووٹ لے لیا، معاملہ حل ہوگیا: جسٹس عابد عزیز شیخ 
سورس: LHC

لاہور : لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا ہے کہ آپ نے اچھا کیا اعتماد کا ووٹ لے لیا۔ اعتماد کا ووٹ لینے سے ایک معاملہ تو حل ہوگیا ہے۔ اگر دونوں فریقین اس رضامندی ظاہر کرتے ہیں تو یہ حکم جاری کردیتے ہیں کہ گورنر کا نوٹیفکیشن کالعدم ہوگا ۔ گورنر کی طرف سے آرڈر واپس لینے پر عدالت نے وزیر اعلیٰ پنجاب کی درخواست خارج کردی۔ 

پرویز الہٰی کو وزارت اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کے خلاف درخواست پر لاہور ہائیکورٹ کا 5 رکنی لارجر بنچ جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں سماعت کیے۔  جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ یہ بھی دیکھنا ہے کہ گورنر نے اعتماد کے ووٹ کےلیے جو وقت دیا تھا وہ مناسب تھا یا نہیں  ۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ  اس حوالے سے ماضی کے تین عدالتی فیصلے آپ کے سامنے رکھنا چاہوں گا ۔ 

لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ اگر دونوں فریقین رضامندی ظاہر کرتے ہیں تو یہ حکم بھی جاری کردیتے ہیں کہ گورنر نے جو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا تھا وہ ٹیسٹ ہوگیا ۔ گورنر پنجاب کے وکیل نے کہا کہ  اتفاق رائے کی ضرورت نہیں ہے ۔ عدالت نے پرویز الہٰی کے وکیل کو مخاطب کرتے کہا آپ نے آرٹیکل 137 کے تحت ووٹ لیا ہے ۔اس کا مطلب ہے گورنر کا حکم درست تھا۔

عدالت کا کہنا ہے کہ اگر گورنر کا نوٹیفکیشن کالعدم ہوگا تو پھر تو آپ کے ووٹ لینے کا معاملہ کالعدم ہوجائے گا ۔ جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ آپ نے عدالت کو مطمئن کرنے کے لیے ووٹ نہیں بلکہ آرٹیکل  137 کے تحت ووٹ لیا ہے  ۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیے کہ اعتماد کا ووٹ تو آپ نے لیا ہے ۔یہ ہوسکتا ہے کہ ہم کہہ دیتے ہے کہ گورنر کا نوٹیفکیشن درست نہیں تھا  اور پھر آپ  اسمبلی جا کر جو کرنا چاہیں وہ کریں ۔ جسٹس عابد عزیز نے استفسار کیا کہ کیا ایسے میں گورنر مطمن ہو گئے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ووٹوں کے ریکارڈ کو عدالت دلائل کا حصہ بنا دیا جائے۔ وکیل گورنر نے کہا کہ ہمیں بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں۔جسٹس عابد عزیز نے کہا اس کا مطلب ہے کہ گورنر کو مطمئن کردیا گیا ہے ۔ 

گورنر کے وکیل نے پرویز الہی کے اعتماد کے ووٹ پر اعتراض اٹھا دیا۔ کہا  گزشتہ رات اعتماد کے ووٹ کے کیے قواعد وضوابط پورے نہیں کیے گئے ۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اگر گورنر کل دوبارہ اعتماد کے ووٹ کا کہہ دیں تو پھر کیا ہوگا ؟

دوران سماعت جسٹس عاصم حفیظ نے عدالتی سماعت پر تجزیہ اور تبصروں پراظہار تشویش  کیا اور کہا کہ  شام 7 سے رات 11 تک جوڈیشل ریویو ہوتا ہے ۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا میرے سامنے بہت قابل ججز بیٹھے ہیں ۔ جسٹس عاصم نے ریمارکس دیے کہ قابل  لوگ دیکھنےہیں تو شام 7سےرات11 بجےٹی وی دیکھا کریں ۔زیر سماعت کیس کو وہ ختم کرکے رائے دے رہے ہوتے ہیں۔ 

مصنف کے بارے میں