سارک چیمبر پاکستان چیپٹر کا وفد سارک موسمیاتی تبدیلی سیمینار میں شرکت کیلئے ڈھاکہ روانہ ہو گیا

سارک چیمبر پاکستان چیپٹر کا وفد سارک موسمیاتی تبدیلی سیمینار میں شرکت کیلئے ڈھاکہ روانہ ہو گیا
کیپشن: موسمیاتی تبدیلی انسانیت کے لئے بڑا چیلنج ہے اور عالمی برادری اسحوالے سے متحد ہے، سینئر نائب صدر سارک چیمبر افتخار علی ملک


لاہور : سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری پاکستان چیپٹر کا اعلیٰ سطح کا وفد سارک موسمیاتی تبدیلی سیمینار میں شرکت کیلئے ڈھاکہ روانہ ہو گیا۔ بنگلہ دیش کے دارالحکومت میں 15 جولائی کو منعقد ہونیوالے ایک روزہ سیمینار کا موضوع ’’جنوبی ایشیا: موسمیاتی سمارٹ سرمایہ کاری کے مواقع کو حقیقت کا رنگ دینا‘‘ہے۔

جمعرات کو روانگی سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفد کے سربراہ سارک چیمبر کے سینئر نائب صدر افتخار علی ملک نے کہا کہ موسمیاتی مسائل سے نمٹنے کیلئے سرکاری اداروں کے کردار کے فروغ کیلئے پاکستان سارک ممبر ممالک کے ساتھ کام کررہا ہے اور موسمیاتی تبدیلی کے مسائل سے نمٹنے کے لئے عالمی کوششوں میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے عزم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم 2015 میں موسمیاتی تبدیلی پر پیرس معاہدے کی توثیق کر چکے ہیں اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو 20 فیصد تک کم کرنے کے لئے اس کے اصولوں پر کاربند ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ موسمیاتی تبدیلی انسانیت کے لئے بڑا چیلنج بن چکا ہے اور عالمی برادری اسحوالے سے متحد ہے۔ پاکستان نے حال ہی میں موسمیاتی تبدیلی ایکٹ 2016 منظور کیا ہے اور اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن برائے ماحولیاتی تبدیلی کے تحت اپنی قومی اور بین الاقوامی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیائی ممالک خصوصاً بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کے بعض علاقوں میں انسانی صحت کیلئے انتہائی ناموزوں درجہ حرارت سیاس خطے کی 15 فی صد آبادی متاثر ہو رہی ہے اور 2015 میں شدید گرمی کی لہر، جس میں 2500 افراد ہلاک ہوگئے تھے، سمیت بہت سے واقعات اس صورتحال کے عکاس ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں اقتصادی ترقی و معاشی تنوع، آبادی بالخصوص نوجوانوں کی شہروں کی طرف نقل مکانی اور خطے میں غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی بہت بڑی تعداد نے موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کو انتہائی خطرناک سطح پر پہنچا دیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کی موسمیاتی تبدیلی سے منسلک خطرات کے لحاظ سے درجہ بندی 6 اور 7 کے طور پر کی گئی ہے لیکن دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کی صورتحال بھی بہتر نہیں ہے۔ پہاڑی ماحول کو لاحق خطرات بھوٹان اور نیپال کے لئے چیلنج ہیں، بنگلہ دیش اور سری لنکا ساحلی علاقوں سے منسلک خطرات سے نبرد آزما ہیں جبکہ بھارت اور پاکستان میں خشک سالی اور پانی کی کمی کے باعث مسلسل زرعی پیداوار کو درپیش چیلنجز کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خطے میں اقتصادی ترقی، غربت میں کمی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے بچاؤ کے لئے بہت بڑی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے تاہم ان پالیسیوں کے نتائج اور فوائد کے حوالے سے غیر یقینی کی صورتحال موجود ہے اور پالیسی سازوں کو اس حوالے سے بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

افتخار علی ملک نے کہا کہ سارک ممبر ممالک کو نجی شعبہ کے ساتھ ملک کر ’’صاف، سبز کاروبار‘‘ کو فروغ دینے کے لئے کام کرنا ہوگا اور متعلقہ شراکت داروں کی کپیسٹی بلڈنگ اور حوصلہ افزائی پر خصوصی توجہ دینا ہو گی۔